الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
13. بَابُ : إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ فَأَنْصِتُوا
13. باب: جہری نماز میں امام قرات کرے تو اس پر خاموش رہنے کا بیان۔
Chapter: When the Imam is reciting, then listen attentively
حدیث نمبر: 848
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وهشام بن عمار ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري ، عن ابن اكيمة ، قال: سمعت ابا هريرة ، يقول: صلى النبي صلى الله عليه وسلم باصحابه صلاة نظن انها الصبح فقال:" هل قرا منكم من احد؟" قال رجل: انا، قال:" إني اقول ما لي انازع القرآن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ أُكَيْمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصْحَابِهِ صَلَاةً نَظُنُّ أَنَّهَا الصُّبْحُ فَقَالَ:" هَلْ قَرَأَ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ؟" قَالَ رَجُلٌ: أَنَا، قَالَ:" إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کوئی نماز پڑھائی، (ہمارا خیال ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی) نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے قراءت کی ہے؟، ایک آدمی نے کہا: جی ہاں، میں نے کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سوچ رہا تھا کہ کیا بات ہے قرآن پڑھنے میں کوئی مجھ سے منازعت (کھینچا تانی) کر رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 137 (826، 827)، سنن الترمذی/الصلاة 117 (312)، سنن النسائی/الافتتاح 28 (920)، (تحفة الأشراف: 14264)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 10 (44)، مسند احمد (2/240، 284، 285، 302، 487) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Ibn Ukaimah said: “I heard Abu Hurairah say: ‘The Prophet (ﷺ) led his Companions in a prayer; we think it was the Subh. He said: “Did anyone among you recite?” A man said: “I did.” He said: “I was saying to myself, what is wrong with me that someone is fighting to wrest the Qur’an from me?”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن النسائى الصغرى920عبد الرحمن بن صخرما لي أنازع القرآن
   جامع الترمذي312عبد الرحمن بن صخرمالي أنازع القرآن
   سنن أبي داود826عبد الرحمن بن صخرمالي أنازع القرآن
   سنن ابن ماجه848عبد الرحمن بن صخرما لي أنازع القرآن
   مسندالحميدي983عبد الرحمن بن صخرهل قرأ معي منكم أحد؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 826  
´امام زور سے قرآت نہ کرے تو مقتدی قرآت کرے اس کے قائلین کی دلیل۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے جس میں آپ نے بلند آواز سے قرآت کی تھی پلٹے تو فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ ابھی ابھی قرآت کی ہے؟، تو ایک آدمی نے عرض کیا: ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: تبھی تو میں (دل میں) کہہ رہا تھا کہ کیا ہو گیا ہے کہ قرآن میں میرے ساتھ کشمکش کی جا رہی ہے۔‏‏‏‏ زہری کہتے ہیں: جس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا تو جس نماز میں آپ جہری قرآت کرتے تھے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآت کرنے سے رک گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن اکیمہ کی اس حدیث کو معمر، یونس اور اسامہ بن زید نے زہری سے مالک کی حدیث کے ہم معنی روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 826]
826۔ اردو حاشیہ:
➊ امام جب سری قرأت کر رہا ہو تو مقتدی بھی قرأت کریں۔ سورۃ فاتحہ اور مذید بھی پڑھیں۔
➋ یہ استدلال کہ امام جہری قرأت کرے اور مقتدی فاتحہ بھی نہ پڑھے، ہرگز راحج نہیں ہے۔ امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے ا گلی روایت سے ثابت کیا ہے کہ «فانتهي الناس عن القراة» جناب زہری کا مقولہ ہے نہ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا۔ لہٰذا مدرج ہونے کی وجہ سے ناقابل حجت ٹھرا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 826   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 920  
´جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے جس میں آپ نے زور سے قرآت فرمائی تھی سلام پھیر کر پلٹے تو پوچھا: کیا تم میں سے کسی نے ابھی میرے ساتھ قرآت کی ہے؟ تو ایک شخص نے کہا: جی ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج بھی میں کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے کہ مجھ سے قرآن چھینا جا رہا ہے۔‏‏‏‏ زہری کہتے ہیں: جب لوگوں نے یہ بات سنی تو جن نمازوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زور سے قرآت فرماتے تھے ان میں قرآت سے رک گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 920]
920 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار مقتدی کے اونچا پڑھنے پر تھا کیونکہ امام کو دقت تبھی پیش آئے گی جب کسی کی گن گن اس تک پہنچتی ہو گی۔ اگر وہ آہستہ پڑھے، اس کی آواز کسی کو نہ سنائی دے تو اس سے کسی کو کیا خلجان یا منازعت ہو سکتی ہے؟ البتہ جہری نماز میں مقتدیوں کو فاتحہ سے زائد پرھنے سے صراحتاً روکا گیا ہے، لہٰذا جہری نمازوں میں مقتدی سورۂ فاتحہ سے زائد نہیں پڑھ سکتا، نہ جہراً نہ سراً۔ آخری قول سے مراد بھی سورۂ فاتحہ سے زائد قرأت ہے جس سے لوگ رک گئے۔ باقی رہی سورۂ فاتحہ تو خود راویٔ حدیث میں اس کے پڑھنے کا فتویٰ دیتے تھے۔ [ديكهيے، حديث: 910]
یاد رہے کہ یہ آخری قول امام زہری کا ہے جو صغار تابعین میں سے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام ابن قیم اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے امام بخاری رحمہ اللہ، امام مالک، امام ابوداود، امام ترمذی اور امام بیہقی رحمہ اللہ جیسے عظیم محدثین اور ائمہ، جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں کہ یہ امام زہری کا اپنا کلام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نہیں۔ دیکھیے: [التلخیص الجبیر، رقم: 344، عون المعبود: 3؍50۔ 52]
واللہ أعلم۔ انہوں نے یہ بات: «فانتهي الناس عن القراءة . . . الخ» کس سے سنی؟ یہ صراحت نہیں، لہٰذا یہ مرسل ہے اور «مراسيل الزهري كالريح» زہری کی مرسل روایات ہوا کی طرح ہیں لہٰذا ان کا یہ قول بھی ہوا کی طرح ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 920   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث848  
´جہری نماز میں امام قرات کرے تو اس پر خاموش رہنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کوئی نماز پڑھائی، (ہمارا خیال ہے کہ وہ صبح کی نماز تھی) نماز سے فراغت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے کسی نے قراءت کی ہے؟، ایک آدمی نے کہا: جی ہاں، میں نے کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سوچ رہا تھا کہ کیا بات ہے قرآن پڑھنے میں کوئی مجھ سے منازعت (کھینچا تانی) کر رہا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 848]
اردو حاشہ:
فوائدو مسائل:

(1)
جہری نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد امام کی قراءت خاموشی سے سننی چاہیے۔

(2)
تشہد میں سب سے پہلے التحیات للہ۔
۔
۔
آخر تک پوری دعا۔
اس کے بعد درود شریف۔
اورپھر دوسری دعایئں پڑھنی چاہییں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 848   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 312  
´امام جہر سے قرأت کرے تو اس کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اس نماز سے فارغ ہونے کے بعد جس میں آپ نے بلند آواز سے قرأت کی تھی تو فرمایا: کیا تم میں سے ابھی کسی نے میرے ساتھ قرأت کی ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا: جی ہاں اللہ کے رسول! (میں نے کی ہے) آپ نے فرمایا: تبھی تو میں یہ کہہ رہا تھا: آخر کیا بات ہے کہ قرآن کی قرأت میں میری آواز سے آواز ٹکرائی جا رہی ہے اور مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کی جاری ہے، وہ (زہری) کہتے ہیں: تو جب لوگوں نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے یہ بات سنی تو لوگ رسول اللہ صلی الله ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 312]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ جابر رضی اللہ عنہ کا اپنا خیال ہے،
اعتبار مرفوع روایت کا ہے نہ کہ کسی صحابی کی ایسی رائے کا جس کے مقابلے میں دوسرے صحابہ کی آراء موجود ہیں وہ آراء حدیث کے ظاہرمعنی کے مطابق بھی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 312   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.