الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
10. بَابٌ في الْقَدَرِ
10. باب: قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔
Chapter: Regarding the Divine Decree (Qadr)
حدیث نمبر: 85
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا ابو معاوية ، حدثنا داود بن ابي هند ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على اصحابه، وهم يختصمون في القدر، فكانما يفقا في وجهه حب الرمان من الغضب، فقال:" بهذا امرتم، او لهذا خلقتم تضربون القرآن بعضه ببعض، بهذا هلكت الامم قبلكم"، قال: فقال عبد الله بن عمرو: ما غبطت نفسي بمجلس تخلفت فيه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما غبطت نفسي بذلك المجلس وتخلفي عنه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَصْحَابِهِ، وَهُمْ يَخْتَصِمُونَ فِي الْقَدَرِ، فَكَأَنَّمَا يُفْقَأُ فِي وَجْهِهِ حَبُّ الرُّمَّانِ مِنِ الْغَضَبِ، فَقَالَ:" بِهَذَا أُمِرْتُمْ، أَوْ لِهَذَا خُلِقْتُمْ تَضْرِبُونَ الْقُرْآنَ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، بِهَذَا هَلَكَتِ الْأُمَمُ قَبْلَكُمْ"، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو: مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِمَجْلِسٍ تَخَلَّفْتُ فِيهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا غَبَطْتُ نَفْسِي بِذَلِكَ الْمَجْلِسِ وَتَخَلُّفِي عَنْهُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا تم اسی لیے پیدا کیے گئے ہو؟ تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض حصہ سے ٹکرا رہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئی ہیں ۱؎۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غیر حاضر ہونے کی ایسی خواہش اپنے جی میں نہیں کی جیسی اس مجلس سے غیر حاضر رہنے کی خواہش کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8704، ومصباح الزجاجة: 29)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/196، 178) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرنی چاہئے، جتنی اللہ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے اسی پر ایمان کافی ہے، اور اس کے بارے میں زیادہ غور و خوض اور قیل و قال، باطل میں قیل و قال کرنا ہے، اور اس طرح باقی امور جس میں شارع نے اجمال و اختصار سے کام لیا ہے اس کی شرح و تفصیل کی بھی ہمیں ضرورت نہیں۔

'Amr in Shu'aib narrated from his father that his grandfather said: "The Messenger of Allah (ﷺ) came out to his Companions when they were disputing about the Divine Decree, and it was as if pomegranate seeds had burst on his face (i.e. turned red) because of anger. He said: 'Have you been commanded to do this, or were you created for this purpose? You are using one part of the Qur'an against another part, and this is what led to the doom of the nations who came before you.'" 'Abdullah bin 'Amr said: "I was never happy to have missed a gathering with the Messenger of Allah (ﷺ) as I was to have missed that gathering.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح مسلم6776عبد الله بن عمروهلك من كان قبلكم باختلافهم في الكتاب
   سنن ابن ماجه85عبد الله بن عمروبهذا أمرتم أو لهذا خلقتم تضربون القرآن بعضه ببعض بهذا هلكت الأمم قبلكم
   مشكوة المصابيح99عبد الله بن عمرووروى ابن ماجه في القدر نحوه عن عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده
   مشكوة المصابيح152عبد الله بن عمروإنما هلك من كان قبلكم باختلافهم في الكتاب
   مشكوة المصابيح237عبد الله بن عمروإنما هلك من كان قبلكم بهذا: ضربوا كتاب الله بعضه ببعض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 99  
´مسئلہ تقدیر میں بحث و مباحثہ کی ممانعت`
«. . . ‏‏‏‏وروى ابْن مَاجَه فِي الْقدر نَحْوَهُ عَنْ عَمْرٍو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ . . .»
. . . اور ابن ماجہ نے اس کی مثل عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے شعیب کے دادا سے بیان کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 99]

تخریج:
[ابن ماجه 85]

تحقیق الحدیث:
ابن ماجہ والی روایت کی سند حسن ہے۔
اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ [المسند 2؍178]
بوصیری نے زوائد میں کہا ہے:
«هذا إسناد صحيح»
ابن ماجہ والی روایت کی سند کا متن یہ ہے:
(سیدنا) عبداللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور وہ (صحابہ) تقدیر کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ گویا غصے کی وجہ سے آپ کے چہرے پر انار نچوڑ دیا گیا ہو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے؟ کیا تم اس لئے پیدا کئے گئے ہو؟ تم بعض قرآن کو بعض سے ٹکرا رہے ہو۔ تم سے پہلی امتیں اس وجہ سے (بھی) ہلاک ہوئی ہیں۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کبھی یہ پسند نہیں کیا کہ میں آپ کی کسی مجلس میں پیچھے رہوں سوائے اس مجلس کے یعنی کاش میں اس مجلس میں نہ ہوتا۔
تنبیہ:
اس روایت کے راوی عمرو بن شعیب بالاتفاق ثقہ تابعی ہیں۔ جمہور محدثین کے نزدیک «عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده» والی سند صحیح، حسن اور حجت ہوتی ہے۔ دیکھئے: فتاویٰ ابن تیمیہ [18؍8] تہذیب السنن لابن القیم [6؍374] الترغیب والترہیب [875/4] نصب الرایہ 58/1] معارف السنن للبنوری الدیوبندی [315/3] محاسن الاصطلاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح للبلقینی [ص481]
اور راقم الحروف کی کتاب الکواکب الدریۃ فی وجوب الفاتحہ خلف الامام فی الجہریتہ [ص 37-34]
↰ عبدالرشید نعمانی دیوبند تقلیدی لکھتے ہیں:
اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو حجت مانتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔ [ابن ماجه اور علم حديث ص151]
↰ جمہور محدثین کی اس توثیق کے مقابلے میں بعض لوگوں کا اس سلسلہ سند پر جرح کرنا مردود ہے۔

فقہ الحدیث:
➊ تقدیر کے بارے میں اختلاف کرنا اور بال کی کھال اتارنے کی کوشش کرنا ممنوع ہے۔
➋ عقیدہ تقدیر پر ایمان واجب ہے اور کریدنے والے سوالات سے اجتناب کرنا چاہئیے۔
➌ کتاب و سنت کے منافی کاموں پر غصے کا اظہار بالکل صحیح بلکہ شان ایمان ہے۔
➍ قرآن کو قرآن سے ٹکرانا (اور حدیث کو حدیث یا قرآن سے ٹکرانا) غلط و باطل ہے۔
➎ اختلاف برائے اختلاف جس میں اصلاح کی غرض ہو نہ مقصود علم تو ایسا اختلاف ہلاکت کے اسباب میں سے ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 99   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 152  
´نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا ایک منظر`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن عبد الله بن عَمْرو قَالَ: هَجَّرْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قَالَ: فَسَمِعَ أَصْوَاتَ رَجُلَيْنِ اخْتَلَفَا فِي آيَةٍ فَخَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِي - [55] - وَجْهِهِ الْغَضَبُ فَقَالَ: «إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ باختلافهم فِي الْكتاب» . رَوَاهُ مُسلم . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں دوپہر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں۔ جو ایک (متشابہ) آیت میں بحث و مباحثہ اور اختلاف کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ اور ناراضگی کے اساب نمایاں جو صاف طور پر پہچانا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ اللہ کی کتاب میں اختلاف ڈالنے کی وجہ سے ہلاک و برباد ہو گئے۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 152]

تخریج الحدیث:
[صحيح مسلم 6776]

فقہ الحدیث:
➊ قرآن مجید کے بارے میں اپنی رائے سے ایسا اختلاف کرنا جائز نہیں ہے جس سے جھگڑا اور باہمی نفرت پیدا ہو بلکہ آیات کے مفہوم کو احادیث اور سلف صالحین کے فہم کے مطابق حل کرنا، سمجھنا اور عمل کرنا چاہئیے۔
➋ آیات سے ایسا استدلال جو کفر و شرک یا بدعت کی طرف لے جائے حرام ہے۔
➌ کتاب و سنت کے منافی امور پر غیظ و غضب کا اظہار جائز ہے۔
➍ گمراہی کی اصل جڑ یہ ہے کہ کتاب و سنت کی غلط تاویل کر کے سلف صالحین کے خلاف استدلال کیا جائے یا کتاب و سنت کا ہی انکار کر دیا جائے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 152   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 237  
´قرآن کریم کے مفاہیم پر اختلاف اور جھگڑے کی ممانعت`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قوما - [80] - يتدارؤون فِي الْقُرْآنِ فَقَالَ: " إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِهَذَا: ضَرَبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ ". رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه . . .»
. . . سیدنا عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں سے سنا کہ وہ لوگ قرآن مجید میں اختلاف کرتے، ایک دوسرے کے خلاف دفع کرتے اور جھگڑا کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے زمانہ کے لوگ اسی وجہ سے برباد ہو گئے کہ انہوں نے کتاب اللہ کے بعض حصے کو بعض حصے پر مارا۔ یعنی آیتوں میں تناقص اور تعارض پیدا کیا حالانکہ کتاب اللہ کا بعض حصہ بعض کی تصدیق کرتا ہے نہ کہ تکذیب لہٰذا تم قرآن مجید کے بعض حصے سے بعض حصے کو نہ جھٹلاؤ، اور قرآن سے جتنا تم جانتے ہو اس کو بیان کرو اور جس کو تم نہیں جانتے اسے جاننے والے کے حوالے کر دو۔ اس حدیث کو احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 237]

تحقیق الحدیث:
مسند احمد کی سند ضعیف ہے۔
مسند احمد کی روایت میں امام ابن شہاب الزہری مدلس ہیں۔ دیکھئے: علل الحدیث لابن ابی حاتم [324/1 ح، 964]، شرح معانی الآثار للطحاوی [55/1] باب مس الفرج اور طبقات المدلسین لابن حجر [3/102] طبقہ ثالثہ
اور یہ روایت عن سے ہے، لہذا ضعیف ہے۔
◄ سنن ابن ماجہ میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس تشریف لائے اور وہ تقدیر کے بارے میں ایک دوسرے سے جھگڑا یعنی اختلاف کر رہے تھے۔ غصے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا گویا کہ انار نچوڑ دیا گیا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«بهذا أمرتم أو لهذا خلقتم؟ تضربون القرآن بعضه ببعض! لهذا هلكت الأمم قبلكم .»
کیا تمہیں اس کا حکم دیا گیا ہے یا کیا تم اس کے لئے پیدا کئے گئے ہو؟ تم قرآن کو ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہو! تم سے پہلے والی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں۔ الخ [سنن ابن ماجه بتحقيق الالباني ص31]
اس کی سند حسن ہے اور بوصیری نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [تسهيل الحاجه فى تحقيق سنن ابن ماجه قلمي ص6 ح86]

فقه الحدیث:
➊ تقدیر کے مسئلے میں اہل ایمان کا باہمی اختلاف جائز نہیں ہے۔
➋ کتاب اللہ کو ایک دوسرے سے ٹکرانا ہلاک شدہ امتوں (مثلاً یہود ونصاریٰ) کا وطیرہ ہے۔
➌ کتاب اللہ میں کوئی تعارض نہیں ہے اور اسی طرح قرآن و حدیث میں بھی کوئی تعارض نہیں ہے۔
➍ اگر مناسب نتیجہ نکلنے کی امید ہو تو کتاب وسنت کے منافی امور کا سختی سے رد کرنا بھی جائز ہے۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی تربیت کا ہر وقت خیال رکھتے تھے۔
➏ کتاب و سنت کے خلاف امور میں مداہنت اور نرمی ناجائز ہے۔
➐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں۔
➑ کتاب و سنت کے خلاف امور پر غصہ آ جانا فطری اور قابل تعریف ہے۔
➒ شریعت اسلامیہ میں اہل ایمان کا باہمی اتحاد ہر حال میں ضروری ہے۔
➓ بطور فائدہ عرض ہے کہ «اختلاف أمتي رحمة» (میری امت کا اختلاف رحمت ہے) کے الفاظ سے جو روایت بیان کی جاتی ہے، اس کی کوئی سند کسی کتاب میں موجود نہیں، بلکہ یہ موضوع روایت ہے جس کا بیان کرنا حلال نہیں ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 237   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث85  
´قضا و قدر (تقدیر) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے پاس آئے، وہ لوگ اس وقت تقدیر کے بارے میں بحث کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سخت غصہ کی وجہ سے سرخ ہو گیا، گویا کہ آپ کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا تم اسی لیے پیدا کیے گئے ہو؟ تم قرآن کے بعض حصہ کو بعض حصہ سے ٹکرا رہے ہو، اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوئی ہیں ۱؎۔ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا بیان ہے: میں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 85]
اردو حاشہ:
(1)
تقدیر اسرار الٰہی میں سے ایک سِر (راز)
ہے، اس پر مجمل ایمان لانا کافی ہے، اسی طرح دوسرے غیبی امور کے بارے میں بھی جس قدر بتا دیا گیا، اسے مان لینا کافی ہے اور جس چیز کی وضاحت نہیں کی گئی، اس کی تفصیل معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

(2)
قرآن و حدیث کی نصوص کی وضاحت اس انداز سے کرنی چاہیے کہ ان میں ٹکراؤ پیدا نہ ہو، ورنہ امت میں اختلاف و افتراق پیدا ہوتا ہے اور قرآن و حدیث پر ایمان میں فرق آنے کا اندیشہ ہے۔

(3)
قرآن و حدیث کے مطالعے کا اصل مقصد اخلاق و عمل کی اصلاح ہے۔
اگر کوئی شخص محض زور خطابت کے اظہار کے لیے یا اپنے علم و فضل کا رعب جمانے کے لیے پیچیدہ مسائل میں مشغول ہوتا ہے، تو یہ اصل مقصد کے خلاف اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث ہے۔

(4)
نصیحت کرتے ہوئے موقع محل کی مناسبت سے بعض اوقات غصے کا اظہار بھی کیا جا سکتا ہے، خصوصا جب کہ نصیحت کرنے والا قابل احترام شخصیت کا حامل ہو اور سامعین پر اس کے غصے کا منفی اثر پڑنے کا اندیشہ نہ ہو۔

(5)
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔
کسی دوسرے صحابی نے انہیں یہ واقعہ سنایا، تاہم محدثین کے اصول کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث براہ راست سننے والے صحابہ کا نام نہ بھی لیا جائے لیکن اس سے سن کر روایت کرنے والا بھی صحابی ہو تو ایسی حدیث بالاتفاق صحیح ہوتی ہے کیونکہ تمام صحابہ عادل (قابل قبول اور قابل اعتماد)
ہیں۔

(6)
صحابی کو اس مجلس سے غیر حاضری پر اس لیے خوشی ہوئی کہ حاضرین پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خفگی کا اظہار فرمایا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ مومن کو اگر نیکی کی توفیق مل جائے یا وہ کسی گناہ سے بچ جائے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنا فخر و ریا میں شامل نہیں بلکہ نیکی کی محبت اور گناہ سے نفرت کی علامت ہے جو ایمان کا ایک حصہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 85   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.