38. باب: اگر جمعہ کی نماز میں کچھ لوگ امام کو چھوڑ کر چلے جائیں تو امام اور باقی نمازیوں کی نماز صحیح ہو جائے گی۔
(38) Chapter. If some people leave the Imam during the Salat-ul-Jumuah (Jumuah prayer), then the Salat (prayer) of the remaining people and the Imam is permissible.
(مرفوع) حدثنا معاوية بن عمرو، قال: حدثنا زائدة، عن حصين، عن سالم بن ابي الجعد، قال: حدثنا جابر بن عبد الله، قال:" بينما نحننصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ اقبلت عير تحمل طعاما فالتفتوا إليها حتى ما بقي مع النبي صلى الله عليه وسلم إلا اثنا عشر رجلا، فنزلت هذه الآية وإذا راوا تجارة او لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما سورة الجمعة آية 11".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" بَيْنَمَا نَحْنُنُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَتْ عِيرٌ تَحْمِلُ طَعَامًا فَالْتَفَتُوا إِلَيْهَا حَتَّى مَا بَقِيَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا سورة الجمعة آية 11".
ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے حصین سے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی جعد نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں غلہ لادے ہوئے ایک تجارتی قافلہ ادھر سے گزرا۔ لوگ خطبہ چھوڑ کر ادھر چل دیئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کل بارہ آدمی رہ گئے۔ اس وقت سورۃ الجمعہ کی یہ آیت اتری «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما»”اور جب یہ لوگ تجارت اور کھیل دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔“
Narrated Jabir bin `Abdullah: While we were praying (Jumua Khutba & prayer) with the Prophet (p.b.u.h), some camels loaded with food, arrived (from Sham). The people diverted their attention towards the camels (and left the mosque), and only twelve persons remained with the Prophet. So this verse was revealed: "But when they see Some bargain or some amusement, They disperse headlong to it, And leave you standing." (62.11)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 58
نصلي مع النبي إذ أقبلت عير تحمل طعاما فالتفتوا إليها حتى ما بقي مع النبي إلا اثنا عشر رجلا فنزلت هذه الآية وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما
كان يخطب قائما يوم الجمعة فجاءت عير من الشام فانفتل الناس إليها حتى لم يبق إلا اثنا عشر رجلا فأنزلت هذه الآية التي في الجمعة وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما
قدمت عير إلى المدينة فابتدرها أصحاب رسول الله حتى لم يبق معه إلا اثنا عشر رجلا فيهم أبو بكر وعمر قال ونزلت هذه الآية وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها
قدمت عير المدينة فابتدرها أصحاب رسول الله حتى لم يبق منهم إلا اثنا عشر رجلا فيهم أبو بكر وعمر ونزلت الآية وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3311
´سورۃ الجمعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آ گیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑ کر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی تھے، اسی موقع پر آیت «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما»”اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے“(۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3311]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ(ﷺ) کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (الجمعة: 11)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3311
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 936
936. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑح رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ آیا جن کے ساتھ اونٹوں پر غلہ لدا ہوا تھا۔ لوگ اس قافلے کی طرف دوڑ پڑے حتی کہ نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اور جب وہ (لوگ) تجارت کا مال یا کھیل کود کا سامان دیکھتے ہیں تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:936]
حدیث حاشیہ: ایک مرتبہ مدینہ میں غلہ کی سخت کمی تھی کہ ایک تجارتی قافلہ غلہ لے کر مدینہ آیا، اس کی خبر سن کر کچھ لوگ جمعہ کے دن عین خطبہ کی حالت میں باہر نکل گئے، اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ حضرت امام ؒ نے اس واقعہ سے یہ ثابت فرمایا کہ احناف اور شوافع جمعہ کی صحت کے لیے جو خاص قید لگا تے ہیں وہ صحیح نہیں ہے، اتنی تعداد ضرور ہو جسے جماعت کہا جا سکے۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ سے اکثر لوگ چلے گئے پھر بھی آپ نے نمازجمعہ ادا فرمائی۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ صحابہ کی شان خود قرآن میں یوں ہے ﴿رِجَال لَا تُلھِیھِم تِجَارَة الخ﴾(النور: 37) یعنی میرے بندے تجارت وغیرہ میں غافل ہو کر میری یاد کبھی نہیں چھوڑدیتے۔ سوا س کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نزول سے پہلے کا ہے بعد میں وہ حضرات اپنے کاموں سے رک گئے اور صحیح معنوں میں اس آیت کے مصداق بن گئے تھے۔ رضي اللہ عنهم وأرضاهم (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 936
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:936
936. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑح رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ آیا جن کے ساتھ اونٹوں پر غلہ لدا ہوا تھا۔ لوگ اس قافلے کی طرف دوڑ پڑے حتی کہ نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اور جب وہ (لوگ) تجارت کا مال یا کھیل کود کا سامان دیکھتے ہیں تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:936]
حدیث حاشیہ: (1) ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں غلے کی سخت کمی تھی کہ ایک تجارتی قافلہ غلہ لے کر شام سے مدینے آیا۔ اس کی خبر سن کر کچھ لوگ عین خطبے کی حالت میں باہر چلے گئے، اس پر مذکورہ آیتِ جمعہ نازل ہوئی۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ کچھ فقہاء جمعہ کی صحت کے لیے مخصوص تعداد کی شرط لگاتے ہیں وہ صحیح نہیں۔ بس اتنی تعداد ضروری ہے جسے جماعت کہا جا سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اکثر لوگ چلے گئے لیکن آپ نے پھر بھی نماز جمعہ ادا فرمائی۔ (2) واضح رہے کہ لوگ بحالت خطبہ آپ کو چھوڑ کر گئے تھے کیونکہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آیت کریمہ سے کھڑے ہو کر خطبہ دینے کو ثابت کیا ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود اور حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے مروی ہے۔ روایات میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ یہاں پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کی شان قرآن کریم نے بایں الفاظ بیان کی ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں تجارت وغیرہ اللہ کے ذکر اور نماز کے قیام سے غافل نہیں کرتی۔ (النور37: 24) اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ آیت کے نزول سے پہلے کا ہے۔ اس کے بعد یہ حضرات اس سے رک گئے، پھر صحیح معنوں میں آیت کا مصداق بن گئے۔ (فتح الباري: 547/2)(3) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے تھے، جن میں ابوبکرؓ اورعمر بھی تھے، نیز ان میں حضرت جابر، حضرت سالم مولی ابن حذیفہ، حضرت بلال، حضرت عبداللہ بن مسعود اور کچھ انصاری لوگ بھی تھے۔ ۔ ۔ رضی اللہ عنہم۔ ۔ ۔ بعض روایات میں عشرۂ مبشرہ کے نام ملتے ہیں۔ (فتح الباري: 546/2) واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 936