الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان
The Book of Abridged Or Shortened Prayers (At-Taqsir)
16. بَابُ إِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ مَا زَاغَتِ الشَّمْسُ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ:
16. باب: سفر اگر سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہو تو پہلے ظہر پڑھ لے پھر سوار ہو۔
(16) Chapter. Whenever a person travels after midday, he should offer the Zuhr prayers and then ride for a journey.
حدیث نمبر: 1112
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، قال: حدثنا المفضل بن فضالة، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما، فإن زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلى الظهر ثم ركب".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا، فَإِنْ زَاغَتِ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر عصر کا وقت آنے تک نہ پڑھتے۔ پھر کہیں (راستے میں) ٹھہرتے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے لیکن اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھتے پھر سوار ہوتے۔

Narrated Anas bin Malik: Whenever the Prophet (saws) started on a journey before noon, he used to delay the Zuhr prayers till the time for the 'Asr prayer and then he would dismount and offer them together; and whenever the sun declined before he started on a journey he used to offer the Zuhr prayers and then ride (for journey).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 20, Number 213


   صحيح البخاري2838أنس بن مالكرجعنا من غزوة تبوك مع النبي
   صحيح البخاري1110أنس بن مالكيجمع بين هاتين الصلاتين في السفر يعني المغرب والعشاء
   صحيح البخاري1111أنس بن مالكإذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم يجمع بينهما وإذا زاغت صلى الظهر ثم ركب
   صحيح البخاري1112أنس بن مالكإذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما فإن زاغت الشمس قبل أن يرتحل صلى الظهر ثم ركب
   صحيح مسلم1627أنس بن مالكإذا عجل عليه السفر يؤخر الظهر إلى أول وقت العصر فيجمع بينهما ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء حين يغيب الشفق
   صحيح مسلم1626أنس بن مالكإذا أراد أن يجمع بين الصلاتين في السفر أخر الظهر حتى يدخل أول وقت العصر ثم يجمع بينهما
   صحيح مسلم1625أنس بن مالكإذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما فإن زاغت الشمس قبل أن يرتحل صلى الظهر ثم ركب
   سنن أبي داود1204أنس بن مالككنا مع رسول الله في السفر فقلنا زالت الشمس أو لم تزل صلى الظهر ثم ارتحل
   سنن أبي داود1218أنس بن مالكإذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما فإن زاغت الشمس قبل أن يرتحل صلى الظهر ثم ركب
   سنن النسائى الصغرى595أنس بن مالكإذا عجل به السير يؤخر الظهر إلى وقت العصر فيجمع بينهما ويؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء حتى يغيب الشفق
   سنن النسائى الصغرى587أنس بن مالكإذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما فإن زاغت الشمس قبل أن يرتحل صلى الظهر ثم ركب
   بلوغ المرام347أنس بن مالكإذا ارتحل قبل ان تزيغ الشمس اخر الظهر إلى وقت العصر ثم نزل فجمع بينهما فإن زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلى الظهر ثم ركب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 587  
´مسافر کس وقت ظہر اور عصر کو جمع کرے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو عصر تک ظہر کو مؤخر کر دیتے، پھر سواری سے نیچے اترتے اور جمع بین الصلاتین کرتے یعنی دونوں صلاتوں کو ایک ساتھ پڑھتے ۱؎، اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 587]
587 ۔ اردو حاشیہ:
➊مسافر اگر ظہر اور عصر اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرنا چاہے تو اس کی تین صورتیں ہیں: ایک جمع تقدیم ہے، یعنی ظہرکی نماز کے ساتھ عصر کو یا مغرب کے ساتھ عشاء کو جمع کر لیا جائے۔ دوسری صورت ہے جمع تاخیر، یعنی ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ اور مغرب کو مؤخر کر کے عشاء کے ساتھ پڑھا جائے۔ تیسری صورت جمع صوری ہے، یعنی ظہر کی نماز کو اس کے آخری وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں، اسی طرح مغرب کو اس کے آخری وقت میں اور عشاء کو اول وقت میں پڑھا جائے۔ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ساری ہی صورتیں ثابت ہیں۔ بنابریں پہلی دو صورتوں کا انکار کر کے صرف جمع صوری ہی پر اصرار کرنا، اس یسر (آسانی) کو ختم کرتا ہے جو شریعت کی طرف سے دی گئی ہے۔
➋مذکورہ حدیث کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں جمع صوری کا بیان ہے لیکن الفاظ حدیث اس کی تائید نہیں کرتے۔ اس میں ظہر کو عصر کے وقت پڑھنے کا ذکر ہے تو اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ آپ نے جمع تاخیر کی ہے، یعنی ظہر کو عصر کے وقت میں عصر کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی مزید تصریح کے ساتھ الفاظ آتے ہیں، فرمایا: «أخر الظهر الی أن یدخل وقت العصر» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کو اس حد تک مؤخر کیا کہ عصر کا وقت داخل ہو گیا۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 704]
اسی طرح دیگر روایات میں آتا ہے کہ سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھ لیتے (یعنی جمع تقدیم کر لیتے)۔ اس حدیث میں اختصار ہے جس کی وضاحت دوسری احادیث سے ہو جاتی ہے۔ اگلی احادیث میں ان ساری صورتوں کا بیان آرہا ہے، البتہ حج کے دوران عرفات میں ظہر اور عصر کو ظہر کے وقت میں پڑھنا متفق علیہ ہے اور یہ جمع تقدیم ہو گی۔ [صحیح مسلم، الحج، حدیث: 1218]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 587   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 595  
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو ظہر کو عصر کے وقت تک مؤخر کرتے، پھر دونوں کو ایک ساتھ جمع کرتے، اور مغرب کو شفق کے ڈوب جانے تک مؤخر کرتے، اور پھر اسے اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 595]
595 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی جمع تاخیر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 595   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 347  
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب زوال آفتاب سے پہلے سفر کا آغاز فرماتے تو ظہر کی نماز کو عصر کی نماز تک مؤخر کر لیتے تھے۔ پھر سواری سے نیچے تشریف لاتے اور ظہر و عصر دونوں نمازوں کو اکٹھا ادا فرماتے اور جب آفتاب آغاز سفر سے پہلے زوال پذیر ہو جاتا تو پھر نماز ظہر ادا فرما کر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
اور حاکم کی اربعین میں سند صحیح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر و عصر کی نمازیں پڑھیں پھر سواری پر سوار ہوئے۔ ابونعیم کی مستخرج میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ہوتے اور آفتاب زوال پذیر ہو جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر و عصر دونوں اکٹھی ادا فرما کر وہاں سے کوچ کرتے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 347»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب يؤخر الظهر إلي العصر إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس، حديث: 1111، ومسلم، صلاة المسافرين، باب جواز الجمع بين الصلاتين في السفر، حديث:704، وأبو نعيم في المستخرج:2 /294.»
تشریح:
اس حدیث کی رو سے سفر میں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھنا جائز ثابت ہوتا ہے۔
اس میں جمع تقدیم ہو یا تاخیر دونوں طرح ثابت ہے۔
احناف جمع حقیقی کے قائل نہیں‘ جمع صوری کے قائل ہیں۔
مگر جامع ترمذی کی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جمع صوری نہیں بلکہ جمع حقیقی تھی‘ چنانچہ اس کا مفہوم ہے کہ جب آفتاب زوال پذیر ہونے سے پہلے آپ سفر پر روانہ ہوتے تو ظہر کو مؤخر کر کے عصر کے ساتھ ملا کر دونوں کو اکٹھا ادا فرماتے اور جب سورج ڈھلنے کے بعد سفر کا آغاز فرماتے تو عصر کو ظہر کے ساتھ ملا کر دونوں کو اکٹھا ادا فرماتے۔
(جامع الترمذي‘ الجمعۃ‘ حدیث:۵۵۳) امام ترمذی نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔
اور مستخرج ابونعیم کی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے جسے مصنف رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
اور یہی بات راجح ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 347   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1204  
´مسافر کو شک ہو کہ نماز کا وقت ہوا یا نہیں پھر وہ نماز پڑھ لے تو یہ جائز ہے۔`
مسحاج بن موسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم سے آپ کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو، انہوں نے کہا: جب ہم لوگ سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو ہم کہتے: سورج ڈھل گیا یا نہیں ۱؎ تو آپ ظہر پڑھتے پھر کوچ کرتے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1204]
1204۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز کے اوقات کی معرفت اور اس کا وقت ہو جانا، صحت نماز کی اہم شرطوں میں سے ہے اور اس سلسلے میں امام موذن ہی ذمہ دار ہیں کسی ایک فرد کے شبے کا کوئی اعتبار نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو شبہ ظاہر کیا ہے، وہ حقیقت میں شبہ ہی ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز کبھی بھی زوال سے قبل نہیں پڑھی۔ اس لئے مقتدیوں کو اپنے امام پر اعتماد کرنا چاہیے۔
➋ اس میں یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلتے ہی اول وقت میں نماز پڑھا کرتے تھے اور سفر میں بھی اسی کا اہمتام فرماتے تھے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1204   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1112  
1112. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب زوال آفتاب سے پہلے سفر شروع کرتے تو نماز ظہر کو وقت عصر تک مؤخر کرتے، پھر پڑاؤ کر کے دونوں کو جمع کر لیتے۔ اگر سفر کے آغاز سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو نماز ظہر پڑھ کر سوار ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1112]
حدیث حاشیہ:
اس روایت میں زوال آفتاب کے بعد سفر شروع کرنے کی صورت میں صرف نماز ظہر پڑھنے کا ذکر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرنے کی یہ صورت ہے کہ پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں ادا کیا جاتا ہے جسے اصطلاح میں جمع تاخیر کہتے ہیں۔
امام بخاری ؒ کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے لیکن اس روایت کو جب امام اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ہے تو اس کے الفاظ یہ ہیں:
رسول اللہ ﷺ اگر سفر میں ہوتے اور سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو ملا کر پڑھ لیتے پھر سفر کا آغاز کرتے۔
اس روایت کا تقاضا ہے کہ جمع تقدیم بھی جائز ہے۔
اس کی تائید ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے امام حاکم ؒ نے اربعین میں بیان کیا ہے کہ اگر کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو ظہر اور عصر کو جمع کرتے اور پھر سوار ہوتے۔
اسے اسحاق بن راہویہ کی روایت کے لیے بطور متابعت پیش کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 753/2)
جمع تقدیم کے لیے حضرت معاذ بن جبل ؓ کی روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ زوال آفتاب کے بعد سفر کا ارادہ فرماتے تو ظہر اور عصر کو اکٹھا ادا فرما لیتے۔
(مسند أحمد: 241/5)
رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر ایسا کیا تھا۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 163/3)
حضرت انس بن مالک ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 164/3)
حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس طرح کی ایک روایت مروی ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 164/3)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی پسندیدہ جگہ پر پڑاؤ کرتے تو ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے، پھر سفر کا آغاز کرتے اور اگر مناسب جگہ میسر نہ آتی تو اپنے سفر کو جاری رکھتے، پھر کسی مناسب مقام پر اتر کر ظہر اور عصر کو جمع کر کے ادا فرما لیتے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 163/3)
اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے، تاہم امام بیہقی ؒ نے اس روایت کو بڑے جزم و وثوق کے ساتھ موقوف بھی بیان کیا ہے۔
واضح رہے کہ دوران سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کے علاوہ بارش، بیماری یا کسی دوسری ہنگامی ضرورت کے پیش نظر بھی جمع کیا جا سکتا ہے۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 169/3)
الغرض نمازوں کو ناگزیر قسم کے حالات اور شدید مجبوری کی صورت میں تو جمع کیا جا سکتا ہے جیسا کہ سفر، خوف، بیماری، بارش، سخت آندھی یا کسی ہنگامی ضرورت کے وقت دو نمازیں جمع کی جاتی ہیں، تاہم شدید ضرورت کے بغیر دو نمازوں کو جمع کرنا جائز نہیں، جیسا کہ ہمارے کاروباری حضرات کا عام معمول ہے کہ وہ سستی یا کاروباری مصروفیت کی وجہ سے ایسا کر لیتے ہیں۔
یہ صحیح نہیں بلکہ سخت گناہ ہے۔
بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ عذر کے بغیر نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
(فتح الباري: 753/2)
اس سلسلے میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بلا عذر نمازوں کو جمع کیا تھا، حالانکہ اس روایت میں منقول عذر کی وضاحت موجود ہے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1636(705)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1112   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.