الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2105
2105. اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے ایک ایسا تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اندر تشریف نہ لائے۔ میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تکیہ کیسا ہے؟"میں نے عرض کیا: میں نے یہ آپ کے لیے خریدکیا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا: جو صورتیں تم نے بنائی ہیں انھیں زندہ کرو۔ " نیز آپ نے فرمایا: "جس گھر میں تصویریں ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2105]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مکروہ چیز کی اس قسم کو بیان کیا گیا ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس مکروہ کا ذکر تھا جو صرف مردوں کے لیے ناجائز تھی۔
(2)
حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ تصویر والا کپڑا مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے اس کے باوجود آپ نے اس کی خریدوفروخت کو برقرار رکھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اس بیع کو فسخ کردیں۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تصویر کشی اور فوٹو گرافی ہر قسم کی حرام ہے،خواہ عکس ہویا مجسم،دیوار پر بنائی جائے یا کپڑے پر نقش ہو۔
حدیث میں مذکور وعید صرف بنانے والے ہی کے لیے نہیں بلکہ استعمال کرنے والے کو بھی شامل ہے۔
الغرض حدیث ابن عمر عنوان کے ایک جز پر دلالت کرتی ہے،یعنی اس چیز کی خریدوفروخت جائز ہے جسے مرد حضرات استعمال نہیں کرسکتے اور حدیث عائشہ عنوان کے تمام اجزاء پر دلالت کرتی ہے،اس لیے کہ تصویر والے کپڑے کا استعمال مرد اور عورت دونوں کے لیے منع ہے،اس کے باوجود اس کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ تصویروں کو ختم کرکے اسے بھی استعمال کرنا درست ہے۔
والله اعلم. الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الوعيد للمصور (اللباس والزينة)
2. عاقبة أصحاب الصور (اللباس والزينة)
3. حكم الصور على الوسائد (اللباس والزينة)
4. اتخاذ الصور في المنازل (اللباس والزينة)
5. الملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة (اللباس والزينة)
6. التجارة فيما يكره (المعاملات)
7. الملائكة لا تدخل بيتا فيه صور (الإيمان)
موضوعات 1. مصور کے لیے وعید (لباس اور زینت کے مسائل)
2. تصویر بنانے والوں کا انجام (لباس اور زینت کے مسائل)
3. تکیوں پر تصویریں رکھنا (لباس اور زینت کے مسائل)
4. گھروں میں تصاویر رکھنا (لباس اور زینت کے مسائل)
5. تصویروں والے گھروں میں فرشتے داخل نہیں ہوتے (لباس اور زینت کے مسائل)
6. مکروہ چیزوں کی بیع کرنا (معاملات)
7. فرشتے تصویروں والے گھر میں داخل نہیں ہوتے (ایمان)
Topics 1. Threat for photographer (Issues of Clothing and Fashion)
2. Reward for photographers (Issues of Clothing and Fashion)
3. Printed pillows (Issues of Clothing and Fashion)
4. Keeping pictures in houses (Issues of Clothing and Fashion)
5. Angels do not enter the house having pictures (Issues of Clothing and Fashion)
6. Selling abominable items (Matters)
7. Andels do not enter the house having pictures (Faith)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/2105 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے ایک ایسا تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو دروازے پر کھڑے ہوگئے اندر تشریف نہ لائے۔
میں نے آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!میں اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کرتی ہوں، مجھ سے کیا گناہ سر زد ہوا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"یہ تکیہ کیسا ہے؟"میں نے عرض کیا:
میں نے یہ آپ کے لیے خریدکیا ہے تاکہ آپ اس پر ٹیک لگا کر بیٹھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"یہ تصویریں بنانے والے قیامت کے دن عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا:
جو صورتیں تم نے بنائی ہیں انھیں زندہ کرو۔
" نیز آپ نے فرمایا:
"جس گھر میں تصویریں ہوں اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
" حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مکروہ چیز کی اس قسم کو بیان کیا گیا ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے جبکہ پہلی حدیث میں اس مکروہ کا ذکر تھا جو صرف مردوں کے لیے ناجائز تھی۔
(2)
حدیث کی باب سے مطابقت اس طرح ہے کہ تصویر والا کپڑا مرد اور عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے اس کے باوجود آپ نے اس کی خریدوفروخت کو برقرار رکھا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اس بیع کو فسخ کردیں۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تصویر کشی اور فوٹو گرافی ہر قسم کی حرام ہے،خواہ عکس ہویا مجسم،دیوار پر بنائی جائے یا کپڑے پر نقش ہو۔
حدیث میں مذکور وعید صرف بنانے والے ہی کے لیے نہیں بلکہ استعمال کرنے والے کو بھی شامل ہے۔
الغرض حدیث ابن عمر عنوان کے ایک جز پر دلالت کرتی ہے،یعنی اس چیز کی خریدوفروخت جائز ہے جسے مرد حضرات استعمال نہیں کرسکتے اور حدیث عائشہ عنوان کے تمام اجزاء پر دلالت کرتی ہے،اس لیے کہ تصویر والے کپڑے کا استعمال مرد اور عورت دونوں کے لیے منع ہے،اس کے باوجود اس کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے کیونکہ تصویروں کو ختم کرکے اسے بھی استعمال کرنا درست ہے۔
والله اعلم. حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہیں قاسم بن محمد نے اور انہیں ام المومنین عائشہ ؓ نے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس پر مورتیں تھیں۔
رسول کریم ﷺ کی نظر جوں ہی اس پر پڑی، آپ ﷺ دروازے پر ہی کھڑے ہو گئے اور اندر داخل نہیں ہوئے۔
(عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ)
میں نے آپ کے چہرہ_x0004_¿ مبارک پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے تو عر ض کیا، یا رسول اللہ! میں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتی ہوں اور اس کے رسول اللہ ﷺ سے معافی مانگتی ہوں، فرمائیے مجھ سے کیا غلطی ہوئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا، یہ گدا کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے یہ آپ ہی کے لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور اس سے ٹیک لگائیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا، لیکن اس طرح کی مورتیں بنانے والے لوگ قیامت کے دن عذاب کئے جائیں گے۔
اور ان سے کہا جائے گاکہ تم لوگوں نے جس چیزکو بنایا اسے زندہ کر دکھاؤ۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جن گھروں میں مورتیں ہوتی ہیں (رحمت کے)
فرشتے ان میں داخل نہیں ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
تشریح:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے، نقشی ہو یا مجسم۔
اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔
اور باب کا مطلب اس حدیث سے اس طرح نکلتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نے مورت دار کپڑا عورت مرد دونوں کے لیے مکروہ رکھا مگر اس کا خریدنا جائز سمجھا۔
اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم نہیں دیا کہ بیع کو فسخ کریں۔
(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA)
:
(mother of the faithful believers)
I bought a cushion with pictures on it. When Allah's Apostle (ﷺ) saw it, he kept standing at the door and did not enter the house. I noticed the sign of disgust on his face, so I said, "O Allah's Apostle (ﷺ)! I repent to Allah and H is Apostle (ﷺ) . (Please let me know)
what sin I have done." Allah's Apostle (ﷺ) said, "What about this cushion?" I replied, "I bought it for you to sit and recline on." Allah's Apostle (ﷺ) said, "The painters (i.e. owners)
of these pictures will be punished on the Day of Resurrection. It will be said to them, 'Put life in what you have created (i.e. painted)
.' " The Prophet (ﷺ) added, "The angels do not enter a house where there are pictures." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
تشریح:
اس حدیث سے صاف نکلتا ہے کہ جاندار کی مورت بنانا مطلقاً حرام ہے، نقشی ہو یا مجسم۔
اس لیے کہ تکئے پر نقشی صورتیں بنی ہوئی تھیں۔
اور باب کا مطلب اس حدیث سے اس طرح نکلتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نے مورت دار کپڑا عورت مرد دونوں کے لیے مکروہ رکھا مگر اس کا خریدنا جائز سمجھا۔
اس لیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ حکم نہیں دیا کہ بیع کو فسخ کریں۔
(وحیدی)
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2123٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
2105٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
1963٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
2105٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
1999٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2044٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2105٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2105١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2105 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اللہ نے تجارت کوحلال کیا ہے۔
اور سود کو حرام قراردیا ہے۔
" نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا؛"ہاں جوتجارتی لین دین دست بدست تم لوگ کرتے ہو(اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں)
" فائدہ:
سود، جوا اور رشوت لینے دینے میں بھی باہمی رضا مندی پائی جاتی ہے لیکن یہ حقیقی نہیں بلکہ اضطراری ہوتی ہے کیونکہ سود پر قرض لینے والے کو قرض حسنہ مل سکتا ہوتو وہ کبھی سود پر قرض نہ لے۔
جوا کھیلنے والا اس لیے رضا مند ہوتا ہے کہ ان میں سے ہرایک کو اپنے جیتنے کی امید ہوتی ہے اور اگر کسی کوہارنے کا اندیشہ ہوتو وہ کبھی جوا نہیں کھیلے گا۔
اسی طرح اگر رشوت دینے والے کو معلوم ہوکہ اسے رشوت دیے بغیر حق مل سکتاہے تو وہ کبھی رشوت نہ دے۔
اس کے علاوہ اگر سودے بازی میں ایک فریق کی پوری رضا مندی نہ ہو اور اسے اس پر مجبور کردیا جائے تو وہ بھی اس ضمن میں آتا ہے۔
انسانی معاشرے کو تعلقات کے اعتبار سے دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ انسان اپنے خالق سے تعلق قائم کرتا ہے اسے ہم عبادات سے تعبیر کرتے ہیں۔
اقرار شہادتین، نماز، زکاۃ، حج اور روزہ وغیرہ اسی تعلق مع اللہ کے مظاہر ہیں۔
دوسرے یہ کے انسان کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اسے معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات سے فراغت کے بعد اب معاملات کا آغاز کیا ہے۔
انسانوں کی فطری ساخت ایسی ہے کہ وہ زندگی گزارنے کے لیے باہمی تعاون اور ایک دوسرے سے لین دین کے محتاج ہیں۔
معاشرتی طور پر ہر فرد اور ہر طبقے کی ضرورت دوسرے سے وابستہ ہے،چنانچہ ایک مزدور انسان جس کی ضروریات زندگی بہت مختصر ہیں،اسے بھی اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے ک لیے ایسے آدمی کی ضرورت ہے جس سے وہ غلہ وغیرہ لے سکے،پھر کاشتکار کو اس مزدور کی ضرورت ہے جس سے وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں مدد لے سکے،پھر ان دونوں کو ایک ایسا آدمی درکار ہے جو ان کی ستر پوشی کے لیے کپڑا تیار کرے،پھر سر چھپانے کے لیے مکان اور بیماری کی صورت میں علاج معالجے کی ضرورت ہے۔
الغرض اشیاء کی خریدو فروخت، محنت ومزدوری، صنعت وزراعت اور دیگر معاشی معاملات انسانی زندگی کے لوازم ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے جس پر عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
ان احکام پر عمل کرنا دنیا نہیں بلکہ عین دین اور عین عبادت ہے اور اس پر اسی طرح اجرو ثواب کا وعدہ ہے جس طرح نماز، روزے اور دیگر عبادات کی ادائیگی پر ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے معاملات کا آغاز كتاب البيوع سے فرمایا ہے۔
لفظ بيوع بيع کی جمع ہے۔
اس کے معنی فروخت کرنا ہیں۔
بعض اوقات خریدنے کے معنی میں بھی یہ لفظ کا استعمال ہوتا ہے۔
شرعی اصطلاح میں کسی چیز کا مالک بننے کے ارادے سے مال کا مال کے ساتھ تبادلہ کرنا بیع کہلاتا ہے۔
یہ خریدوفروخت اور تجارت انسانی ضروریات پوری کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
تجارت کے حسب ذیل چار بنیادی اجزاء ہیں:
(1)
مشتری (خریدار) (2)
بائع (فروخت کار) (3)
بیع(مال تجارت) (4)
بیع (معاہدۂ تجارت)
۔
قرآن کریم نے تجارت کے لیے باہمی رضامندی کو بنیادی اصول قرار دیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فریقین کا خریدو فروخت کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر اپنے آزاد فیصلے سے معاہدۂ تجارت پر رضامند ہونا ضروری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ﴿٢٩﴾ )
اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے مت کھاؤ مگریہ کے آپس کی رضامندی سے تجارت ہو،اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو،بے شک اللہ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔
"(النساء29: 4)
باطل طریقے سے مراد لین دین کاروبار اور تجارت کے دو طریقے ہیں جن میں فریقین کی حقیقی رضامندی یکساں طور پر نہیں پائی جاتی بلکہ اس میں ایک فریق کا تو مفاد ملحوظ رہتا ہے جبکہ دوسرا دھوکے یا نقصان کا نشانہ بنتا ہے۔
اگر کسی معاملے میں دھوکا پایا جائے یا اس میں ایک فریق کی بے بسی اور مجبوری کو دخل ہوتو اگرچہ وہ بظاہر اس پر راضی ہوں،تاہم شریعت کی رو سے یہ باطل طریقے ہیں جنھیں حرام ٹھہرایا گیا ہے،اس لیے لین دین اور باہمی تجارت نہ تو کسی دباؤ سے ہو اور نہ اس میں فریب اور ضرر ہی کو دخل ہو۔
اگرچہ خریدوفروخت کی حلت قرآنی نص سے ثابت ہے لیکن ہر قسم کی خریدوفروخت حلال نہی بلکہ مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اسے جائز قرار دیا گیا ہے:
(1)
فریقین باہمی رضامندی سے سودا کریں۔
(2)
خریدی ہوئی چیز اور اس کا معاوضہ مجہول نہ ہو۔
(3)
قابل فروخت چیز فرخت کرنے والے کی ملکیت ہو اور وہ اسے خریدار کے حوالے کرنے پر قادر ہو۔
(4)
فروخت ہونے والی چیز میں کسی قسم کا عیب چھپا ہوانہ ہو۔
(5)
کسی حرام چیز کی خریدوفروخت نہ ہو اور نہ اس میں سود کو بطور حیلہ جائز قرار دیا گیا ہو۔
(6)
اس خریدوفروخت اور تجارت میں کسی فریق کو دھوکا دینا مقصود نہ ہو۔
(7)
اس تجارتی لین دین میں حق رجوع کو برقرار رکھا گیا ہو۔
کتب حدیث میں خریدو فروخت کی تقریباً تیس اقسام کو انھی وجہ سے ھرام ٹھہرایا گیا ہے۔
ہم ان کی آئندہ وضاحت کریں گے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادات کے بیان سے فراغت کے بعد معاملات کا آغاز فرمایا کیونکہ عبادات سے مراد فوائد اخروی حاصل کرنا ہے جبکہ معاملات سے دنیوی مفاد پیش نظر ہوتا ہے۔
عبادات چونکہ اہم ہیں،اس لیے انھیں مقدم کیا۔
معاملات کا تعلق ضروریات سے ہے،اس لیے انھیں عبادات کے بعد بیان کیا ہے،پھر معاملات میں سے خریدوفروخت کے مسائل کو پہلے بیان کیا ہے کیونکہ زندگی میں اکثر وبیشتر اس سے واسطہ پڑتا ہے۔
(عمدۃ القاری: 8/291)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
تمام اہل اسلام نے خریدو فروخت کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور عقل وحکمت بھی اس کے جواز کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ انسانی ضروریات اس سے پوری ہوتی ہیں۔
(فتح الباری: 4/364)
امام بخاری رحمہ اللہ نے خریدوفروخت کے مسائل پر مشتمل دوسوسینتالیس مرفوع احادیث بیان کی ہیں۔
ان میں چھیالیس معلق ہیں جبکہ باقی احادیث کو متصل سند سے بیان کیا ہے۔
مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے مروی باون آثار بھی بیان کیے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر ایک سوتیرہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو علم معیشت میں اساسی قواعد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان قواعد واصول سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام پوشیدہ راہوں کو بھی بند کردیا ہے جو تجارت کو عدل وانصاف اور خیر خواہی سے ہٹا کر ظلم وزیادتی کے ساتھ دولت سمیٹنے کی طرف لے جانے والے ہیں،آپ نے انتہائی باریک بینی سے نظام تجارت کا جائزہ لیا اور اس کی حدود وقیود متعین فرما کر عمل تجارت کو ہر طرح کے ظلم اور استحصالی ہتھکنڈوں سے پاک کردیا۔
ہمیں چاہیے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوانات کی روشنی میں اپنی تجارت کو ان اصولوں پر استوار کریں جو مکمل طور پر انسانی فلاح وبہبود کی ضمانت دیتے ہیں۔
قارئین سے استدعا ہے کہ كتاب البيوع کا مطالعہ کرتے وقت ہماری معروضات کو ضرور پیش نظر رکھیں۔
اللہ تعالیٰ حق بینی اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔
آمين سیاق وسباق اور پس منظر کے اعتبار سے پہلی آیت کفار کے جواب میں ہے جنہوں نے کہا تھا:
" تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے" یعنی جب تجارت میں لگے ہوئے روپے کا منافع جائز ہے تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہے۔
اور دوسری آیت سے مقصود یہ ہے کہ اگرچہ روز مرہ کی خریدوفروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آجانا بہتر ہے جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،تاہم ایسا کرنا لازم نہیں بلکہ اسے تحریر میں لائے بغیر معاملہ طے کیا جاسکتا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان ہر دو آیات سے خریدوفروخت کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔
حافظ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
انسان طبعی طور پر لالچی واقع ہوا ہے،دوسروں کی چیز کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھنے کا عادی ہے، اگر اسے ضرورت ہو تو چوری، ڈکیتی، لوٹ، کھسوٹ اور دھوکا فریب سے اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کے حصول کے لیے خریدو فروخت کا معاملہ مشروع قرار دیا ہے تاکہ کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو،امن اور آتشی کے ساتھ لوگ زندگی بسر کریں۔
(عمدۃ القاری: 8/292)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2105