الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
75. بَابُ بَيْعِ الزَّبِيبِ بِالزَّبِيبِ وَالطَّعَامِ بِالطَّعَامِ:
75. باب: منقی کو منقی کے بدل اور اناج کو اناج کے بدل بیچنا۔
(75) Chapter. The selling of dried grapes for dried grapes and meals for meals.
حدیث نمبر: 2171
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن المزابنة والمزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الزبيب بالكرم كيلا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ الْمُزَابَنَةِ وَالْمُزَابَنَةُ بَيْعُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ كَيْلًا، وَبَيْعُ الزَّبِيبِ بِالْكَرْمِ كَيْلًا".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ کہ درخت پر لگی ہوئی کھجور خشک کھجور کے بدلہ ماپ کر کے بیچی جائے۔ اسی طرح بیل پر لگے ہوئے انگور کو منقیٰ کے بدل بیچنا۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle forbade Muzabana; and Muzabana is the selling of fresh dates for dried old dates by measure, and the selling of fresh grapes for dried grapes by measure.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 380


   صحيح البخاري2345عبد الله بن عمرالأرض تكرى
   صحيح البخاري2205عبد الله بن عمرالمزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام
   صحيح البخاري2185عبد الله بن عمرالمزابنة اشتراء الثمر بالتمر كيلا بيع الكرم بالزبيب كيلا
   صحيح البخاري2171عبد الله بن عمرالمزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا بيع الزبيب بالكرم كيلا
   صحيح مسلم3896عبد الله بن عمرعن المزابنة بيع ثمر النخل بالتمر كيلا بيع الزبيب بالعنب كيلا عن كل ثمر بخرصه
   صحيح مسلم3893عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة
   صحيح مسلم3894عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة بيع ثمر النخل بالتمر كيلا بيع العنب بالزبيب كيلا بيع الزرع بالحنطة كيلا
   صحيح مسلم3897عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة أن يباع ما في رءوس النخل بتمر بكيل مسمى إن زاد فلي وإن نقص فعلي
   صحيح مسلم3899عبد الله بن عمرعن المزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كانت نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا إن كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام نهى عن ذلك كله
   سنن أبي داود3361عبد الله بن عمربيع الثمر بالتمر كيلا عن بيع العنب بالزبيب كيلا عن بيع الزرع بالحنطة كيلا
   سنن النسائى الصغرى4553عبد الله بن عمرالمزابنة أن يبيع ثمر حائطه إن كان نخلا بتمر كيلا إن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا كان زرعا أن يبيعه بكيل طعام نهى عن ذلك كله
   سنن النسائى الصغرى4538عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة بيع الثمر بالتمر كيلا وبيع الكرم بالزبيب كيلا
   سنن النسائى الصغرى4537عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة المزابنة أن يباع ما في رءوس النخل بتمر بكيل مسمى إن زاد لي وإن نقص فعلي
   سنن النسائى الصغرى3963عبد الله بن عمركانت المزارع تكرى على عهد رسول الله
   سنن ابن ماجه2265عبد الله بن عمرعن المزابنة أن يبيع الرجل تمر حائطه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم494عبد الله بن عمرنهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا
   بلوغ المرام709عبد الله بن عمرنهى رسول الله عن المزابنة
   مسندالحميدي409عبد الله بن عمرأن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 494  
´مزابنہ اور محاقلہ کا بیان`
«. . . 236- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع کیا ہے (اور مزابنہ یہ ہے کہ) درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے اور درخت پر لگے ہوئے انگوروں کو خشک انگوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 494]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2171، و مسلم 1542/72، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 158
➋ دین اسلام میں پوری انسانیت کے لئے فلاح ہی فلاح ہے۔
➌ سد ذرائع کے طور پر اس ذریعے کو بند کر دینا چاہئے جس سے فساد اور شر پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 236   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2265  
´بیع مزابنہ (یعنی درخت کے اوپر کچے پھل کو سوکھے پھل کے بدلے بیچنے) اور بیع محاقلہ (یعنی غلہ کے بدلے زمین دینے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور کو جو درختوں پر ہو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے، یا انگور کو جو بیل پر ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں کھڑی فصل سوکھے ہوئے اناج کے بدلے ناپ کر بیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے منع کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیع مزابنہ ممنوع ہے۔

(2)
بیع مزابنہ کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے باغ کا پھل خریدے اور اس کے عوض مقررہ مقدار میں کھجوریں ادا کرے۔
یا مثلاً یوں کہے:
اس کھیت میں جوفصل تیار ہورہی ہے وہ سب میں پچاس من گندم کے عوض خریدتا ہوں۔
یہ درست نہیں کیونکہ یہ معلوم نہیں کھیت سے جو گندم حاصل ہو گی وہ پچاس من سے کم ہو گی یا زیادہ۔
کھیت کی فصل کےبارے میں اس قسم کا معاہدہ محاقلہ کہلاتا ہے جبکہ باغ کے پھل کےبارے میں یہی معاملہ مزابنہ کہلاتا ہے۔

(3)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزابنہ میں اس صورت کو بھی شامل کیا ہے کہ کسی بغیر ماپی تولی چیز کےبارے میں کہا جائے کہ اس کی مقدار یہ ہے، مثلاً گندم کا یہ ڈھیر دس من کا ہے۔
یا اس برتن میں میرے اندازے کے مطابق پچاس لٹر تیل ہے۔
یا میں کہتا ہوں کہ مالٹوں کی اس ڈھیری میں دو سو مالٹے ہیں، اگر مقدار کم ہوئی تو اپنے پاس سے پوری کروں گا، اور اگر زیادہ ہوئی تو جتنی زیادہ ہوئی وہ میری ہو گی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ یہ صورت بیع نہیں بلکہ دھوکے اور قمار (جوئے)
پر مبنی ایک معاملہ ہے۔ (مؤطأ امام مالك، البیوع، باب ماجاء في المزابنة والمحاقلة: 2/ 161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2265   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3361  
´مزابنہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3361]
فوائد ومسائل:

درخت یا بیل پر لگے تازہ پھل کو جس کی مقدار متعین نہیں ہوسکتی۔
اس نوع کے خشک پھل سے بیچنا کہ خشک کی مقدار معلوم ومعین ہو یا گندم وغیرہ کے کھیت کو خشک گندم کے عوض بیچنا (مزابنہ) کہلاتا ہے۔


ایک جنس کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے تازہ اور خشک یا عمدہ اور روی کا فرق نہیں کیا جا سکتا۔
دونوں کا نقد اور برابر برابر تبادلہ کیا جائے۔
پھرعلیحدہ علیحدہ نقدی کے عوض بیچا جائے۔
البتہ عرایا جائز ہے۔
جیسے کہ ذکر آرہا ہے۔


اس میں ایک پہلو قدر کے غیر معلوم ہونے کا بھی ہے۔
کیونکہ درخت پر لگی کھجور کا حتمی وزن یا یا کیل ممکن نہیں۔


تازہ کھجور خشک ہونے کے باوجود کم ہو جاتی ہے۔
اور اس کی خشک کھجور کے عوض بیع کی ممانعت صراحت کے ساتھ آچکی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3361   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2171  
2171. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "مزابنہ"سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کو خشک کھجور کے عوض ماپ کرفروخت کیاجائے۔ اسی طرح (بیل پر لگے) انگوروں کو کشمش کے عوض ماپ کر فروخت کیاجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2171]
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ کھجور جو ابھی درخت سے نہ اتری ہو، اسی طرح وہ انگور جو ابھی بیل سے نہ توڑا گیا ہو اس کا اندازہ کرکے خشک کھجور یا منقیٰ کے بدل بیچنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2171   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2171  
2171. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "مزابنہ"سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کو خشک کھجور کے عوض ماپ کرفروخت کیاجائے۔ اسی طرح (بیل پر لگے) انگوروں کو کشمش کے عوض ماپ کر فروخت کیاجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2171]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض روایات میں کھیتی کے غلے سے خریدوفروخت کا ذکر ہے کہ ایسا کرنا منع ہے۔
(مسند أحمد: 5/2)
اس حدیث میں ثمرسے مراد خشک کھجور ہے،ہر پھل مراد نہیں کیونکہ دوسرے پھلوں کی کھجور سے خریدوفروخت جائز ہے۔
حدیث میں ماپ کر بیچنے کا ذکر نفس الامر کے اعتبار سے ہے کیونکہ اس وقت لوگ ماپ کر خریدوفروخت کرتے تھے لیکن ایسا تبادلہ مطلق طور پر ناجائز ہے،خواہ ماپ کر ہویا ماپ کے بغیر کیا جائے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:
کیا تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض فروخت کی جاسکتی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:
وہ خشک ہوکر وزن میں کم رہ جاتی ہیں؟ لوگوں نے کہا:
ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3359)
(2)
حدیث میں اگرچہ طعام کا ذکر نہیں ہے،تاہم معنی کے اعتبار سے اس عنوان کو ثابت کیا گیا ہے۔
بعض روایات میں طعام کا ذکر بھی ہے،شاید امام بخاری ؒ نے ان کی طرف اشارہ کیا ہو۔
(فتح الباري: 475/4)
بہرحال وہ کھجور جو درختوں سے نہ اتاری گئی ہو اسی طرح وہ انگور جو بیلوں پر ہوں ان کا اندازہ کرکے خشک کھجوروں یامنقی کے عوض فروخت کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، البتہ عرایا میں ایسا کیا جاسکتا ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2171   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.