الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
The Book of Menses (Menstrual Periods)
25. بَابُ الصُّفْرَةِ وَالْكُدْرَةِ فِي غَيْرِ أَيَّامِ الْحَيْضِ:
25. باب: اس بیان میں کہ زرد اور مٹیالا رنگ حیض کے دنوں کے علاوہ ہو (تو کیا حکم ہے؟)۔
(25) Chapter. Yellowish discharge not during the menses.
حدیث نمبر: 326
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا إسماعيل، عن ايوب، عن محمد، عن ام عطية، قالت:" كنا لا نعد الكدرة والصفرة شيئا".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:" كُنَّا لَا نَعُدُّ الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ شَيْئًا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سختیانی سے، وہ محمد بن سیرین سے، وہ ام عطیہ سے، آپ نے فرمایا کہ ہم زرد اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔

Narrated Um `Atiya: We never considered yellowish discharge as a thing of importance (as menses).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 6, Number 323


   صحيح البخاري326نسيبة بنت كعبلا نعد الكدرة والصفرة شيئا
   سنن أبي داود307نسيبة بنت كعبلا نعد الكدرة والصفرة بعد الطهر شيئا
   بلوغ المرام121نسيبة بنت كعبكنا لا نعد الكدرة والصفرة بعد الطهر شيئا
   سنن أبي داود308نسيبة بنت كعب ام الهذيل هي حفصة بنت سيرين، كان ابنها اسمه هذيل واسم زوجها عبد الرحمن
   صحيح البخاري4302عمرو بن سلمةإذا حضرت الصلاة فليؤذن أحدكم ليؤمكم أكثركم قرآنا
   سنن النسائى الصغرى768عمرو بن سلمةليؤمكم أكثركم قراءة للقرآن
   سنن النسائى الصغرى790عمرو بن سلمةليؤمكم أكثركم قرآنا
   صحيح البخاري326عمرو بن سلمةفإذا حضرت الصلاة فليؤذن أحدكم وليؤمكم أكثركم قرآنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 326  
´زرد اور مٹیالا رنگ حیض کے دنوں کے علاوہ ہو (تو کیا حکم ہے؟)`
«. . . عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: " كُنَّا لَا نَعُدُّ الْكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ شَيْئًا " . . . .»
. . . ام عطیہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ` ہم زرد اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ الصُّفْرَةِ وَالْكُدْرَةِ فِي غَيْرِ أَيَّامِ الْحَيْضِ:: 326]

تشریح:
یعنی جب حیض کی مدت ختم ہو جاتی تو مٹیالے یا زرد رنگ کی طرح پانی کے آنے کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔
◈ اس حدیث کے تحت علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
«والحديث يدل على ان الصفرة والكدرة بعدالطهر ليستا من الحيض واما فى وقت الحيض فهما حيض» [نيل الاوطار]
یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طہر کے بعد اگر مٹیالے یا زرد رنگ کا پانی آئے تو وہ حیض نہیں ہے۔ لیکن ایام حیض میں ان کا آنا حیض ہی ہو گا۔

بالکل برعکس:
صاحب تفہیم البخاری (دیوبند) نے محض اپنے مسلک حنفیہ کی پاسداری میں اس حدیث کا ترجمہ بالکل برعکس کیا ہے، جو یہ ہے آپ نے فرمایا کہ ہم زردا اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے (یعنی سب کو حیض سمجھتے تھے۔)
الفاظ حدیث پر ذرا بھی غور کیا جائے تو واضح ہو گا کہ ترجمہ بالکل برعکس ہے، اس پر خود صاحب تفہیم البخاری نے مزید وضاحت کر دی ہے کہ ہم نے ترجمہ میں حنفیہ کے مسلک کی رعایت کی ہے۔ [تفهيم البخاري، ج2، ص: 44]
اس طرح ہر شخص اگر اپنے اپنے مزعومہ مسالک کی رعایت میں حدیث کا ترجمہ کرنے بیٹھے گا تو معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ مگر ہمارے معزز فاضل صاحب تفہیم البخاری کا ذہن محض حمایت مسلک کی وجہ سے ادھر نہیں جا سکا۔ تقلید جامد کا نتیجہ یہی ہونا چاہئیے۔ «انا لله وانااليه راجعون»

◈ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
«اي من الحيض اذا كان فى غيرزمن الحيض امافيه فهومن الحيض تبعا وبه قال سعيد بن المسيب وعطاءواللهث وابوحنيفة ومحمدوالشافعي واحمد» [قسطلاني]
یعنی غیر زمانہ حیض میں مٹیالے یا زرد رنگ والے پانی کو حیض نہیں مانا جائے گا، ہاں زمانہ حیض میں آنے پر اسے حیض ہی کہا جائے گا۔ سعید بن مسیب اور عطاء اور لیث اور ابوحنیفہ اور محمد اور شافعی اور احمد کا یہی فتویٰ ہے۔
خدا جانے صاحب تفہیم البخاری نے ترجمہ میں اپنے مسلک کی رعایت کس بنیاد پر کی ہے؟ «اللهم وفقنا لماتحب وترضيٰ آمين»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 326   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 121  
´حیض میں زرد اور گدلے رنگ کے پانی کا حکم`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا، كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ، وَكَانَ لَا يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ .»
. . . سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہم (ایام ماہواری کے اختتام پر) نہا دھو کر پاک و صاف ہونے کے بعد گدلے اور زرد رنگ کی چیز کو (اس چیز کے خارج ہونے کو) کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 121]

لغوی تشریح:
«اَلْكُدْرَةَ» میل کچیل سے آلودہ رنگت والا پانی۔
«وَالصُّفْرَةَ» کچ لہو کی طرح کا پانی جس پر زردی غالب ہو۔
«بَعْدَ الطُّهْرِ» ایام حیض سے پاک صاف ہونے کے بعد۔
«شَيْئًا» یعنی ہم اسے حیض تصور نہیں کرتی تھیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حیض کے خون کے بعد جاری رہنے والے پانی کو، جب کہ ایام ماہواری کی مدت پوری ہو جائے، حیض شمار نہیں کیا جائے گا۔

فوائد و مسائل:
➊ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ زرد اور گدلے رنگ کے پانی کو حیض سمجھا اور شمار کیا جاتا تھا اور اس حدیث مذکور میں ہے کہ ہمارے نزدیک ایسے پانی کی کوئی اہمیت نہ تھی۔
➋ بظاہر ان احادیث میں اختلاف معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت ذرا سا غور کرنے سے یہ اختلاف دور ہو جاتا ہے۔ اگر مذکورہ بالا رنگت کا پانی ایام حیض کے دوران میں خارج ہو تو اسے حیض شمار کیا جائے گا اور مدت ایام کے بعد اس قسم کے پانی کی کوئی اہمیت نہیں۔ حدیث میں مذکور «بَعْدَ الطُّهَرِ» کے الفاظ بھی اس طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
➌ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عورتیں ایام ماہواری کے بعد حصول طہارت کے بعد رحم وغیرہ سے گدلے یا زرد رنگ کے پانی کو کوئی اہمیت نہ دیتی تھیں اور نہ اسے حیض شمار کرتی تھیں۔
➍ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم تھا، اگر یہ حیض میں سے شمار ہوتا تو شریعت میں بذریعہ وحی اس کے متعلق حکم جاری کر دیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر خاموشی، تقریری حدیث کہلاتی ہے۔

راویٔ حدیث:
(سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا) ان کا اسم گرامی «نُسَيْبَه» (تصغیر کے ساتھ) تھا۔ کعب کی بیٹی تھیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حارث کی بیٹی تھیں۔ یہ بزرگ ترین صحابیات میں سے تھیں۔ غزوات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتی تھیں۔ مریضوں کی تیمارداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ غزوہ احد میں بہادر مردوں کی طرح لڑیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے غسل کے وقت یہ موجود تھیں۔ انہوں نے بڑی صفائی سے ان کو نہلایا۔ بصرہ کے دوران اقامت میں ان سے علماء و تابعین کی کثیر تعداد نے احادیث اخذ کیں۔ ان کی حدیث غسل میت کے بارے میں اصل ہے، اور ان کا شمار بصریوں میں ہوتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 121   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 308  
´عورت پاکی کے بعد زردی یا گدلا پن دیکھے تو کیا کرے؟`
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے مثل مروی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ام ہذیل حفصہ بنت سیرین ہیں، ان کے لڑکے کا نام ہذیل اور شوہر کا نام عبدالرحمٰن ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 308]
308. اردو حاشیہ:
 ایام طہر میں اگر خاتون کوئی پیلا یا میلا سا پانی محسوس کرے تو یہ کیفیت طہارت کے خلاف نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 308   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 768  
´تہبند میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میرے قبیلہ کے لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں جسے قرآن زیادہ یاد ہو وہ تمہاری امامت کرائے، تو ان لوگوں نے مجھے بلا بھیجا، اور مجھے رکوع اور سجدہ کرنا سکھایا تو میں ان لوگوں کو نماز پڑھاتا تھا، میرے جسم پر ایک پھٹی چادر ہوتی، تو وہ لوگ میرے والد سے کہتے تھے کہ تم ہم سے اپنے بیٹے کی سرین کیوں نہیں ڈھانپ دیتے؟۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 768]
768 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ سجدہ کرتے وقت بے پردگی ہوتی تھی۔ [سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 586]
➋ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ ابھی بچے تھے۔ سات سال کی عمر تھی، لیکن یہ قبیلہ قافلوں کی گزرگاہ پر واقع تھا، اس لیے آنے جانے والے لوگوں سے قرآن مجید کی بہت سی آیات اور سورتیں حفظ کرچکے تھے۔ باقی لوگ اس سعادت سے محروم رہے۔ چونکہ عمرو بن سلمہ بچے تھے، اس لیے انہیں نماز کا طریقہ سکھایا گیا۔
➌ دیگر روایات میں ہے کہ پھر قبیلے کے لوگوں نے مشترکہ رقم سے کپڑا خرید کر مجھے ایک لمبی قمیص بنوا دی جس سے میں بہت خوش ہوا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4302]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 768   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 790  
´نابالغ بچہ کی امامت کا بیان۔`
عمرو بن سلمہ جرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سے قافلے گزرتے تھے تو ہم ان سے قرآن سیکھتے تھے (جب) میرے والد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو، تو جب میرے والد لوٹ کر آئے تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم میں سے امامت وہ آدمی کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو، تو لوگوں نے نگاہ دوڑائی تو ان میں سب سے بڑا قاری میں ہی تھا، چنانچہ میں ہی ان کی امامت کرتا تھا، اور اس وقت میں آٹھ سال کا بچہ تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 790]
790 ۔ اردو حاشیہ: معلوم ہوا کہ بچہ صاحب تمیز ہو اور قرآن پڑھا ہوا ہو تو امامت کرا سکتا ہے۔ عام طور پر سات سال کی عمر کو تمیز کے لیے کافی خیال کیا جاتا ہے تبھی تو سات سال کے بچے کو نماز پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اگر سات سال کا بچہ نماز پڑھ سکتا ہے تو پڑھا کیوں نہیں سکتا؟ احناف نے نابالغ کی امامت اس بنا پر ناجائز قرار دی ہے کہ اس کی نماز نفل ہو گی جب کہ مقتدی بالغ ہوں تو ان کی نماز فرض ہو گی۔ اور نفل کے پیچھے فرض نہیں ہوتے مگر یہ بات بلادلیل ہے۔ بعض احناف تراویح وغیرہ میں بھی جو کہ نفل ہیں نابالغ کی امامت جائز نہیں سمجھتے۔ فإنّا للهِ وإنّا إليه راجِعونَ حدیث رسول کے مقابلے میں اپنی رائے اور قیاس کو دخل دینا نہایت خطرناک ہے۔ اس مسئلے کی مزید وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 790   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:326  
326. حضرت ام عطیہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم زرد اور خاکستری رنگ کی رطوبت کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:326]
حدیث حاشیہ:

اس سے قبل ایک حدیث گزر چکی ہے۔
عورتیں کرسف، یعنی روئی کو ڈبیہ میں بند کرکے حضرت عائشہ ؓ کے پاس بغرض تحقیق روانہ کرتیں توحضرت عائشہ فرماتیں کہ اس معاملہ میں جلدی سے کام نہ لیا جائے، جب تک کرسف بالکل سفید برآمد نہ ہو اس وقت تک حالت حیض برقرارہے، یعنی ان کے نزدیک ہررنگ کی رطوبت حیض میں داخل ہے، خواہ زرد رنگ کی ہو یا خاکستری رنگ کی، لیکن حدیث ام عطیہ ؓ میں ہے کہ ہم زرد اور خاکستری رنگ کی رطوبت کو کوئی اہمیت نہ دیتی تھیں۔
امام بخاری ؒ نے ان دونوں احادیث میں تطبیق کی یہ صورت پیدا فرمائی کہ انھوں نے عنوان میں ایک قید کا اضافہ کیا، یعنی ایام حیض کے علاوہ اگرزرد یا خاکستری رنگ کی رطوبت آئے تو اسے کوئی اہمیت نہ دی جائے، جیسا کہ حدیث ام عطیہ میں ہے اور اگرایام حیض میں اس طرح کی رطوبت برآمد ہوتو اسے حیض شمار کیا جائے، جیسا کہ حضرت عائشہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ حضرت ام عطیہ کی روایت بایں الفاظ بھی مروی ہے کہ طہر کے بعد ہم زرد اورخاکستری رنگ کی رطوبت کو کچھ اہمیت نہ دیتی تھیں۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 307)
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ام عطیہ ؓ بھی طہر سے پہلے ایام حیض کے دوران میں ان رطوبتوں کو حیض ہی شمار کرتی تھیں۔
گویا امام بخاری ؓ نے عنوان میں جو الفاظ بڑھائے ہیں، اس کی بنیاد حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے یا پھر حضرت ام عطیہ ؓ ہی کی روایت میں یہ قید موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 326   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.