الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
13. بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ:
13. باب: نماز عصر کے وقت کا بیان۔
(13) Chapter. The time of the Asr prayer.
حدیث نمبر: 547
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن مقاتل، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عوف، عن سيار بن سلامة، قال: دخلت انا وابي على ابي برزة الاسلمي، فقال له ابي:" كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة؟ فقال: كان يصلي الهجير التي تدعونها الاولى حين تدحض الشمس ويصلي العصر، ثم يرجع احدنا إلى رحله في اقصى المدينة والشمس حية، ونسيت ما قال في المغرب، وكان يستحب ان يؤخر العشاء التي تدعونها العتمة، وكان يكره النوم قبلها والحديث بعدها، وكان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف الرجل جليسه ويقرا بالستين إلى المائة".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي:" كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ؟ فَقَالَ: كَانَ يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَى حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ وَيُصَلِّي الْعَصْرَ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ الْعِشَاءَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ وَيَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں عوف نے خبر دی سیار بن سلامہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے میرے والد نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دوپہر کی نماز جسے تم پہلی نماز کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ اور جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا۔ سیار نے کہا کہ مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور عشاء کی نماز جسے تم «عتمه» کہتے ہو اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے۔

Narrated Saiyar bin Salama: I along with my father went to Abu- Barza Al-Aslami and my father asked him, "How Allah's Apostle used to offer the five compulsory congregational prayers?" Abu- Barza said, "The Prophet used to pray the Zuhr prayer which you (people) call the first one at midday when the sun had just declined The `Asr prayer at a time when after the prayer, a man could go to the house at the farthest place in Medina (and arrive) while the sun was still hot. (I forgot about the Maghrib prayer). The Prophet Loved to delay the `Isha which you call Al- `Atama [??] and he disliked sleeping before it and speaking after it. After the Fajr prayer he used to leave when a man could recognize the one sitting beside him and he used to recite between 60 to 100 Ayat (in the Fajr prayer) .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 522


   صحيح البخاري771نضلة بن عبيديصلي الظهر حين تزول الشمس العصر ويرجع الرجل إلى أقصى المدينة والشمس حية لا يبالي بتأخير العشاء إلى ثلث الليل لا يحب النوم قبلها ولا الحديث بعدها يصلي الصبح فينصرف الرجل فيعرف جليسه يقرأ في الركعتين أو إحداهما ما
   صحيح البخاري547نضلة بن عبيديصلي الهجير التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس يصلي العصر ثم يرجع أحدنا إلى رحله في أقصى المدينة والشمس حية كان يستحب أن يؤخر العشاء التي تدعونها العتمة كان يكره النوم قبلها والحديث بعدها وكان ينفتل من صلاة الغداة حين
   صحيح البخاري599نضلة بن عبيديصلي الهجير وهي التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس يصلي العصر ثم يرجع أحدنا إلى أهله في أقصى المدينة والشمس حية كان يستحب أن يؤخر العشاء كان يكره النوم قبلها والحديث بعدها كان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف أحدنا جليسه
   سنن أبي داود398نضلة بن عبيديصلي الظهر إذا زالت الشمس يصلي العصر وإن أحدنا ليذهب إلى أقصى المدينة ويرجع والشمس حية لا يبالي تأخير العشاء إلى ثلث الليل أو شطر الليل يكره النوم قبلها والحديث بعدها يصلي الصبح وما يعرف أحدنا جليسه الذي كان يعرفه
   سنن النسائى الصغرى531نضلة بن عبيديصلي الهجير التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس التي تدعونها العتمة يكره النوم قبلها والحديث بعدها وكان ينفتل من صلاته
   سنن ابن ماجه674نضلة بن عبيديصلي صلاة الهجير التي تدعونها الظهر إذا دحضت الشمس
   بلوغ المرام130نضلة بن عبيديصلي العصر ثم يرجع احدنا إلى رحله في اقصى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني734نضلة بن عبيد نهى عن النوم قبل العشاء ، والحديث بعدها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 547  
´عصر کے وقت کا بیان`
«. . . عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلَامَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: " كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَكْتُوبَةَ؟ فَقَالَ: كَانَ يُصَلِّي الْهَجِيرَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْأُولَى حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ وَيُصَلِّي الْعَصْرَ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ، وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ، وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ الْعِشَاءَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الْعَتَمَةَ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَالْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ وَيَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ . . .»
. . . سیار بن سلامہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے میرے والد نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ دوپہر کی نماز جسے تم پہلی نماز کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ اور جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا۔ سیار نے کہا کہ مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور عشاء کی نماز جسے تم «عتمه» کہتے ہو اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ:: 547]

تشریح:
روایت مذکور میں ظہر کی نماز کو نماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے تھے تو انھوں نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔ اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔ اس روایت اور دوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت ایک مثل سایہ ہو جانے پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بعض روایتوں میں اسے «والشمس مرتفعة حية» سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابھی سورج کافی بلند اور خوب تیز ہوا کرتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔ کسی روایت میں یوں مذکور ہوا ہے کہ نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کر جاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔ ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کر لی جاتی تھی۔ اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایاہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
«حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ» [2-البقرة:238]
یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو (جو عصر کی نماز ہے) اور اللہ کے لیے فرمانبردار بندے بن کر (باوفا غلاموں کی طرح مؤدب) کھڑے ہو جایا کرو۔

ان ہی احادیث و آیات کی بنا پر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہوا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ و دیگر اکابر علمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔ اور مذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت . . . خدا و جبرئیل و مصطفی را
عجیب کاوش:
یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔ مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیا ہے جو یہ ہے کہ:
ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔ اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔ اس لیے اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔ [تفہیم البخاری، پ 3، ص: 18]
حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتا ہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کر جاتا ہے، جو قائل کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، جن کا ہر لحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔ ان کا اس بیان سے اصل منشاءکیا ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرما رہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہو جائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیر مفید ہے۔ اور اس بیان صدیقہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک و شبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔ خود ہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہر سال جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں عصر کی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔

صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔ حوالہ مذکور
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اور پڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔ حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگر یہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتا ہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اور جوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔ پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اور خوب روشن رہا کرتا تھا، ان الفاظ نے امام طحاوی کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کر کے رکھ دیا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہو جاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 547   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 547  
547. حضرت سیار بن سلامہ روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں اور میرے والد، حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کے پاس گئے۔ میرے والد نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کن اوقات میں ادا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو زوال آفتاب پر پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے کہ فراغت کے بعد ہم میں سے کوئی شخص مدینے کے انتہائی کنارے پر واقع اپنے گھر واپس جاتا تو سورج کی آب و تاب ابھی باقی ہوتی۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوبرزہ ؓ نے مغرب کے متعلق جو فرمایا، وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ (حضرت ابوبرزہ ؓ فرماتے ہیں:) رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز جسے تم "عتمة" کہتے ہو، دیر سے پڑھنے کو پسند فرماتے تھے اور قبل ازیں سونے کو اور بعد ازیں باتیں کرنے کو ناپسند خیال کرتے تھے۔ اور جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ساتھ والے کو پہچان لیتا تھا اور صبح کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:547]
حدیث حاشیہ:
روایت مذکورمیں ظہر کی نماز کونماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت ﷺ کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل ؑ تشریف لائے تھے توانھوں نے پہلے آنحضرت ﷺ کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔
اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔
اس روایت اوردوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت ﷺ اوّل وقت ایک مثل سایہ ہو جانے پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔
اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کيے گئے ہیں۔
بعض روایتوں میں اسے:
''والشمس مرتفعة حیة'' سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابھی سورج کافی بلند اورخوب تیز ہوا کرتا تھا۔
حضرت عائشہ ؓ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔
کسی روایت میں یوں مذکور ہوا ہے کہ نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کر جاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔
ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلی جاتی تھی۔
اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایا ہے۔
چنانچہ ارشاد باری ہے کہ ﴿حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ﴾ (البقرة: 238)
یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اوردرمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو (جوعصر کی نماز ہے)
اوراللہ کے لیے فرمانبردار بندے بن کر (باوفا غلاموں کی طرح مؤدب)
کھڑے ہو جایا کرو۔
ان ہی احادیث وآیات کی بنا پر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہوا ہے۔
حضرت امام شافعی ؒ امام احمد بن حنبل ؒ ودیگر اکابر علمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔
مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔
اورمذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت خدا و جبرئیل و مصطفی را عجیب کاوش:
یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔
مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیا ہے جو یہ ہے کہ:
ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔
اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔
اس لیے اگر آنحضور ﷺ کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ آپ ﷺ نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔
(تفهیم البخاري،پ 3،ص: 18)
حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتا ہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کرجاتا ہے، جو قائل کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی۔
سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ہیں، جن کا ہر لحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔
ان کا اس بیان سے اصل منشاء کیا ہے۔
وہ آنحضرت ﷺ کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرما رہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہوجائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیرمفید ہے۔
اوراس بیان صدیقہ ؓ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ بلاشک وشبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔
جیسا کہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔
خودہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہرسال جاتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ وہاں عصرکی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔
صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔
چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور ﷺ بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔
حوالہ مذکور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی ؒ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ ؓ پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اورپڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔
حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگریہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتا ہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اورجوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔
پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اورخوب روشن رہا کرتا تھا، ان الفاظ نے امام طحاوی ؒ کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کرکے رکھ دیا۔
مگرواقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہوجاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 547   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 130  
´نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہئے`
«. . . إذا راهم اجتمعوا عجل وإذا راهم ابطاوا اخر والصبح: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصليها بغلس . . .»
. . . صبح کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے ہی میں پڑھتے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 130]

[130-أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ، حديث: 547، ومسلم، المساجد، باب وقت العشاء و تاخيرها، حديث 647، وحديث جابر أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، حديث: 560، ومسلم، المساجد، حيث 646، وحديث أبى موسي أخرجه مسلم، المساجد، حديث 614]

لغوي تشريح:
«رَحْلِهِ» را پر فتحه اور حا ساكن هے، یعنی جائے سکونت۔
«فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ» گرامر کے اعتبار سے یہ «رَحْل» سے حال واقع ہو رہا ہے۔ مدینہ کی انتہائی دور ترین جگہ۔
«وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ» اس میں واؤ حالیہ اور «يَرْجِعُ» کی ضمیر سے یہ جملہ حال واقع ہو رہا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ نماز سے فراغت کے بعد واپس جانے والا آدمی سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اپنی جائے رہائش پر پہنچ جاتا (عصر کی نماز جلدی ادا کی جاتی تھی۔) اور سورج کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی سورج کی سفیدی، تپش والی روشنی اور حرارت باقی ہوتی تھی۔
«مِنَ الْعِشَاءَ» اس میں من تبعیضیہ ہے، مطلب یہ ہے کہ عشاء میں تھوڑی بہت تاخیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی۔
«يَنْفَتِلُ» «يَنْصَرِفُ» کے معنی میں ہے، یعنی فارغ ہوتے، پھرتے۔
«الْغَدَاةِ» فجر، صبح
«بِالسِّتِّينَ» ساٹھ آیات
«إِلَى الْمِائَةِ» سو تک، یعنی جب نماز میں اختصار کرنا چاہتے یا اگر آیات لمبی ہوتیں تو ساٹھ تک تلاوت فرماتے اور جب نماز لمبی کرنا چاہتے یا اگر آیات چھوٹی چھوٹی ہوتیں تو سو تک پڑھتے۔ نماز فجر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی کو اچھی طرح پہچان نہ سکتا تھا۔ اتنی طویل قرأت اس بات کی دلیل ہے کہ نماز فجر اول وقت میں پڑھتے تھے۔
«الغَلَسٍ» صبح کی سیاہی اور تاریکی جو اس کے اول وقت میں ہوتی ہے اس «غلس» کہتے ہیں۔
«إنْشَقَّ» پھٹنا، تاریکیٔ شب سے سپیدۂ صبح کا ظاہر ہونا۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں لفظ «غَلَس» سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرمایا کرتے تھے اور وہ بھی ترتیل سے، ٹھہر ٹھہر کر۔ اس سے بھی اندازہ کر لیجئیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز کس وقت میں کرتے ہوں گے۔
➋ اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہئے مگر صبح صادق کا اچھی طرح نمایاں ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے پہلے تو نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا۔

راویٔ حدیث:
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ابوبرزہ ان کی کنیت ہے۔ نضلہ بن عبید نام ہے۔ قدیم الاسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں فتح مکہ اور دوسرے غزوات میں شریک رہے۔ بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی، پھر بعد میں خراسان چلے گئے۔ اور ایک قول کے مطابق مرو یا بصرہ میں 90 ھجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا سن وفات 64 ہجری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 130   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 398  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات نماز کا بیان اور آپ نماز کیسے پڑھتے تھے؟`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا: آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے، اور فجر پڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 398]
398۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا معمول رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں نماز پڑھتے تھے مگر نماز عشاء میں افضل یہ ہے کہ تاخیر کی جائے۔
➋ عشاء سے پہلے سونا اور بعد ازاں لایعنی باتوں اور کاموں میں لگے رہنا مکروہ، الّا یہ کہ کوئی اہم مقصد پیش نظر ہو، جیسے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مشغول گفتگو رہے تھے، مگر شرط یہ ہے کہ فجر کی نماز بروقت ادا ہو۔ دینی و تبلیغی اجتماعات جو رات گئے تک جاری رہتے ہیں ان میں اس مسئلے کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ فجر کی نماز ضائع نہ ہو۔
➌ فجر کی نماز کے بارے میں صحیح احادیث میں وضاحت آئی ہے کہ فراغت کے بعد ہمارا ایک آدمی اپنے ساتھی کو پہچان سکتا تھا نہ کہ نماز شروع کرتے وقت۔
➍ فجر کی نماز میں قرأت مناسب حد تک لمبی ہونی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 398   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 531  
´عشاء کو تاخیر سے پڑھنے کے استحباب کا بیان۔`
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد دونوں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو میرے والد نے ان سے پوچھا: ہمیں بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے پھر ہم میں سے ایک آدمی (نماز پڑھ کر) مدینہ کے آخری کونے پر واقع اپنے گھر کو لوٹ آتا، اور سورج تیز اور بلند ہوتا، اور انہوں نے مغرب کے بارے میں جو کہا میں (اسے) بھول گیا، اور کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہوتا خیر سے پڑھنے کو پسند کرتے تھے، اور اس سے قبل سونے اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 531]
531 ۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 526
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 531   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:547  
547. حضرت سیار بن سلامہ روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں اور میرے والد، حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کے پاس گئے۔ میرے والد نے ان سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرض نمازیں کن اوقات میں ادا کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ظہر کی نماز جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو زوال آفتاب پر پڑھ لیا کرتے تھے۔ اور نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے کہ فراغت کے بعد ہم میں سے کوئی شخص مدینے کے انتہائی کنارے پر واقع اپنے گھر واپس جاتا تو سورج کی آب و تاب ابھی باقی ہوتی۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابوبرزہ ؓ نے مغرب کے متعلق جو فرمایا، وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ (حضرت ابوبرزہ ؓ فرماتے ہیں:) رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز جسے تم "عتمة" کہتے ہو، دیر سے پڑھنے کو پسند فرماتے تھے اور قبل ازیں سونے کو اور بعد ازیں باتیں کرنے کو ناپسند خیال کرتے تھے۔ اور جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو آدمی اپنے ساتھ والے کو پہچان لیتا تھا اور صبح کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:547]
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث میں نماز عصر کے بارے جو کچھ بیان ہوا، یہ اس صورت میں ممکن ہے جب نماز عصر کو ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلیا جائے، چنانچہ امام نوی ؒ لکھتے ہیں:
اس حدیث سے مقصود نماز عصر کو اول وقت میں جلد ادا کرنا ہے، کیونکہ دیر سے نماز پڑھنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ دوتین میل سفر کیا جائے اور دھوپ کی تپش ابھی جوں کی توں باقی ہو۔
اس حدیث سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے توعصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک جب تک کسی چیز کا سایہ دو مثل نہ ہوجائے نماز عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا۔
یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔
(شرح النووي: 5/171،172) (2)
نماز ظہر کو''أولی'' پہلی نماز اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن کی پہلی نماز ہے، نیز جب حضرت جبرائیل ؑ نے نمازوں کے اوقات کے تعین کے لیے امامت کے فرائض سرانجام دیے تھے تو سب سے پہلے ظہر کی نماز ادا کی تھی۔
(فتح الباري: 37/2)
نماز عشاء کو"عتمة" اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے تاخیر سے پڑھا جاتا تھا، کیونکہ عتمة رات کے اس حصے کوکہتے ہیں جو شفق وغیرہ کے غائب ہونے کے بعد شروع ہو، یعنی اندھیرا اچھی طرح چھا جاتا تو اسے ادا کیا جاتا۔
علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں:
نماز ظہر کےلیے"أولی" کے الفاظ اس بات کی نشاندہی کے لیے ہیں کہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے تاکہ ان معانی سے موافقت ہوجائے۔
(شرح الکرماني: 194/4) (3)
حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ نماز فجر سے فراغت کے بعد اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کو شناخت کرنا ناممکن ہوتا تھا۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 578)
یہ حدیث مذکورہ حدیث سے متعارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا تو عورتوں کو جو دور اور چادروں میں لپٹی ہوتیں، پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 547   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.