الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
7. بَابُ تَسْلِيمِ الصَّغِيرِ عَلَى الْكَبِيرِ:
7. باب: کم عمر والا پہلے بڑی عمر والے کو سلام کرے۔
(7) Chapter. The younger person should greet the older one.
حدیث نمبر: 6234
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
وقال إبراهيم بن طهمان: عن موسى بن عقبة، عن صفوان بن سليم، عن عطاء بن يسار، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يسلم الصغير على الكبير، والمار على القاعد، والقليل على الكثير.وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ: عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ، وَالْمَارُّ عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ.
اور ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوٹا بڑے کو سلام کرے، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور کم تعداد والے بڑی تعداد والوں کو۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "The younger person should greet the older one, and the walking person should greet the sitting one, and the small number of persons should greet the large number of persons."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 252


   صحيح البخاري6231عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   صحيح البخاري6232عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير
   صحيح البخاري6234عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير
   صحيح مسلم5646عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير
   جامع الترمذي2703عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير ويسلم الصغير على الكبير
   جامع الترمذي2704عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   سنن أبي داود5198عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   صحيفة همام بن منبه50عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   بلوغ المرام1242عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏ليسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1242  
´سلام کے آداب`
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏ليسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير ‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لمسلم: ‏‏‏‏والراكب على الماشي .»
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کہے، گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے اور سوار پیدل چلنے والے کو۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1242]
تخریج:
[بخاري:6231، 6232، 6234]،
[مسلم، السلام: 5646]،
[بلوغ المرام: 1242]
[تحفة الاشراف: 275/10، 394]

مفردات:
«ليسلم الصغير على الكبير» یہ جملہ صحیح مسلم میں نہیں ہے اس لئے پوری حدیث کو متفق علیہ کہنا مشکل ہے۔
«والراكب على الماشي» یہ جملہ مسلم کے علاوہ صحیح بخاری میں بھی ہے۔ [الاستيذان: 25]

فوائد:
➊ سلام میں ابتداء کی اس ترتیب میں جو حکمتیں ہیں اہل علم نے اپنی اپنی دانست کے مطابق بیان فرمائی ہیں اصل حکمت اللہ ہی کے پاس ہے اور اسی کا علم کامل ہے۔
➋ چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لئے ہے کہ بڑے کا حق چھوٹے پر زیادہ ہے کیونکہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی توقیر کرے اور اس کے ساتھ با ادب رہے۔
➌ تھوڑے لوگوں کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لئے ہے کہ زیادہ لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے اور اس لئے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے کو پہلے سلام کہیں تو اس میں خود بینی اور کبر نہ پیدا ہو جائے۔
➍ گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اس لئے پہلے سلام کہے کہ وہ داخل ہونے والے کی طرح ہے جسے سلام کرنے کا حکم ہے۔ اور اس لئے بھی کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہر گزرنے والے کی طرف بار بار از خود متوجہ ہو کر سلام کہنا مشکل ہے۔ جب کہ گزرنے والے کو ایسی کوئی مشکل نہیں۔
➎ سوار پیدل چلنے والے کو اس لئے پہلے سلام کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ تواضع اختیار کرے۔ اگر پیدل کو حکم ہوتا کہ سوار کو پہلے سلام کہے تو خطرہ تھا کہ سوار میں تکبر نہ پیدا ہو جائے۔
➏ جب دونوں ملنے والے برابر ہوں تو دونوں کو ابتداء کا حکم ہے «أفشوا السلام» سلام عام کرو ان میں سے جو پہل کرے گا وہ افضل ہے۔ جیسا کہ دو قطع تعلق کرنے والوں کے متعلق فرمایا: «وخيرهما الذي يبدأ بالسلام» ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ [متفق عليه]
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«والماشيان أيهما يبدأ بالسلام فهو أفضل»
دو پیدل چلنے والوں میں سے جو پہلے سلام کہے وہ افضل ہے۔ [صحيح الادب المفرد 983/754]
یہ حدیث مرفوع بھی صحيح ہے۔ [الصحيحه 1146]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو آدمی ملتے ہیں تو پہلے کون سلام کہے گا؟ فرمایا: «أولاهما بالله» جو دونوں سے اللہ کے زیادہ قریب ہے۔ [ترمذي عن ابی امامه و قال حسن]، اور دیکھئے [صحيح الترمذي 2167]
➐ اگر وہ شخص جسے پہلے سلام کرنے کا حکم ہے سلام نہیں کہتا تو دوسرے کو سلام کہہ دینا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیلانے کی بہت تاکید کی ہے۔ [بخاري 9335]
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 40   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1242  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، راہ چلتا بیٹھے کو اور تھوڑے زیادہ تعداد والوں کو سلام کہا کریں۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ سوار پیدل کو سلام کرے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1242»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستئذان، باب تسليم القليل علي الكثير، حديث:6231، ومسلم، السلام، باب يسلم الراكب علي الماشي...، حديث:2160.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کے آداب کا ذکر ہے۔
2. چنانچہ حکم ہے کہ کم عمر والا بڑی عمر والے کو پہلے سلام کرے۔
اس سے بڑے کی عزت و توقیر مقصود ہے۔
اور آنے والے کو حکم ہے کہ بیٹھے ہوئے کو سلام کرے‘ اس کی حکمت و علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ آنے والے سے ضرر و نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے مگر جب وہ پہلے سلام کرے گا تو اس سے گویا خطرے کا اندیشہ ختم ہوگیا۔
اورسوار پیدل چلنے والوں کو سلام کریں کیونکہ سواری پر بیٹھا ہوا انسان ذرا بڑائی کے زعم اور تکبر میں مبتلا ہو جایا کرتا ہے‘ اس کے ازالے کے لیے حکم فرمایا کہ سوار پہلے سلام کرے اور اپنی تواضع اور محبت کا اظہار کرے۔
اسی طرح کم تعداد‘ زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں‘ اس میں کثرت کی قلت پر فوقیت اور افضلیت کی طرف اشارہ ہے۔
گویا اسلام نے حفظ مراتب کا اہل اسلام کو سبق دیا ہے جس پر ماشاء اللہ یہ امت عمل پیرا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1242   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2703  
´سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو (یعنی چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔‏‏‏‏ اور ابن مثنی نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: چھوٹا اپنے بڑے کو سلام کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2703]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ سلام کرنے میں حدیث میں جو طریقہ اور صورت مذکور ہے اس کا اعتبار ہو گا نہ کہ رتبے اور درجے کا،
اگر صورت میں اتفاق ہو گا مثلاً دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں تو ایسی صورت میں سلام کرتے وقت چھوٹے اور بڑے کا لحاظ ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2703   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6234  
6234. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور تعداد میں کم زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6234]
حدیث حاشیہ:
ابراہیم بن طہمان کے اثر کو حضرت امام بخاری نے ادب المفرد میں وصل کیا ہے اور ابو نعیم اور بیہقی نے وصل کیا ہے اور کرمانی نے غلطی کی جو یہ کہا کہ امام بخاری نے یہ حدیث ابراہیم بن طہمان سے بہ طریق مذکورہ سنی ہوگی اس لئے وقال إبراهيم کہا کیونکہ امام بخاری نے ابراہیم بن طہمان کا زمانہ نہیں پایا تو کرمانی کا یہ کہنا غلط ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6234   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6234  
6234. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، گزرنے والا بیٹھنے والے کو اور تعداد میں کم زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6234]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احکام میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ چھوٹے کو بڑوں کے سامنے تواضع اور عاجزی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کی عزت و تعظیم کرنی چاہیے۔
اسی طرح تعداد میں کم لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ لوگوں کا ادب کریں کیونکہ زیادہ تعداد کا حق بھی عظیم تر ہوتا ہے، نیز گزرنے والا، بیٹھنے والوں کو سلام کرے۔
(2)
اس میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ گزرنے والا لوگوں کے پاس آتا ہے اسے جلدی سلام کرنے کا حکم ہے تاکہ انہیں سلامتی سے مطلع کرے اور سلامتی کی دعا کی وجہ سے لوگ اس کے شر سے امن میں رہیں۔
جب چلنے والے زیادہ ہوں اور بیٹھنے والے کم ہوں تو پیدل ہونے کے اعتبار سے سلام کہنا ان کی ذمے داری ہے لیکن تعداد میں زیادہ ہونے کی وجہ سے ان سے سلام ساقط ہے۔
ایسے حالات میں دو آدمیوں والا حکم ہے جو آپس میں ملاقات کرتے ہیں، ان میں سے جو بھی سلام کہنے میں پہل کرے گا وہ بہتر اور افضل ہے۔
(فتح الباري: 22/11)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6234   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.