الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
40. بَابُ الْقَائِلَةِ فِي الْمَسْجِدِ:
40. باب: مسجد میں بھی قیلولہ کرنا جائز ہے۔
(40) Chapter. Mid-day nap in the mosque.
حدیث نمبر: 6280
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: ما كان لعلي اسم احب إليه من ابي تراب، وإن كان ليفرح به إذا دعي بها، جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة عليها السلام، فلم يجد عليا في البيت، فقال: اين ابن عمك؟ فقالت: كان بيني وبينه شيء فغاضبني، فخرج فلم يقل عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان: انظر اين هو؟ فجاء فقال: يا رسول الله، هو في المسجد راقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع قد سقط رداؤه عن شقه فاصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه وهو يقول:" قم ابا تراب، قم ابا تراب".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ بِهِ إِذَا دُعِيَ بِهَا، جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام، فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟ فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي، فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ: انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُولُ:" قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَابٍ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن حازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ابوتراب سے زیادہ محبوب نہیں تھا۔ جب ان کو اس نام سے بلایا جاتا تو وہ خوش ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فاطمہ علیہا السلام کے گھر تشریف لائے تو علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہیں پایا تو فرمایا کہ بیٹی تمہارے چچا کے لڑکے (اور شوہر) کہاں گئے ہیں؟ انہوں نے کہا میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی وہ مجھ پر غصہ ہو کر باہر چلے گئے اور میرے یہاں (گھر میں) قیلولہ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں۔ وہ صحابی واپس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ تو مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور گرد آلود ہو گئی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے مٹی صاف کرنے لگے اور فرمانے لگے، ابوتراب! (مٹی والے) اٹھو، ابوتراب! اٹھو۔

Narrated Sahl bin Sa`d: There was no name dearer to `Ali than his nickname Abu Turab (the father of dust). He used to feel happy whenever he was called by this name. Once Allah's Apostle came to the house of Fatima but did not find `Ali in the house. So he asked "Where is your cousin?" She replied, "There was something (a quarrel) between me and him whereupon he got angry with me and went out without having a midday nap in my house." Allah's Apostle asked a person to look for him. That person came, and said, "O Allah's Apostle! He (Ali) is sleeping in the mosque." So Allah's Apostle went there and found him lying. His upper body cover had fallen off to one side of his body, and so he was covered with dust. Allah's Apostle started cleaning the dust from him, saying, "Get up, O Abu Turab! Get up, Abu Turab!" (See Hadith No. 432, Vol 1)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 297


   صحيح البخاري6280سهل بن سعدقم أبا تراب
   صحيح البخاري3703سهل بن سعداجلس يا أبا تراب
   صحيح البخاري6204سهل بن سعداجلس يا أبا تراب
   صحيح البخاري441سهل بن سعدقم أبا تراب
   صحيح مسلم6229سهل بن سعدقم أبا التراب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6204  
´ایک کنیت ہوتے ہوئے دوسری ابوتراب کنیت رکھنا جائز ہے`
«. . . عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:" إِنْ كَانَتْ أَحَبَّ أَسْمَاءِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَيْهِ لَأَبُو تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ أَنْ يُدْعَى بِهَا، وَمَا سَمَّاهُ أَبُو تُرَابٍ إِلَّا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَاضَبَ يَوْمًا فَاطِمَةَ، فَخَرَجَ فَاضْطَجَعَ إِلَى الْجِدَارِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتْبَعُهُ، فَقَالَ: هُوَ ذَا مُضْطَجِعٌ فِي الْجِدَارِ، فَجَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَامْتَلَأَ ظَهْرُهُ تُرَابًا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ وَيَقُولُ: اجْلِسْ يَا أَبَا تُرَابٍ . . .»
. . . سہل بن سعد نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ کو ان کی کنیت ابوتراب سب سے زیادہ پیاری تھی اور اس کنیت سے انہیں پکارا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے کیونکہ یہ کنیت ابوتراب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی تھی۔ ایک دن فاطمہ رضی اللہ عنہا سے خفا ہو کر وہ باہر چلے آئے اور مسجد کی دیوار کے پاس لیٹ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے آئے اور فرمایا کہ یہ تو دیوار کے پاس لیٹے ہوئے ہیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو علی رضی اللہ عنہ کی پیٹھ مٹی سے بھر چکی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پیٹھ سے مٹی جھاڑتے ہوئے (پیار سے) فرمانے لگے ابوتراب اٹھ جاؤ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 6204]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6204 کا باب: «بَابُ التَّكَنِّي بِأَبِي تُرَابٍ، وَإِنْ كَانَتْ لَهُ كُنْيَةٌ أُخْرَى:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں دو کنیتوں کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ حدیث میں صرف ایک کنیت ابوتراب کا ذکر ہے، تو پھر باب سے حدیث کی مناسبت کس طرح سے ہوگی؟ دراصل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دو کنیتیں تھیں، ایک کنیت وہ جس کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے باب اور تحت الباب میں ذکر فرمائی، دوسری کنیت وہ جو مشہور تھی «أبوالحسن» ۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«فان قلت ما وجه دلالته على الكنيتين و هو جزء الآخر من الترجمة، قلت: أبوالحسن هو الكنية المشهورة لعلي رضي الله عنه فلما كنى بأبي تراب صار ذا كنيتين.» (1)
علامہ کرمانی رحمہ اللہ کی وضاحت سے یہ بات مزید واضح ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی پہلی کنیت ابوالحسن تھی، جس کنیت سے وہ معروف تھے، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کنیت ابوتراب رکھی تو آپ کی دو کنیتیں ہو گئیں یہی مقصود ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے۔
مولانا عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ذكر البخاري فى الباب حديث سهل، ومطابقته للترجمة ظاهرة، لأن عليا كانت له كنية أخرى، وهى أبوالحسن، وكنّاه النبى صلى الله عليه وسلم أبا تراب.» (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اصل باب میں سہل رحمہ اللہ سے حدیث نقل فرمائی جس کی مناسبت ظاہر ہے، کیوں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی کنیت پہلی ابولحسن کے نام سے معروف تھی اور دوسری کنیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی ابوتراب۔
لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 194   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6280  
6280. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہیں تھا۔ جب انہیں ابو تراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے ہوا یوں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ان کو گھر میں نہ پایا۔ آپ نے دریافت کیا: (بیٹی!) تمہارے چچا کے بیٹے (شوہر نامدار) کدھر گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہوکر باہر چلے گئے ہیں انہوں نے میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ انہوں نے میرے ہاں قیلولہ بھی نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: دیکھو وہ (علی) کہاں ہیں؟ وہ شخص گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول وہ تو مسجد میں سو رہے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے جبکہ ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6280]
حدیث حاشیہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں قیلولہ کرتے ہوئے پائے گئے اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے۔
مگر عرب لوگ باپ کے چچا کو بھی چچا کہہ دیتے ہیں اسی بنا پر آپ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے این ابن عمك کے الفاظ استعمال فرمائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6280   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6280  
6280. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہیں تھا۔ جب انہیں ابو تراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے ہوا یوں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺ ان کو گھر میں نہ پایا۔ آپ نے دریافت کیا: (بیٹی!) تمہارے چچا کے بیٹے (شوہر نامدار) کدھر گئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہوکر باہر چلے گئے ہیں انہوں نے میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ مجھ سے ناراض ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ انہوں نے میرے ہاں قیلولہ بھی نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: دیکھو وہ (علی) کہاں ہیں؟ وہ شخص گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کے رسول وہ تو مسجد میں سو رہے ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لائے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے جبکہ ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6280]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دوپہر کے وقت مسجد میں آرام کیا، اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ مسئلہ اخذ کیا کہ مسجد میں بھی قیلولہ جائز ہے۔
شارح صحیح بخاری امام مہلب رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث سے ضرورت کے بغیر بھی مسجد میں قیلولہ کرنا ثابت ہوتا ہے لیکن بعض دیگر علماء کی رائے ہے کہ سیاق حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں ضرورت کے بغیر سونا درست نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے مسجد کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 84/11) (2)
اس حدیث سے دور نبوی کے معاشرے کی ایک خوبصورت جھلک بھی نظر آتی ہے کہ جب کسی نوجوان کی اپنے گھر میں شکر رنجی ہو جاتی تو وہ کسی نیٹ کیفے، کلب، سینما یا تھیٹر کا رخ کرنے کی بجائے مسجد کا رخ کرتا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سکون واطمینان کی یہی جگہ ایک جگہ ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6280   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.