الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تقدیر کے بیان میں
The Book of Al-Qadar (Divine Preordainment)
1. بَابٌ في الْقَدَرِ:
1. باب: کتاب تقدیر کے بیان میں۔
(1) Chapter.
حدیث نمبر: 6595
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن عبيد الله بن ابي بكر بن انس، عن انس بن مالك رضي الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" وكل الله بالرحم ملكا، فيقول: اي رب نطفة، اي رب علقة، اي رب مضغة، فإذا اراد الله ان يقضي خلقها، قال: اي رب اذكر ام انثى، اشقي ام سعيد، فما الرزق، فما الاجل، فيكتب كذلك في بطن امه".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَكَّلَ اللَّهُ بِالرَّحِمِ مَلَكًا، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ نُطْفَةٌ، أَيْ رَبِّ عَلَقَةٌ، أَيْ رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهَا، قَالَ: أَيْ رَبِّ أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى، أَشَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، فَمَا الرِّزْقُ، فَمَا الْأَجَلُ، فَيُكْتَبُ كَذَلِكَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابوبکر بن انس نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ «نطفة» قرار پایا ہے۔ اے رب! اب «علقة» یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے۔ اے رب! اب «مضغة‏.‏» (گوشت کا لوتھڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا برا؟ اس کی روزی کیا ہو گی؟ اس کی موت کب ہو گی؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں، دنیا میں اسی کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔

Narrated Anas bin Malik: The Prophet said, "Allah puts an angel in charge of the uterus and the angel says, 'O Lord, (it is) semen! O Lord, (it is now ) a clot! O Lord, (it is now) a piece of flesh.' And then, if Allah wishes to complete its creation, the angel asks, 'O Lord, (will it be) a male or a female? A wretched (an evil doer) or a blessed (doer of good)? How much will his provisions be? What will his age be?' So all that is written while the creature is still in the mother's womb."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 77, Number 594


   صحيح البخاري318أنس بن مالكالله وكل بالرحم ملكا يقول يا رب نطفة يا رب علقة يا رب مضغة فإذا أراد أن يقضي خلقه قال أذكر أم أنثى شقي أم سعيد فما الرزق والأجل فيكتب في بطن أمه
   صحيح البخاري3333أنس بن مالكالله وكل في الرحم ملكا فيقول يا رب نطفة يا رب علقة يا رب مضغة فإذا أراد أن يخلقها قال يا رب أذكر يا رب أنثى يا رب شقي أم سعيد فما الرزق فما الأجل فيكتب كذلك في بطن أمه
   صحيح البخاري6595أنس بن مالكوكل الله بالرحم ملكا فيقول أي رب نطفة أي رب علقة أي رب مضغة فإذا أراد الله أن يقضي خلقها قال أي رب أذكر أم أنثى أشقي أم سعيد فما الرزق فما الأجل فيكتب كذلك في بطن أمه
   صحيح مسلم6730أنس بن مالكالله قد وكل بالرحم ملكا فيقول أي رب نطفة أي رب علقة أي رب مضغة فإذا أراد الله أن يقضي خلقا قال قال الملك أي رب ذكر أو أنثى شقي أو سعيد فما الرزق فما الأجل فيكتب كذلك في بطن أمه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 318  
´کامل الخلقت اور ناقص الخلقت`
«. . . قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا يَقُولُ يَا رَبِّ نُطْفَةٌ، يَا رَبِّ عَلَقَةٌ، يَا رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهُ، قَالَ: أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى، شَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، فَمَا الرِّزْقُ وَالْأَجَلُ، فَيُكْتَبُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم مادر میں اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اے رب! اب یہ «نطفة» ہے، اے رب! اب یہ «علقة» ہو گیا ہے، اے رب! اب یہ «مضغة‏» ہو گیا ہے۔ پھر جب اللہ چاہتا ہے کہ اس کی خلقت پوری کرے تو کہتا ہے کہ مذکر یا مونث، بدبخت ہے یا نیک بخت، روزی کتنی مقدر ہے اور عمر کتنی۔ پس ماں کے پیٹ ہی میں یہ تمام باتیں فرشتہ لکھ دیتا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ: 318]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
«قلتُ» بظاھر حدیث اور باب میں مناسبت انتہائی مشکل ہے مگر غور کرنے سے اس کا حل موجود ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں یہ ہے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج کے دوران اپنے حیض کی شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فان ذالك شيئ كتبه الله على بنات آدم» یہ وہ چیز ہے جس کو آدم کی بیٹیوں کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے، اب اس حدیث کی طرف آئیے جس میں یہ لکھا گیا ہے کہ لڑکا ہو گا، لڑکی ہو گی وغیرہ وغیرہ لہٰذا کتاب الحیض میں تقدیر کی حدیث اس لیے درج فرمائی کہ بنت آدم کی قسمت میں حیض لکھ دیا گیا ہے اور حیض کا تعلق بھی تقدیر کے ساتھ ٹھہرا۔

شارحین نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد اس حدیث کو حیض کے بابوں میں داخل کرنے سے یہ مراد ہے کہ حاملہ عورت کو حمل کی حالت میں جو خون آتا ہے وہ حیض نہیں ہے اس لیے کہ اس وقت رحم بچہ کی تربیت میں مشغول ہے ساتھ خون حیض کے پس جو کبھی کبھی اس کے رحم سے خون آ جاتا ہے وہ حیض نہیں بلکہ وہ بچہ کی غذا کا فضلہ یا کسی بیماری کے سبب ہوتا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص551]

ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و غرض البخاري بهذا الباب والله تعالیٰ اعلم، ان لا تحيض، وهو قول ابي حنيفة (والكوفين) والاوزاعي واحد قولي الشافعي، لان اشتمال الرحم صلى الولد يمنع الخروج» [التوضيح لشرح لجامع الصحيح، ج6، ص96]
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس باب سے غرض یہ ہے کہ (واللہ اعلم) حاملہ کو حیض نہیں آتا اور یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (کوفیین) اوزاعی اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہم کا ہے۔ کیوں کہ جس رحم میں بچہ ہو وہ (حیض کے خون سے) روکتا ہے۔
فائدہ: تقدیر پر ایمان لانا ایمانیات میں داخل ہے اور اس کا انکار ایمانیات کا انکار ہے۔ تقدیر کے اہم مسئلہ پر کچھ سوالات ابھرتے ہیں
مثلاً بخاری شریف کی حدیث نے واضح کر دیا کہ ماں کے پیٹ میں جب بچے پر پھونک ماری جاتی ہے تو اسی وقت اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے مگر ایک اور حدیث ہے جس کو بخاری نے ذکر کیا ہے کہ:
«عن انس رضى الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من احب ان يبسط له فى رزقه وينسا له فى اثره فليصل رحمه»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو یہ چاہتا ہو کہ اس کے رزق اور عمر میں برکت ہو تو وہ صلہ رحمی کرے [مشكوة المصابيح باب البر و الصلة ج3 ص327]
حدیث سے بائیں طور پر واضح ہوا کہ صلہ رحمی سے عمر اور رزق میں برکت ہوتی ہے حالانکہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
«فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ» [16-النحل: 61]
کہ جب موت کا وقت ان پر پہنچے گا تو نہ ہی ایک گھڑی آگے ہو گی اور نہ ہی پیچھے
قرآن مجید میں تقدیر کا مسئلہ کچھ اس طرح سے ہے کہ موت آگے پیچھے نہیں ہو سکتی اپنے مقررہ وقت کے لیکن بخاری و مسلم کی احادیث میں واضح ہے کہ موت آگے پیچھے ہو سکتی ہے اس تعارض اور الجھن کو دور کرنے کے لئے یہ تطبیق قابل غور ہے صاحب تنقیح الرواۃ علامہ ابوسعید المحدث الدھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ صلہ رحمی سے عمر اور رزق میں اضافہ ہے اس حدیث کا تعلق فرشتوں کے علم کے ساتھ مقید ہے اور جس آیت میں موت کا ذکر ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے علم کے ساتھ ہے۔ [ديكهئے تنقيح الرواة ج2 س337]
فائدہ نمبر 2: مذکورہ بالا حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نشانی کا اثبات ہے۔ ہم اس حدیث کو پڑھتے ضرور ہیں کہ ان تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا ایک اللہ ہے مگر ہم نے اس کی نشانیوں پر کبھی غور نہیں کیا۔ مندرجہ بالا حدیث اور اس کے متعلق وہ احادیث جن کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب القدر میں ذکر فرمایا ہے ان احادیث کا تعلق مسائل جنین (Embryology) کے ساتھ ہے۔ قرآن مجید میں کئی آیات جنین کے مسائل کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، مگر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی ان مسائل پر گہرا تبصرہ موجود ہے جو اس بات کی مبین دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: جب نطفے پر بیالیس راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس کی صورت اور کان آنکھ کھال گوشت اور ہڈیاں بناتا ہے۔ پھر عرض کرتا ہے اے پروردگار! یہ مرد ہے یا عورت؟ پھر جو مرضی الٰہی ہوتی ہے وہ فرماتا ہے، فرشتہ لکھ دیتا ہے، پھر عرض کرتا ہے۔ اے پروردگار! اس کی عمر کیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے، اور فرشتہ وہ لکھ دیتا ہے پھر عرض کرتا ہے کہ اے پروردگار! اس کی روزی کیا ہے، چنانچہ پروردگار جو چاہتا ہے وہ حکم فرما دیتا ہے اور فرشتہ لکھ دیتا ہے اور پھر وہ فرشتہ وہ کتاب اپنے ہاتھ میں لے کر باہر نکلتا ہے، جس میں کسی بات کی کمی ہوتی ہے اور نہ زیادتی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: «حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق قال: إن احدكم يجمع خلقه فى بطن امه اربعين يوما ثم يكون علقة مثل ذلك ثم يكون مضغة مثل ذلك ثم يبعث الله ملكا فيؤمر باربع كلمات ويقال له: اكتب عمله ورزقه واجله وشقي او سعيد» [صحيح بخاري، باب بدء الخلق: 3208، صحيح مسلم كتاب القدر]
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی پیدائش اس طرح ہوتی ہے کہ وہ چالیس دن ماں کے پیٹ میں نطفے کی شکل میں رہتا ہے، پھر بندھا ہوا خون ہو کر چالیس دن رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیج کر اس میں روح پھونکتے ہیں اور چار چیزوں کا اس کے بارے میں فیصلہ فرماتے ہیں اس کی روزی، اس کی عمر، اس کے اعمال اور اس کا بد بخت یا نیک بخت ہونا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
«ان الله قد وكل بالرحم ملكا، ‏‏‏‏‏‏فيقول: ‏‏‏‏ اي رب نطفة، ‏‏‏‏‏‏اي رب علقة، ‏‏‏‏‏‏اي رب مضغة، ‏‏‏‏‏‏فإذا اراد الله ان يقضي خلقها، ‏‏‏‏‏‏قال: ‏‏‏‏ اي رب اذكر ام انثى، ‏‏‏‏‏‏اشقي ام سعيد، ‏‏‏‏‏‏فما الرزق، ‏‏‏‏‏‏فما الاجل، ‏‏‏‏‏‏فيكتب كذلك فى بطن امه» [صحيح بخاري، باب القدر، حديث 6595]
اللہ تعالیٰ نے رحم پر ایک فرشتہ مقرر فرما رکھا ہے، وہ عرض کرتا ہے کہ اے میرے رب! گوشت کا لوتھڑا تیار ہو گیا اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ اس کی تخلیق کرنا چاہتے ہیں تو وہ فرشتہ دریافت کرتا ہے کہ اے میرے رب! نر ہے یا مادہ، بدبخت ہے یا نیک بخت، اس کی روزی کتنی ہے، عمر کتنی ہے؟ اس طرح رحم مادر میں ہی ان چیزوں کے بارے میں اس کی تقدیر لکھ دی جاتی ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نطفہ، علقہ اور مضغہ کے مراحل کا تذکرہ فرمایا ہے جب کہ اس سے پہلے والی حدیث میں بیان ہوا ہے کہ نطفہ بننے کے بعد بیالیس راتیں گزرنے پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ آتا ہے اور وہ اس کی صورت سازی اور تخلیق کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ مدت بالکل وہی ہے جس کے بارے میں علم جنین کے متعلق جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ اس مدت میں گوشت کے ٹکڑے میں موجود جسمانی حصے ہڈیوں اور پٹھوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پھر ہڈیوں پر گوشت اور پٹھے چڑھتے ہیں، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جنین کی نشو و نما کے مراحل میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مذکورہ مراحل اور علم جنین کے سلسلے کی جدید تحقیقات کے نتائج بالکل یکساں ہیں۔
لیکن فرشتے کے حاضر ہونے کے زمانے کے بارے میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیثوں میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ کیوں کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تو یہ ہے کہ فرشتہ بیالیس راتوں کے بعد حاضر ہوتا ہے جب کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتہ ایک سو بیس دن کے بعد حاضر ہوتا ہے، علماء نے ان دونوں احادیث کے درمیان تطبیق دی، ہے۔
چنانچہ اس ضمن میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پہلے چالیس دن کے بعد تخلیق کی ابتداء پر دلالت کرتی ہے، اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ تیسرے چلے کے بعد تخلیق کا آغاز ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان تطبیق کس طرح کی جائے، اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث تخلیق کا آغاز چالیس روز کے بعد شروع ہو جانے کے سلسلے میں صریح ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صورت سازی اور تخلیق کے وقت سے تعارُض نہیں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس میں نطفے کے مختلف ادوار کا بیان ہے اور اس بات کا تذکرہ ہے کہ ہر چالیس دن کے بعد نیا مرحلہ شروع ہوتا ہے اور تیسرے چلے کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے، اس چیز کا سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ذکر نہیں ہے بلکہ خاص طریقہ پر یہ چیز سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکور ہے۔ لہٰذا یہ دونوں حدیثیں پہلے چلے کے بعد ایک خاص چیز کے پیدا ہونے پر متفق ہیں اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مخصوص طور پر یہ بات ہے کہ اس نطفے کی صورت سازی اور تخلیق کا عمل پہلے چلہ کے بعد شروع ہوتا ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں خاص بات یہ مذکورہ ہے کہ جنین میں روح کا پھونکا جانا تیسرے چلے کے بعد ہوتا ہے اب یہ دونوں حدیثیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس دوران پیدا ہونے والے بچے کی تقدیر کے بارے میں فرشتہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کر کے لکھتا ہے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں سچی ہو گئیں اور ایک حدیث دوسری حدیث کی تصدیق کرنے والی ہو گئی۔ [تحفة المودود: بأحكام المولود از ابن قيم الجوزي رحمه الله، ص224]
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی اس تشریح سے وہ اختلاف ختم ہو جاتا ہے جو سیدنا حذیفہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی حدیث کے درمیان محسوس ہوتا ہے کیونکہ سیدنا حذیفہ کی حدیث میں بیالیس راتوں کے بعد صورت سازی اور تخلیق کے آغاز کی طرف اشارہ ہے اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب جنین تخلیق کے مراحل پورے کر چکا تب اس میں روح پھونکی جاتی ہے اور تخلیق کی تکمیل رحمِ مادر میں نطفہ قرار پانے کے بعد ایک سو بیس دن میں مکمل ہوتی ہے، جنین میں روح پھونکے جانے کے بعد وہ ایک دوسری مخلوق ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ حرکت کرنے اور آوازوں کو سننے پر قادر ہو جاتا ہے اور اس کا دل برابر دھڑکنے لگتا ہے۔ اسی جانب قرآن مجید کے ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:
«ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» [المؤمنون: 14]
ترجمہ: پھر ہم نے اس کو نئی صورت میں بنایا، لہٰذا اللہ تعالیٰ ہی سب سے اچھا پیدا کرنے والا ہے، بابرکت ہے۔‏‏‏‏
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تخلیق مکمل ہونے اور روح پھونکے جانے کا جو زمانہ بتایا گیا ہے وہ بالکل وہی ہے جو جدید علم جنین میں جنین کے اندر حرکت پیدا ہونے کے لئے بتایا گیا ہے۔ یعنی نطفہ ٹھہرنے کے بعد تیسرے مہینے کے آخر یا چوتھے مہینے کے شروع میں جنین کی نشو و نما کے مراحل کے بارے میں اس حدیث میں مذکورہ مراحل اور علم جنین کے سلسلہ کی جدید تحقیقات کے نتائج بالکل یکساں ہیں۔ ڈاکٹر کیتھ مور بھی مندرجہ بالا احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حدیث ذکر کی پہلی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر انسان کی تخلیق کے تخلیقی اجزاء چالیس دنوں (5 ہفتے اور 5 دنوں) میں جمع ہوتے ہیں۔ تخلیقی اجزاء کو سائنسی زبان میں (Primordia) کہتے ہیں۔ حدیث ذکر کے سلسلے کی جننیات تشریح میں جننیاتی دورانیہ (Embryonic Period) کا بیان آچکا ہے۔ یہ دورانیہ پانچ یا چھ ہفتوں میں مکمل ہوتا ہے جس میں تمام اہم اعضاء سوائے تولیدی اعضاء کے پرائیمورڈیا کی نمو ہو جاتی ہے۔ جدید سائنسی معلومات کے مطابق چھٹے ہفتے (42 دنوں) میں تولیدی ابھار گونیڈیل رجز نمودار ہوتے ہیں۔ جن کی طرف سے ابتدائی تخمی سیلز (Primordial Germ Cells) جمع ہونا شروع ہوتے ہیں۔ پھر ان سے ساتویں ہفتے میں تولیدی اعضاء کے پرائیمورڈ یا تشکیل ہو کر ان میں صنفی کرداروں (Secual Characters) کی ابتداء ہوتے ہے۔ [تخليق انساني اور معجزات قرآن ان كيته مور، ص89]
سلف صالحین سے بھی کئی اقوال موجود ہیں جس سے یہ واضح نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انسان کی مکمل تخلیق چار ماہ کے بعد ہوتی ہے۔

ابن الملقن رحمہ اللہ اپنی شرح میں فرماتے ہیں:
«واتفق العلماء على أن نفخ الروح لا يكون إلا بعد أربعة أشهر» [التوضيح، ج5، ص98]
اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ روح کو پھونکا جانا چار ماہ کے بعد ہوتا ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ بھی اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں دیکھئے۔ [تفسير القرطبي، ج12، ص8]
تینتالیس (43) ہفتوں میں یہاں تک کہ چار ماہ مکمل ہوتے ہیں تو روح میں پھونک ماری جاتی ہے۔ [التوضيح، ج5، ص98]
قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ولم يختلف ان نفخ الروح فيه يكون بعد مائة و عشرين يوما، و ذالك تمام اربعة اشهر» [اكمال المعلم بشرح صحيح مسلم۔ ج8۔ ص128]
ان اقتباسات اور تحقیقات سے واضح ہوا کہ چار ماہ کے اختتام پر انسان مکمل انسانی صورت رحم میں اختیار کر لیتا ہے۔
فائدہ نمبر 3: قرآن و سنت میں انسانی پیدائش پر تفصیلی بحث موجود ہے۔ جس طرح کہ ہم نے پچھلے اوراق میں واضح کیا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو کئی اطوار کے ذریعے پیدا فرمایا۔ ابن العماد الأقفھسی [المتوفی 867ھ] نے اپنی کتاب [الذريعة إلى معرفة الاعداد الواردة فى الشريعة] میں تفصیلی گفتگو فرمائی ہے اور آپ نے بارہ اطوار کا ذکر فرمایا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدائش سے لے کر قیامت تک بارہ اطوار میں تبدیل فرمائے گا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «مَّا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّـهِ وَقَارًا ﴿﴾ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا» [نوح: 13-14]
تمہیں کیا ہوا کہ تم اللہ کی عظمت کی توقیر نہیں کرتے۔ حالانکہ اس نے تمہیں طرح طرح سے پیدا فرمایا۔
ابن العماد نے جن بارہ اطوار کا ذکر فرمایا ہے آپ نے ان آیات سے استدلال کا اخذ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ﴿ ﴾ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ﴿ ﴾ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّـهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» [المؤمنون: 12-14]
➊ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔
➋ پھر اس کو ایک مضبوط جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا۔
➌ پھر نطفے کا لوتھڑا بنایا۔
➍ پھر لوتھڑے کو بوٹی بنائی۔
➎ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔
➏ پھر ہڈیوں پر گوشت (پوست) چڑھایا۔
➐ پھر اس کو ایک نئی صورت میں بنا دیا۔
➑ پھر اس کے بعد تم مر جاتے ہو۔
➒ پھر قیامت کے روز اٹھا کر کھڑے کیے جاؤ گے۔
اس کے بعد ابن العماد الأفقھسی رقمطراز ہیں:
«ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا» [40-غافر:67]
➓ پھر تم کو نکالتا ہے (کہ تم) بچے (ہوتے ہو)۔
⓫ پھر تم اپنی جوانی تک پہنچتے ہو۔
⓬ پھر بوڑھے ہو جاتے ہو۔
یعنی یہ تین اطوار ہیں جس کا ذکر بھی قرآن مجید نے ہی کیا ہے۔ یہ مکمل بارہ اطوار ہوئے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 150   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6595  
6595. حضر ت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے جو کہتا رہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ قرار پایا ہے۔ اے رب! یہ خون بستہ بن گیا ہے، اے رب! یہ گوشت کے لوتھڑے کی صورت اختیار کر گیا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی پیدائش کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ نیک ہے یا بد؟ اس کا رزق کیا ہے؟ اس کی مدت حیات کیا ہے؟ اسی طرح یہ سب باتیں شکم مادر ہی میں لکھ دی جاتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6595]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مضمون بیان فرمائے ہیں:
شروع میں انسانی تخلیق کے ان چند مراحل کا ذکر ہے جن سے انسان نطفۂ امشاج کے بعد نفخ روح تک رحم مادر میں گزرتا ہے۔
ان مراحل کا ذکر اگلے مضمون کے لیے بطور تمہید ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس نوشتہ (لکھے ہوئے)
کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا مقرر کیا ہوا فرشتہ نفخ روح کے وقت پیدا ہونے والے انسان کے متعلق لکھتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی نوشتۂ تقدیر کی وضاحت کے پیش نظر ان احادیث کو یہاں بیان کیا ہے۔
(2)
کچھ اہل علم نے تقدیر کی درج ذیل چار قسمیں بیان کی ہیں:
٭ تقدیر ازلی:
اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا ازلی اور ابدی علم ہے۔
کہیں بھی اس سے ذرہ بھر مختلف نہیں ہو سکتا، مگر یہ ازلی علم بندوں کو ان کے اعمال و کردار میں مجبور نہیں کرتا۔
اس ازلی تقدیر کی دو قسمیں ہیں:
(ا)
علم:
اللہ تعالیٰ کو اس سب کچھ کا علم ہے جو کائنات میں ہونے والا ہے یا اس کی مخلوق کرنے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم کے ذریعے سے ان تمام چیزوں کو اجمالاً و تفصیلاً جاننے والا ہے جو ظاہر ہو چکی ہیں یا وجود میں آنے والی ہیں۔
(ب)
کتابت:
اللہ تعالیٰ نے اپنے ازلی علم کے مطابق تمام اشیاء کو لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی وہ قلم تھی، پھر اسے فرمایا لکھ۔
اس نے عرض کی:
اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قیامت قائم ہونے تک ہر ہر چیز کی تقدیر لکھ دے، چنانچہ اس نے لکھ دیا۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4700)
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے کائنات میں ہونے والے تمام واقعات کو تحریر کر لیا تھا۔
(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6748 (2653)
ان دونوں قسموں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ یہ سب لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔
(الحج: 70/22)
تقدیر عمری:
انسان نے عمر بھر میں جو کچھ کرنا ہے وہ الگ سے محفوظ ہے اس کی پھر دو قسمیں ہیں:
(ا)
اولاد آدم سے عہد و پیمان لیتے وقت لکھا گیا تھا جیسا کہ سورۂ اعراف کی آیت: 172 میں ہے۔
(ب)
شکم مادر میں تقدیر عمری کا بیان امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ پہلی حدیث میں ہے۔
٭ تقدیر یومی:
ہر روز اس کے تازہ فیصلے نافذ ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر روز کوئی بیمار ہو رہا ہے، کسی کو بیماری سے شفا دے رہا ہے، کوئی موت کے گھاٹ اتر رہا ہے:
ہر روز (ہر وقت)
وہ ایک (نئی)
شان میں ہے۔
(الرحمٰن: 29/55)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے روایات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جو امور انسان کو دنیا میں پیش آنے والے ہوتے ہیں وہ سب لکھ دیے جاتے ہیں حتی کہ جو ذرا سی خراش بھی لگنی ہے وہ بھی لکھ دی جاتی ہے، اور ان امور کی کتابت کسی متعلق دفتر میں ہوتی ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے:
پھر یہ صحیفہ لپیٹ دیا جاتا ہے اور اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم، القدر، حدیث: 6725 (2644)
، و فتح الباري: 588/11)

واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6595   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.