الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
46. بَابُ أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ:
46. باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
(46) Chapter. The religious learned men are entitled to precedence in leading the Salat (prayers).
حدیث نمبر: 678
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن نصر، قال: حدثنا حسين، عن زائدة، عن عبد الملك بن عمير، قال: حدثني ابو بردة، عن ابي موسى، قال:" مرض النبي صلى الله عليه وسلم فاشتد مرضه، فقال: مروا ابا بكر فليصل بالناس، قالت عائشة: إنه رجل رقيق، إذا قام مقامك لم يستطع ان يصلي بالناس، قال: مروا ابا بكر فليصل بالناس، فعادت، فقال: مري ابا بكر فليصل بالناس، فإنكن صواحب يوسف، فاتاه الرسول، فصلى بالناس في حياة النبي صلى الله عليه وسلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ:" مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَعَادَتْ، فَقَالَ: مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین بن علی بن ولید نے زائدہ بن قدامہ سے بیان کیا، انہوں نے عبدالملک بن عمیر سے، کہا کہ مجھ سے ابوبردہ عامر نے بیان کیا، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لیے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف (زلیخا) کی طرح (باتیں بناتی) ہو۔ آخر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔

Narrated Abu Musa: "The Prophet became sick and when his disease became aggravated, he said, "Tell Abu Bakr to lead the prayer." `Aisha said, "He is a softhearted man and would not be able to lead the prayer in your place." The Prophet said again, "Tell Abu Bakr to lead the people in prayer." She repeated the same reply but he said, "Tell Abu Bakr to lead the people in prayer. You are the companions of Joseph." So the messenger went to Abu Bakr (with that order) and he led the people in prayer in the lifetime of the Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 646


   صحيح البخاري678عبد الله بن قيسمروا أبا بكر فليصل بالناس قالت عائشة إنه رجل رقيق إذا قام مقامك لم يستطع أن يصلي بالناس قال مروا أبا بكر فليصل بالناس فعادت فقال مري أبا بكر فليصل بالناس فإنكن صواحب يوسف فأتاه الرسول فصلى بالناس في حياة النبي
   صحيح البخاري3385عبد الله بن قيسمروا أبا بكر فليصل بالناس فقالت عائشة إن أبا بكر رجل كذا فقال مثله فقالت مثله فقال مروا أبا بكر فإنكن صواحب يوسف فأم أبو بكر في حياة رسول الله
   صحيح مسلم948عبد الله بن قيسمروا أبا بكر فليصل بالناس فقالت عائشة يا رسول الله إن أبا بكر رجل رقيق متى يقم مقامك لا يستطع أن يصلي بالناس فقال مري أبا بكر فليصل بالناس فإنكن صواحب يوسف قال فصلى بهم أبو بكر حياة رسول الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:678  
678. حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور بیماری نے شدت اختیار کی تو آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت عائشہ‬ ؓ گ‬ویا ہوئیں: وہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو لوگوں کو نماز نہ پڑھا سکیں گے۔ آپ نے فرمایا: ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے پہلے والی بات پھر کہہ دی۔ آپ ﷺ نے سہ باری فرمایا: تم ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تم عورتیں مجھے حضرت یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ پھر ایک آدمی حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور انہوں نے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:678]
حدیث حاشیہ:
(1)
امامت کے سلسلے میں حضرت امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اس کے لیے اہل علم و فضل کا انتخاب کرنا چاہیے۔
دین سے بے بہرہ شخص اس منصب کے قطعاً لائق نہیں، خواہ بہترین قاری ہی کیوں نہ ہو کیونکہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر صاحب علم و فضل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں مصلائے امامت پر مقرر فرمایا، لہٰذا اس عظیم منصب کے شایان شان یہی ہے کہ اس آدمی کو یہ اعزاز بخشا جائے جو علم وفضل میں عظیم تر ہو۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام صاحب کا مقصود جمہور کے موقف کی تائید کرنا ہو کہ علمائے حضرات بہ نسبت قراء حضرات کے منصب امامت کے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں حضرت ابی بن کعب ؓ سب سے بڑے قاری تھے۔
جیسا کہ نص حدیث سے ثابت ہے، اس کے باوجود رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب فرمایا کیونکہ وہ علم وفضل میں سب سے زیادہ فائق تھے۔
(حاشیة السندي: 124/1) (2)
ایک حدیث میں ہے کہ لوگوں کا امام ایسا ہونا چاہیے جو قرآن کا زیادہ حافظ ہو، اگر اس وصف میں سب برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جسے سنت نبوی کا زیادہ علم ہو۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1532(673)
نیز حضرت ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب نماز کا وقت ہوجائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور امامت وہ شخص کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1532(673)
ان احادیث کا تقاضا ہے کہ امامت کا منصب حافظ قرآن کو دینا چاہیے۔
جمہور اس قسم کی احادیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آخری وقت حضرت ابو بکر ؓ کو منصب امامت پر فائز فرمایا، لیکن ان احادیث کو منسوخ قرار دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ حضرت ابو بکر صديق ؓ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ سنت کے سب سے بڑے عالم تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھی اوصافِ فاضلہ کی بنا پر منصب امامت ان کے حوالے فرمایا۔
حدیث مسلم میں أعلم بالسنة سے مراد وہ شخص ہے جو بقدر ضرورت قرآن مجید صحیح طور پر پڑھنے کے ساتھ ساتھ نماز سے متعلقہ مسائل بہ نسبت دوسروں کے زیادہ جانتا ہو، چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے زیادہ علم، فہم، تقویٰ اور خوف وخشیت والے تھے۔
(رضي اللہ عنه)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 678   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.