الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:652
652- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ”دیہاتی لوگ تمہاری نماز کے نام کے حوالے سے تم پر غالب نہ آجائیں یہ عشاء ہے، وہ لوگ اسے عتمہ کہتے ہیں، کیونکہ وہ اس وقت اونٹوں کے حوالے سے کام کاج کرکے فارغ ہوتے ہیں۔“ (یہاں ایک لفظ میں راوی کو شک ہے) سفیان کہتے ہیں: ابن ابولبید نے اسی طرح شک کے ہمراہ روایت نقل کی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:652]
فائدہ:
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ نمازوں کے نام بھی بذریعہ وحی رکھے گئے ہیں، ان کو اصل ناموں کے ساتھ ہی پکارنا چاہیے، عالمی لوگ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ دین اسلام کی اصطلاحات کو اپنے ماحول کے مطابق تبدیل کردیں، مثلاً ا آج کل نماز عشاء کو”سوتے“ کی نماز کہتے ہیں، اور ظہر کی نماز کو ”پیشی“ کی نماز اور عصر کی نماز کو ”ڈیگر“ کی نماز کہنا درست نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بعض لوگوں نے نماز عشاء کو اصل نام سے تبدیل کر کے ”عتمہ“ کہنا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کر دیا، آج بھی ضرورت ہے کہ عامی لوگوں کو ان کی بری عادات پر ڈانٹنا چاہیے، اور انھیں قرآن و حدیث پر ہی پابند کرنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 652