الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
The Book of Prayer - Travellers
1. باب صَلاَةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا:
1. باب: مسافر کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1573
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، وزهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن ابن جريج ، عن ابن ابي عمار ، عن عبد الله بن بابيه ، عن يعلى بن امية ، قال: قلت لعمر بن الخطاب " فليس عليكم جناح ان تقصروا من الصلاة إن خفتم ان يفتنكم الذين كفروا سورة النساء آية 101، فقد امن الناس، فقال: عجبت مما عجبت منه، فسالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: صدقة، تصدق الله بها عليكم، فاقبلوا صدقته ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الآخَرُونَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَابَيْهِ ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، قَالَ: قُلْتُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ " فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا سورة النساء آية 101، فَقَدْ أَمِنَ النَّاسُ، فَقَالَ: عَجِبْتُ مِمَّا عَجِبْتَ مِنْهُ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: صَدَقَةٌ، تَصَدَّقَ اللَّهُ بِهَا عَلَيْكُمْ، فَاقْبَلُوا صَدَقَتَهُ ".
عبداللہ بن ادریس نے ابن جریج سے، انھوں نے ابن ابی عمار سے، انھوں نے عبداللہ بن بابیہ سے اور انھوں نے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی: کہا: میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے عرض کی (کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے) "اگر تمھیں خوف ہو کہ کافر تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے تو تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ تم نماز قصر کرلو"اب تو لوگ امن میں ہیں (پھر قصر کیوں کرتے ہیں؟تو انھوں نے جواب دیا مجھے بھی اس بات پر تعجب ہو ا تھا جس پر تمھیں تعجب ہوا ہے۔تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں سوا ل کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " (یہ) صدقہ (رعایت) ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے اس لئے تم اس کا صدقہ قبول کرو۔"
حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اگر تمہیں کافروں کی طرف سے فتنہ کا اندیشہ ہو تو تم پر کوئی حرج نہیں ہے کہ نماز میں قصر کرلو (النساء: ۱۰۱)- اب لوگ تو بے خوف ہو گئے ہیں (پھر قصر کیوں کرتے ہیں) تو انہوں نے جواب دیا مجھے بھی اس بات پر تعجب ہوا تھا، جس پر تم تعجب کر رہے ہو تو میں نے اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کا صدقہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم پر کیا ہے تو اس کے صدقہ کو قبول کرو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 686

   سنن النسائى الصغرى1434عمر بن الخطابصدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته
   صحيح مسلم1573عمر بن الخطابصدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته
   جامع الترمذي3034عمر بن الخطابصدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته
   سنن أبي داود1199عمر بن الخطابصدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته
   سنن ابن ماجه1065عمر بن الخطابصدقة تصدق الله بها عليكم فاقبلوا صدقته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1199  
´مسافر کی نماز کا بیان۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: مجھے بتائیے کہ (سفر میں) لوگوں کے نماز قصر کرنے کا کیا مسئلہ ہے اللہ تعالیٰ تو فرما رہا ہے: اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں فتنہ میں مبتلا کر دیں گے، تو اب تو وہ دن گزر چکا ہے تو آپ نے کہا: جس بات پر تمہیں تعجب ہوا ہے اس پر مجھے بھی تعجب ہوا تھا تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر یہ صدقہ کیا ہے لہٰذا تم اس کے صدقے کو قبول کرو ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1199]
1199۔ اردو حاشیہ:
➊ یعنی سفر میں نماز قصر کرنا، صرف دو رکعت پڑھنا یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے۔ خواہ خوف ہو یا نہ ہو، لہٰذا اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے، حالت سفر میں قصر مسنون ہے۔
➋ صحیح احادیث قرآن کریم کی تفسیر ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1199   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1065  
´سفر میں نماز قصر کرنے کا بیان۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سوال کیا، میں نے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا» نماز قصر کرنے میں تمہارے اوپر کوئی گناہ نہیں اگر کافروں کی فتنہ انگیزیوں کا ڈر ہو (سورۃ النساء: ۱۰۱)، اب اس وقت تو لوگ مامون (امن و امان میں) ہو گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جس بات پر تمہیں تعجب ہوا مجھے بھی اسی پر تعجب ہوا تھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صدقہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے تم پر ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1065]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نماز قصر اللہ کی طرف سے ایک انعام ہے۔
اسے قبول کرنا چاہیے۔

(2)
اس میں اشارہ ہے کہ سفر میں قصر کرنا افضل ہے۔

(3)
آیت مبارکہ میں نماز قصر کو خوف کی حالت سے مشروط کیا گیا ہے۔
لیکن حدیث سے وضاحت ہوگئی کہ یہ شرط اس وقت کے حالات کےاعتبار سے تھی اب خوف کے علاوہ بھی سفر میں قصر کرنا جائز ہے۔

(4)
دشمن کے مقابلے کے وقت نماز خوف میں بھی قصر درست ہے۔
بلکہ اس حالت میں سفر کی نسبت احکام مذید نرم ہوجاتے ہیں۔
اور نماز کا طریقہ بھی بدل جاتا ہے۔
جن کی تفصیل آگے حدیث 1258تا 1260 میں آئے گی۔
إن شاء اللہ تعالیٰ
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1065   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3034  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی الله عنہ سے کہا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم» تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں، اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں پریشان کریں گے (النساء: ۱۰۱)، اور اب تو لوگ امن و امان میں ہیں (پھر قصر کیوں کر جائز ہو گی؟) عمر رضی الله عنہ نے کہا: جو بات تمہیں کھٹکی وہ مجھے بھی کھٹک چکی ہے، چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی جانب سے تمہارے لیے ایک صدقہ ہے جو اللہ نے تمہیں عنایت فرمایا ہے، پس تم اس کے صدقے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3034]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تم پرنمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں،
اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں پریشان کریں گے (النساء: 101)۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3034   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1573  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا نماز قصر کا اصل سبب دشمن سے جنگ کا اندیشہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے امت پر احسان کرتے ہوئے اس کو عام کر دیا کہ اگرچہ سفر میں کسی قسم کا خوف وخطرہ نہ ہو تو تب بھی قصر کر سکتے ہو اس لیے:
﴿لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ﷢﴾ اور صدقہ کا لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں ہے لیکن یہ چونکہ اللہ کا فضل واحسان ہے اس لیے اس کا تقاضا یہی ہے کہ انسان انفرادی اور شخصی طور پر نماز قصر پڑھے ہاں اگر مقیم امام کے پیچھے نماز پڑھے تو پوری پڑھ لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1573   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.