الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
10. باب التَّشْدِيدِ فِي النِّيَاحَةِ:
10. باب: نوحہ کرنے کی سختی کے ساتھ ممانعت۔
Chapter: Stern warning against wailing
حدیث نمبر: 2161
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن المثنى ، وابن ابي عمر ، قال ابن المثنى: حدثنا عبد الوهاب ، قال: سمعت يحيى بن سعيد ، يقول: اخبرتني عمرة ، انها سمعت عائشة ، تقول: لما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل ابن حارثة، وجعفر بن ابي طالب، وعبد الله بن رواحة، جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرف فيه الحزن، قالت: وانا انظر من صائر الباب شق الباب، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إن نساء جعفر وذكر بكاءهن، فامره ان يذهب فينهاهن، فذهب فاتاه فذكر انهن لم يطعنه، فامره الثانية ان يذهب فينهاهن، فذهب، ثم اتاه، فقال: والله لقد غلبننا يا رسول الله، قالت: فزعمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اذهب فاحث في افواههن من التراب "، قالت عائشة: " فقلت ارغم الله انفك، والله ما تفعل ما امرك رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم من العناء ".وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: لَمَّا جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ، قَالَتْ: وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَذْهَبَ فَيَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ فَأَتَاهُ فَذَكَرَ أَنَّهُنَّ لَمْ يُطِعْنَهُ، فَأَمَرَهُ الثَّانِيَةَ أَنْ يَذْهَبَ فَيَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ، ثُمَّ أَتَاهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَتْ: فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اذْهَبْ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ مِنَ التُّرَابِ "، قَالَتْ عَائِشَةُ: " فَقُلْتُ أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ، وَاللَّهِ مَا تَفْعَلُ مَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ ".
‏عبد الوہاب نے کہا: میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا وہ کہہ رہے تھے مجھے عمرہ نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فر ما رہی تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زید بن حارثہ جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے قتل (شہید) ہو نے کی خبر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح) مسجد میں) بیٹھے کہ آپ (کے چہرہ انور) پر غم کا پتہ چل رہا تھا کہا: میں دروازے کی جھری۔۔۔دروازے کی درز۔۔۔ے دیکھ رہی تھی کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جعفر (کے خاندان) کی عورتیں اور اس نے ان کے رونے کا تذکرہ کیا آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ جا کر انھیں روکے وہ چلا گیا وہ (دوبارہ) آپ کے پاس آیا اور بتا یا کہ انھوں نے اس کی بات نہیں مانی آپ نے اسے دوبارہ حکم دیا کہ وہ جا کر انھیں روکے وہ گیا اور پھر (تیسری بار) آپ کے پاس آکر کہنے لگا: اللہ کی قسم!اللہ کے رسول!وہ ہم پر غالب آگئی ہیں کہا:: ان (عائشہ رضی اللہ عنہا) کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اور ان کے منہ میں مٹی ڈال دو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے (دل میں) کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے!اللہ کی قسم!نہ تم وہ کا م کرتے ہو جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں حکم دیا ہے اور نہ ہی تم نے (باربار بتا کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف (دینا) ترک کیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر غم کے آثار محسوس ہو رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہی تھی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آ کرکہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جعفر کے خاندان کی عورتیں رو رہی ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ جا کر انہیں روکو۔ وہ گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا، وہ اس کی بات نہیں مان رہیں، آپ نے اسے دوبارہ حکم دیا کہ جاؤ جا کر انھیں منع کرو۔ وہ گیا اور پھر آکر کہا، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! وہ ہم پر غالب آ گئی ہیں(بات نہیں مان رہی ہیں۔) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خیال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور ان کے منہ میں مٹی ڈال دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہتی ہیں، میں نے خود کلامی کی کہ اللہ تعالی تیری ناک خاک آلود کرے (تمہیں ذلیل و خوار کرے)!اللہ کی قسم! تم وہ کام نہیں کر سکتے ہو جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دے رہے ہیں اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار بتا کر) آپ کو مشقت میں ڈالنے سے باز ہیں آتے ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 935

   صحيح البخاري4263عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن من التراب قالت عائشة فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت تفعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1305عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت بفاعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1299عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك لم تفعل ما أمرك رسول الله ولم تترك رسول الله من العناء
   صحيح مسلم2161عائشة بنت عبد اللهاذهب فاحث في أفواههن من التراب
   سنن أبي داود3122عائشة بنت عبد اللهيعرف في وجهه الحزن
   سنن النسائى الصغرى1848عائشة بنت عبد اللهانطلق فاحث في أفواههن التراب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3122  
´مصیبت کے وقت (غم کے سبب سے) بیٹھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3122]
فوائد ومسائل:
اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کو ایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے۔
کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔
کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔
اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔
اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔
یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔
تو برا منایا جاتا ہے۔
اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کا منکر باور کرایا جاتا ہے۔
حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔
اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔
دعا کی اہمیت وفضیلت کا کوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔
با ر بارہاتھ اٹھا کردعا کرنا ایک رسم ہے۔
اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔
یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔
حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعا کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے۔
گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔
صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے؟ وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔
اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔
جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔
اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پر دریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔
تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجانا چاہیے۔
اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔
تعزیت کن الفاظ میں اور کس طرح کی جائے؟ بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔
(إناللہ و إنا إلیه راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چار ہونے کو واضح کیا جائے۔
میت کے حق میں بغیر ہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔
اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔
اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔
جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔
مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔
انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔
تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب (صحیح بخاری، الجنائز، باب: 32 حدیث: 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔
جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔
جو اس نے دیا۔
اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔
جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔
تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔
«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِى سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ. وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ» (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 920) اے اللہ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔
اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔
اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرما دے۔
جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔
تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔
اور ا س قسم کی باتیں کرے۔
جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔
اور ان کے دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔
اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3122   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2161  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جعفر کی رشتہ دار عورتیں فطرتی اور طبعی رونے سے بلند آواز سے رو رہی تھیں اور شدت غم وحزن کی بنا پر انہیں اس کا احساس نہیں ہو رہا تھا۔
اس لیے وہ دوسرے کے روکنے پر بھی باز نہیں آ رہی تھیں۔
اور آپﷺ شدت غم کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی تھے۔
اور اپنے تین عزیز اور محبوب ساتھیوں کی شہادت پر دینی اور شرعی امور کی پاسداری فرما رہے تھے اور آخر کار بتانے والے کو قوت کے استعمال کا حکم دیا کہ انہیں زبردستی روکو،
ان کے منہ میں مٹی ڈال دو لیکن وہ اس قدر جرأت اور ہمت نہیں کر سکتا تھا۔
اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواہش کی کہ وہ آپﷺ کو بار بار بتانے سے باز آ جائے جس سے معلوم ہوتا ہے وہ صرف آواز ہی بلند کر رہی تھیں۔
بین وغیرہ نہیں کر رہی تھیں وگرنہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ان کو روکتے،
اور اس آدمی کا مقصد سد ذریعہ تھا کہ یہ کہیں بین ہی نہ شروع کر دیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2161   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.