الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
45. بَابُ غَزْوَةُ مُوتَةَ مِنْ أَرْضِ الشَّأْمِ:
45. باب: غزوہ موتہ کا بیان جو سر زمین شام میں سنہ ۸ ھ میں ہوا تھا۔
(45) Chapter. The Ghazwa of Mu’tah in the land of Sham.
حدیث نمبر: 4263
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الوهاب، قال: سمعت يحيى بن سعيد، قال: اخبرتني عمرة، قالت: سمعت عائشة رضي الله عنها، تقول:" لما جاء قتل ابن حارثة، وجعفر بن ابي طالب، وعبد الله بن رواحة رضي الله عنهم، جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرف فيه الحزن، قالت عائشة: وانا اطلع من صائر الباب، تعني: من شق الباب، فاتاه رجل فقال: اي رسول الله، إن نساء جعفر، قال: وذكر بكاءهن، فامره ان ينهاهن، قال: فذهب الرجل ثم اتى فقال: قد نهيتهن، وذكر انه لم يطعنه، قال: فامر ايضا فذهب، ثم اتى فقال: والله لقد غلبننا، فزعمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: فاحث في افواههن من التراب، قالت عائشة: فقلت: ارغم الله انفك، فوالله ما انت تفعل، وما تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم من العناء".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ:" لَمَّا جَاءَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ، تَعْنِي: مِنْ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ، قَالَ: وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْهَاهُنَّ، قَالَ: فَذَهَبَ الرَّجُلُ ثُمَّ أَتَى فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ، وَذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يُطِعْنَهُ، قَالَ: فَأَمَرَ أَيْضًا فَذَهَبَ، ثُمَّ أَتَى فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا، فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ مِنَ التُّرَابِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ، فَوَاللَّهِ مَا أَنْتَ تَفْعَلُ، وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا ‘ کہا کہ مجھے عمرہ بنت عبدالرحمٰن نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا زید بن حارثہ ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر آئی تھی ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے سے غم ظاہر ہو رہا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں دروازے کی دراڑ سے جھانک رہی تھی۔ اتنے میں ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتیں چلاّ کر رو رہی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ انہیں روک دو۔ بیان کیا کہ وہ صاحب گئے اور پھر واپس آ کر کہا کہ میں نے انہیں روکا اور یہ بھی کہہ دیا کہ انہوں نے اس کی بات نہیں مانی۔ پھر اس نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منع کرنے کے لیے فرمایا۔ وہ صاحب پھر جا کر واپس آئے اور کہا: قسم اللہ کی! وہ تو ہم پر غالب آ گئی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دو۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ‘ میں نے کہا: اللہ تیری ناک غبار آلود کرے نہ تو تو عورتوں کو روک سکا نہ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا ہی چھوڑا۔

Narrated `Amra: I heard `Aisha saying, "When the news of the martyrdom of Ibn Haritha, Ja`far bin Abi Talib and `Abdullah bin Rawaka reached, Allah's Apostle sat with sorrow explicit on his face." `Aisha added, "I was then peeping through a chink in the door. A man came to him and said, "O Allah's Apostle! The women of Ja`far are crying.' Thereupon the Prophet told him to forbid them to do so. So the man went away and returned saying, "I forbade them but they did not listen to me." The Prophet ordered him again to go (and forbid them). He went again and came saying, 'By Allah, they overpowered me (i.e. did not listen to me)." `Aisha said that Allah's Apostle said (to him), "Go and throw dust into their mouths." Aisha added, "I said, May Allah put your nose in the dust! By Allah, neither have you done what you have been ordered, nor have you relieved Allah's Apostle from trouble."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 562


   صحيح البخاري4263عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن من التراب قالت عائشة فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت تفعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1305عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك فوالله ما أنت بفاعل وما تركت رسول الله من العناء
   صحيح البخاري1299عائشة بنت عبد اللهاحث في أفواههن التراب فقلت أرغم الله أنفك لم تفعل ما أمرك رسول الله ولم تترك رسول الله من العناء
   صحيح مسلم2161عائشة بنت عبد اللهاذهب فاحث في أفواههن من التراب
   سنن أبي داود3122عائشة بنت عبد اللهيعرف في وجهه الحزن
   سنن النسائى الصغرى1848عائشة بنت عبد اللهانطلق فاحث في أفواههن التراب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3122  
´مصیبت کے وقت (غم کے سبب سے) بیٹھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3122]
فوائد ومسائل:
اہل میت اور ان کے اعزہ و احباب کو ایسے موقع پر بیٹھنا اور اکھٹے ہونا مباح ومستحب ہے لیکن یہ کوئی ضروری نہیں کہ زمین ہی پر بیٹھا جائے بلکہ حسب احوال چٹایئوں چار پایئوں یا کرسیوں پر بیٹھنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
تاہم تین دن تک اس طرح تعزیت کےلئے آنے جانے والوں کی خاطر بیٹھنے کو لازم سمجھنا غلط ہے۔
کیونکہ یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔
کہ اسے ضروری سمجھا جائے۔
اسے زیادہ سے زیادہ ایک جائز رواج ہی کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
علاوہ ازیں ان ایام میں تعزیت کے لئے آنے والا شخص حاضرین سمیت پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کو ضروری سمجھتا ہے۔
اور جو شخص ایسا نہیں کرتا۔
یا اہل میت اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے۔
تو برا منایا جاتا ہے۔
اور اس شخص کو یا اہل میت کو دعا کا منکر باور کرایا جاتا ہے۔
حالانکہ مسئلہ دعا کی اہمیت و فضیلت کا نہیں ہے۔
اس لئے کہ وہ تو مسلمہ ہے۔
دعا کی اہمیت وفضیلت کا کوئی منکر نہیں اصل مسئلہ مسنون طریقے سے دعا کرنے کا ہے۔
با ر بارہاتھ اٹھا کردعا کرنا ایک رسم ہے۔
اور اس میں اکثر کچھ پڑھا بھی نہیں جاتا۔
یا صرف فاتحہ خوانی کر لی جاتی ہے۔
حالانکہ سورہ فاتحہ میں میت کےلئے مغفرت کی دعا کا کوئی پہلو ہی نہیں ہے۔
گویا یہ طریقہ ایک تو مسنون نہیں ہے۔
صرف رسم ہے دوسری میت کے حق میں اس طرح مغفرت کی دعا بھی بالعموم نہیں ہوتی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے تو پھر تعزیت کا مسنون طریقہ کیاہے؟ وہ طریقہ حسب ذیل ہے۔
اول تو میت کے اہل خانہ کا اس طرح اہتمام کے ساتھ مسلسل چند دن بیٹھنا ہی ایسا عمل ہے۔
جس کا ثبوت عہد رسالت وعہد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین میں ملنا نہایت مشکل ہے۔
اصل بات جنازے اور تدفین میں شریک ہوکر میت کے لئے مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
اس کے بعد اہل میت کےلئے خاص طور پر دریاں یا صفیں بچھا کر بیٹھنا محل نظر ہے۔
تدفین کے بعد ان کو اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجانا چاہیے۔
اور اہل میت جب بھی اور جہاں بھی ملیں ان سے تعزیت کر لی جائے۔
تعزیت کن الفاظ میں اور کس طرح کی جائے؟ بہتر یہ ہے کہ اہل میت کو سب سے پہلے صبر ورضا کی تلقین کی جائے۔
(إناللہ و إنا إلیه راجعون) پڑھ کرسب کےلئے اسی انجام سے دو چار ہونے کو واضح کیا جائے۔
میت کے حق میں بغیر ہاتھ اٹھائے مغفرت کی دعا کی جائے۔
اوراہل میت کےلئے صبر جمیل کی۔
اور وہ دعایئں پڑھی جایئں۔
جو اس موقع پر نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں۔
مثلا ً نبی کی صاحب زادی حضرت زینب کا بچہ عالم نزع میں تھا۔
انہوں نے نبی کریمﷺ کو بلانے کےلئے پیغام بھیجا۔
تو آپ نے انھیں صبر واحتساب کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: أَخَذ ولَهُ ما أَعطَى، وكلُّ شَيءٍ عِنده بِأجَل مُسمَّى فَلتَصبِر ولتَحتَسِب (صحیح بخاری، الجنائز، باب: 32 حدیث: 1284) بے شک اللہ ہی کاہے۔
جو اس نے لیا اور اسی کاہے۔
جو اس نے دیا۔
اور ہر ایک کےلئے اس کے پاس ایک وقت مقرر ہے۔
جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہوگئے۔
تو نبی کریمﷺ ان کی اہلیہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تعزیت کےلئے تشریف لے گئے اوران الفاظ می دعا فرمائی۔
«اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِى سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِى الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِى عَقِبِهِ فِى الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِى قَبْرِهِ. وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ» (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 920) اے اللہ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اس کے درجے مہدین میں بلند فرما۔
اور اس کے پیچھے رہ جانے والوں میں اس کے بعد تو ان کا جانشین بن اور ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔
اے رب العالمین اس کی قبر میں کشادگی عطا فرما اور اس کو اس کےلئے منور فرما دے۔
جس کو یہ مسنون دعایئں اور الفاظ یاد نہ ہوں۔
تو وہ اپنی زبان میں ہاتھ اٹھائےبغیر میت کے لئے مغفرت کی اور اہل خانہ کےلئے صبر جمیل کی دعا کرے۔
اور ا س قسم کی باتیں کرے۔
جس سے پسماندگان کو تسلی ملے۔
اور ان کے دل وماغ سے صدمے کے اثرات کم ہوں۔
اس موقع پر بھی چونکہ نبی کریمﷺ سے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس لئے اس رواج سے بچا جائے اور سنت کے مطابق بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3122   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4263  
4263. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب حضرت ابن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنھم کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو رسول اللہ ﷺ (مسجد میں) بیٹھ رہے جبکہ آپ میں حزن و ملال کے آثار معلوم ہوتے تھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں دروازے کے سوراخ میں سے دیکھ رہی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! حضرت جعفر ؓ کے خاندان کی عورتیں رو رہی ہیں۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ انہیں رونے دھونے سے منع کرو، چنانچہ وہ آدمی گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: میں نے ان کو منع کیا ہے لیکن وہ میرا کہنا نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر اسے وہی حکم دیا۔ وہ گیا اور واپس آ کر کہنے لگا: اللہ کی قسم! وہ ہم پر غالب آ گئی ہیں۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔ حضرت ام المومنین نے فرمایا کہ میں نے کہا: اللہ تعالٰی تیری ناک خاک آلود۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4263]
حدیث حاشیہ:

حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی شہادت اللہ کے ہاں بہت اعزا ز واحترام کا باعث تھی لیکن خواتین خانہ فطری تقاضوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر رونے پیٹنے لگیں۔
یہ یاد رہے کہ رونے کی ممانعت بھی اس وقت ہے جب رونا نوحے کے ساتھ ہو۔
ممکن ہے کہ وہ عورتیں بے اختیار ہوکررورہی ہیں، یاانھوں نے خیال کیا ہوکہ مذکورہ آدمی اپنی طرف سے کہہ رہا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی حکم نہیں دیا، اس لیے انھوں نے اس کے کہنے کی کوئی پروانہ کی۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ انھیں ان کے حال پر رہنے دو۔
ان کے منہ میں مٹی جھونکو، نہیں مانتی تو نہ مانیں۔
اس سے حقیقی معنی بھی مراد ہوسکتے ہیں کہ ان کے منہ میں مٹی ڈالو۔
چونکہ وہ بڑے خاندان کی معزز خواتین تھیں، اس لیے مٹی ڈالنے کی اسے جراءت نہ ہوئی۔

واضح رہے کہ رونے والی خواتین حضرت جعفر ؓ کی بیویاں نہیں تھیں کیونکہ ان کی صرف ایک ہی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس ؓ مشہور ہے۔
ممکن ہے کہ خاندان کی دیگرخواتین ہوں۔
(فتح الباري: 644/7۔
)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4263   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.