● صحيح البخاري | 2176 | سعد بن مالك | الذهب بالذهب مثلا بمثل الورق بالورق مثلا بمثل |
● صحيح البخاري | 2177 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل لا تشفوا بعضها على بعض لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل لا تشفوا بعضها على بعض لا تبيعوا منها غائبا بناجز |
● صحيح مسلم | 4054 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل لا تشفوا بعضها على بعض لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل لا تشفوا بعضها على بعض لا تبيعوا منها غائبا بناجز |
● صحيح مسلم | 4057 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب لا الورق بالورق إلا وزنا بوزن مثلا بمثل سواء بسواء |
● صحيح مسلم | 4055 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل لا تشفوا بعضه على بعض لا تبيعوا شيئا غائبا منه بناجز إلا يدا بيد |
● صحيح مسلم | 4064 | سعد بن مالك | الذهب بالذهب الفضة بالفضة البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح مثلا بمثل يدا بيد من زاد فقد أربى الآخذ والمعطي فيه سواء |
● جامع الترمذي | 1241 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل الفضة بالفضة إلا مثلا بمثل لا يشف بعضه على بعض لا تبيعوا منه غائبا بناجز |
● سنن النسائى الصغرى | 4569 | سعد بن مالك | الذهب بالذهب الورق بالورق البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح سواء بسواء من زاد على ذلك فقد أربى والآخذ والمعطي فيه سواء |
● سنن النسائى الصغرى | 4574 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل لا تشفوا بعضها على بعض لا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل لا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز |
● سنن النسائى الصغرى | 4575 | سعد بن مالك | النهي عن الذهب بالذهب الورق بالورق إلا سواء بسواء مثلا بمثل لا تبيعوا غائبا بناجز لا تشفوا أحدهما على الآخر |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 510 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض |
● بلوغ المرام | 697 | سعد بن مالك | لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل ولا تشفوا بعضها على بعض ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تشفوا بعضها على بعض ولا تبيعوا منها غائبا بناجز |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 510
´کمی بیشی کے ساتھ ادھار کے بدلے نقد بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 259- مالك عن نافع عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها شيئا غائبا بناجز.“ . . .»
”. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض کو بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور چاندی کو چاندی کے بدلے میں نہ بیچو مگر برابر برابر، اس میں بعض پر زیادتی و اضافہ نہ دو اور ان میں سے کوئی چیز بھی ادھار کے بدلے نقد نہ بیچو . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 510]
تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري 2177، و مسلم 1584، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ سونے چاندی کے لین دین میں اضافہ حرام ہے، چاہے نقد ہو یا ادھار۔
➋ اگر جنس علیحدہ ہو تو کرنسی کا تبادلہ جائز ہے مثلاً ریال دے کر روپے لینا یا روپے دے کر ریال وغیرہ لینا۔
➌ محمد طاہر القادری (بریلوی) نے أحمد رضا خان بریلوی سے نقل کیا ہے کہ ”اگر کوئی شخص دس روپے کا نوٹ دوسرے شخص کو سال بھر کے وعدے پر بارہ (12) روپے میں بیچ دے تو یہ جائز ہے۔“ [بلا سُود بنکاری/عبوری خاکہ طبع سوم جولائی 1987ء ص100]
بریلوی صاحب کا اس عمل کو جائز قرار دینا سراسر غلط ہے بلکہ حق یہ ہے کہ صریح سود ہے۔ سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «كل قرض جر منفعته فهو وجه من وجوه الربا» ہر وہ قرض جو نفع کھینچے، سود کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/350 وسنده صحيح وأخطأ من ضعفه]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 259
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1241
´صرف کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری رضی الله عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا): ”سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو۔“ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1241]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
سونے چاندی کوبعوض سونے چاندی نقداً بیچنا بیع صرف ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1241
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4054
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ربا:
کا معنی اضافہ و زیادتی یا بڑھوتری ہے،
اور علامہ ابوبکر جصاص نے اس کی تعریف یوں کی ہے،
(القرض المشروط فيه الاجل و زيادة مال علي المستقرض)
یعنی ادھار کی میعاد پر مقروض سے اضافہ وصول کرنا،
اور ایک مرفوع اور موقوف حدیث ہے،
(كل قرض جر منفعة فهو ربا)
قرض پر نفع وصول کرنا سود ہے۔
لا تشفوا:
یہ شف سے ماخوذ ہے،
جس کا معنی،
زیادتی اور کمی دونوں آتے ہیں،
تو معنی ہوا،
ایک دوسرے سے کم یا زیادہ نہ کرو برابر،
برابر ہوں۔
فوائد ومسائل:
ربا کی دو قسمیں ہیں (1)
ربا النسيئة:
جس کی حرمت قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے،
اس لیے اس کو ربا القرآن بھی کہتے ہیں،
جس میں ادھار،
رقم دے کر،
اس پر نفع یا اضافہ وصول کیا جاتا ہے۔
(2)
ربا الفضل:
جس کی حرمت احادیث میں بیان کی گئی ہے،
اس لیے اسے ربا الحديث بھی کہتے ہیں،
جس میں ایک جنس کا باہمی تبادلہ کمی و بیشی کے ساتھ کیا جاتا ہے،
مثلا ایک طرف چار کلو گندم ہے اور دوسری طرف 6 کلو گندم ہے،
یا ایک طرف دو تولہ سونا ہے اور دوسری طرف تین تولہ یا ڈھائی تولہ سونا ہے تو یہ جائز نہیں ہے اور ایک ملک کی کرنسی کا حکم بھی سونے،
چاندی والا ہے،
تبادلہ میں کمی و بیشی جائز نہیں ہے،
اس طرح تبادلہ کا دست بدست نقد بنقد ہونا ضروری ہے،
موجود (ناجز)
کا غائب (غیر موجود)
سے تبادلہ جائز نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4054