الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
15. باب حُكْمِ الْفَيْءِ:
15. باب: جو مال کافروں کا بغیر لڑائی کے ہاتھ آئے اس کا بیان۔
Chapter: Ruling on Fai' (Booty acquired without fighting)
حدیث نمبر: 4575
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن عباد ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم واللفظ لابن ابي شيبة، قال إسحاق اخبرنا، وقال الآخرون: حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن الزهري ، عن مالك بن اوس ، عن عمر ، قال: " كانت اموال بني النضير مما افاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب، فكانت للنبي صلى الله عليه وسلم خاصة، فكان ينفق على اهله نفقة سنة وما بقي يجعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: " كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَةٍ وَمَا بَقِيَ يَجْعَلُهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ "،
قتیبہ بن سعید، محمد بن عباد، ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم نے ہمیں حدیث بیان کی، الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں۔ اسحاق نے کہا کہ ہمیں خبر دی، جبکہ دوسروں نے کہا کہ ہمیں حدیث بیان کی سفیان نے عمرو سے، انہوں نے زہری سے، انہوں نے مالک بن اوس سے اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: بنونضیر کے اموال ان اموال میں سے تھے جو اللہ نے اپنے رسول کو (بطور فے) عطا کیے جس پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ۔ تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھے۔ آپ (ان میں سے) اپنے اہل و عیال کے لیے ایک سال کا خرچ لیتے اور جو بچ جاتا اسے اللہ کی راہ میں (جہاد کی) تیاری کے لیے جنگی سواریوں اور اسلحے پر لگا دیتے
امام صاحب اپنے چار اساتذہ کی سند سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ بنو نضیر کے اموال، ان اموال میں سے تھے، جو اللہ نے اپنے رسول کی طرف لوٹائے تھے، مسلمانوں نے ان کی خاطر اپنے گھوڑے دوڑائے، نہ اونٹ، اس لیے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص تھے تو آپ اپنے گھر والوں کو سال بھر کا خرچہ دیتے تھے اور باقی مال کو جنگی سواریوں اور اسلحہ پر جہاد کی تیاری و اہتمام کے لیے خرچ کر دیتے تھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1757

   صحيح البخاري4885عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكانت لرسول الله خاصة ينفق على أهله منها نفقة سنته ثم يجعل ما بقي في السلاح والكراع عدة في سبيل الله
   صحيح البخاري2904عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكانت لرسول الله خاصة وكان ينفق على أهله نفقة سنته ثم يجعل ما بقي في السلاح والكراع عدة في سبيل الله
   صحيح مسلم4575عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب فكانت للنبي خاصة فكان ينفق على أهله نفقة سنة وما بقي يجعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله
   جامع الترمذي1719عمر بن الخطابيعزل نفقة أهله سنة ثم يجعل ما بقي في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله
   سنن أبي داود2965عمر بن الخطابينفق على أهل بيته قوت سنة فما بقي جعل في الكراع وعدة في سبيل الله في الكراع والسلاح
   سنن أبي داود2966عمر بن الخطابما أفاء الله على رسوله من أهل القرى فلله وللرسول ولذي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل
   سنن النسائى الصغرى4145عمر بن الخطابأموال بني النضير مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب فكان ينفق على نفسه منها قوت سنة وما بقي جعله في الكراع والسلاح عدة في سبيل الله
   بلوغ المرام1119عمر بن الخطاباموال بني النضير مما افاء الله على رسوله مما لم يوجف عليه المسلمون بخيل ولا ركاب
   مسندالحميدي22عمر بن الخطابإن أموال بني النضير كانت مما أفاء الله على رسوله مما لم يوجف المسلمون عليه بخيل ولا ركاب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1119  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ بنو نضیر کے اموال، ان اموال میں سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی طرف پلٹا دئیے ہیں۔ جن پر مسلمانوں نے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ۔ یہ اموال خالص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان اموال میں سے اپنی بیویوں پر سال بھر خرچ کرتے تھے اور جو باقی بچ رہتا اس سے گھوڑے اور اسلحہ جہاد فی سبیل اللہ کی تیاری کے لیے خرید فرماتے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1119»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجهاد، باب المجن ومن يترس بترس صاحبه، حديث:2904، ومسلم، الجهاد والسير، باب حكم الفيء، حديث:1757.»
تشریح:
بنو نضیر‘ مدینہ منورہ میں آباد یہودیوں کا بہت بڑا قبیلہ تھا۔
ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاہدہ تھا۔
انھوں نے بقول بعض‘ غزوۂ بدر کے چھ ماہ بعد اور بقول ابن اسحٰق ‘احد اور بئر معونہ کے واقعے کے بعد عہد شکنی کا ارتکاب کیا۔
تنبیہ اور یاددہانی کے باوجود وہ باز نہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر چڑھائی کر دی اور ان کا محاصرہ کر لیا۔
بالآخر وہ محاصرے کی تاب نہ لا کر اپنے گھر بار اور مال چھوڑ کر جلا وطن ہوگئے اور بغیر کسی قسم کی لڑائی کے ان کے اموال آپ کے ہاتھ آگئے۔
یہ اموال فے قرار پائے‘ اس لیے کہ لڑائی تو سرے سے ہوئی ہی نہیں تھی‘ اس لیے بحیثیت غازی تو کسی کا کوئی حصہ بنتا ہی نہیں تھا‘ تاہم آپ نے اس کا اکثر حصہ مہاجرین میں تقسیم کیا اور دو انصاری صحابہ کو بھی حسب ضرورت عطا فرمایا۔
باقی مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال اور قرابت داروں پر خرچ کرتے تھے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1119   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1719  
´مال فے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسود کے قبیلہ بنی نضیر کے اموال ان میں سے تھے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور «فے» ۱؎ عطا کیا تھا، اس کے لیے مسلمانوں نے نہ تو گھوڑے دوڑائے تھے اور نہ ہی اونٹ، یہ پورے کا پورا مال خالص اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے لیے اس میں سے ایک سال کا خرچ الگ کر لیتے، پھر جو باقی بچتا اسے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑوں اور ہتھیاروں میں خرچ کرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1719]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فئی:
وہ مال ہے جو کافروں سے جنگ کیے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آئے،
یہ مال آپ کے لیے خاص تھا،
مال غنیمت نہ تھا کہ مجاہدین میں تقسیم کیاجاتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1719   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2965  
´مال غنیمت میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لیے جو مال منتخب کیا اس کا بیان۔`
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بنو نضیر کا مال اس قسم کا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عطا کیا تھا اور مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے تھے (یعنی جنگ لڑ کر حاصل نہیں کیا تھا) اس مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے تھے۔ ابن عبدہ کہتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے گھر والوں کا ایک سال کا خرچہ لے لیا کرتے تھے اور جو بچ رہتا تھا اسے گھوڑے اور جہاد کی تیاری میں صرف کرتے تھے، ابن عبدہ کی روایت میں: «في الكراع والسلاح» کے الفاظ ہیں، (یعنی مجاہدین کے لیے گھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2965]
فوائد ومسائل:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے لئے اللہ تعالیٰ نے جو اموال مخصوص کئے وہ تین طرح کے تھے۔
(الف) وہ اراضی جو انصار نے اپنی زمینوں میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور ہدیہ پیش کی تھیں۔
ان اراضی پرپانی نہیں پہنچتاتھا۔
(ب) مخیریق یہودی نے عہد کے موقع پر اسلام لاتے ہوئے بنو نضیر کے علاقے میں اپنے سات باغات کی وصیت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کی (ج) بنو نضیرنے جب لڑے بغیر ہتھیار ڈال کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قبول کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلحہ کے علاوہ جوکچھ اونٹوں وغیرہ پر اٹھا کرلے جا سکتے تھے۔
لے جانے کی اجازت دی۔
باقی سب کچھ فے تھا جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی باقی ماندہ تمام منقولہ جایئداد مسلمانوں میں تقسیم کردی۔
زمین وغیرہ کی آمدنی سے اپنے آپ اخراجات پورے کرتے تھے۔
لیکن زیادہ آمدنی مسلمانوں کے ولی امر کی حیثیت سے جہاد اور دیگر فوری نوعیت کی ضرورتوں پر خرچ کرتے۔
بعد ازاں خیبر کی فتح کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے وسیع اور زرخیز علاقے مسلمانوں کو عطا کردیئے۔
خیبر کا آدھا حصہ فتح ہوا تھا۔
اور جو مجاہدین میں تقسیم ہوا تھا۔
اور باقی آدھا جس میں فدک اور وادی القرُیٰ کے حصے تھے۔
بغیر جنگ کے حاصل ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بطور فے آپ کی تحویل میں آگیا۔
اس طرح خیبر کے قلعوں میں سے وطیع اور سلالم بھی بصورت فے حاصل ہوئے۔
خیبر کا جو حصہ جنگ کے ذریعے سے حاصل ہوا۔
اس کا خمس بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں تھا۔
 (عون المعبود باب في صفایا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم من الأموال، شرح حدیث 2969)

خیبر کے اموال جب تحویل میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کے سال کے کم از کم مقدار میں کھانے کے اخراجات کے بعد باقی سب آمدنی مصیبت زدہ افراد انسانی اور خاندانی حقوق کی ادایئگی کےلئے مختص کردی۔
(ان میں بچوں کی خبر گیری نوجوانوں یا بیوہ عورتوں کی شادی جیسی مدات شامل تھیں۔
 (أبو داود، حدیث: 3012۔
2970)


حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان اموال کا مطالبہ کیا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال بطور وراثت تقسیم نہیں ہوگا۔
البتہ آل محمد یا نساء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے کا خرچ اس میں سے ادا ہوگا۔
باقی صدقہ ہوگا۔
 (ابوداود، حدیث: 2968۔
2974)
اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ان سب اموال کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین کے پاس رہے گی۔
اور ان کی آمدنی بعینہ انہی مصارف پر خرچ ہوگی۔
جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ فرماتے تھے۔
اس فیصلے پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت پوری امت کا اجماع ہوا۔
 (ابوداود، حدیث: 2963۔
2970)
چونکہ ان صفایا (خاص اموال) کو آپ نے صدقہ قرار دیا تھا۔
اس لئے اب ان اموال کو صفایا کی بجائے صدقۃ الرسول کہا جائےگا۔
(ابوداود، حدیث: 2968۔
2970)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2965   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.