حدثنا احمد بن حنبل ، ومحمد بن رافع ، قالا: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن همام بن منبه ، قال: هذا ما حدثنا ابو هريرة ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكر احاديث منها، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ايما قرية اتيتموها واقمتم فيها، فسهمكم فيها وايما قرية عصت الله ورسوله، فإن خمسها لله ولرسوله ثم هي لكم ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا وَأَقَمْتُمْ فِيهَا، فَسَهْمُكُمْ فِيهَا وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنَّ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ ثُمَّ هِيَ لَكُمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس بستی میں تم آئے اور وہاں ٹھہرے تو تمہار حصہ اس میں ہے اور جس بستی والوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی یعنی لڑائی کی تو پانچواں حصہ اس کا اللہ اور رسول کا ہے باقی چار حصہ تمہارے ہیں۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: بنی نضیر کے مال ان مالوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیے اور مسلمانوں نے اس پر چڑھائی نہیں کی گھوڑوں اور اونٹوں سے۔ ایسے مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر کا خرچ ایک سال کا نکال لیتے اور جو بچ رہتا وہ گھوڑوں اور ہتھیاروں کی خرید میں صرف ہوتا۔
وحدثني عبد الله بن محمد بن اسماء الضبعي ، حدثنا جويرية ، عن مالك ، عن الزهري : ان مالك بن اوس حدثه، قال: " ارسل إلي عمر بن الخطاب، فجئته حين تعالى النهار، قال: فوجدته في بيته جالسا على سرير مفضيا إلى رماله متكئا على وسادة من ادم، فقال لي: يا مال إنه قد دف اهل ابيات من قومك وقد امرت فيهم برضخ فخذه، فاقسمه بينهم، قال: قلت: لو امرت بهذا غيري، قال: خذه يا مال، قال: فجاء يرفا، فقال: هل لك يا امير المؤمنين في عثمان ، وعبد الرحمن بن عوف ، والزبير ، وسعد ؟، فقال عمر: نعم فاذن لهم، فدخلوا ثم جاء، فقال: هل لك في عباس ، وعلي ؟، قال: نعم، فاذن لهما، فقال عباس: يا امير المؤمنين، اقض بيني وبين هذا الكاذب الآثم الغادر الخائن، فقال: القوم اجل يا امير المؤمنين، فاقض بينهم وارحهم، فقال مالك بن اوس: يخيل إلي انهم قد كانوا قدموهم لذلك، فقال عمر : اتئدا انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض اتعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركنا صدقة، قالوا: نعم، ثم اقبل على العباس، وعلي، فقال: انشدكما بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض اتعلمان ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: لا نورث ما تركناه صدقة، قالا: نعم، فقال عمر: إن الله جل وعز كان خص رسوله صلى الله عليه وسلم بخاصة لم يخصص بها احدا غيره، قال: ما افاء الله على رسوله من اهل القرى فلله وللرسول سورة الحشر آية 7، ما ادري هل قرا الآية التي قبلها ام لا، قال: فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم بينكم اموال بني النضير، فوالله ما استاثر عليكم ولا اخذها دونكم حتى بقي هذا المال، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، ياخذ منه نفقة سنة ثم يجعل ما بقي اسوة المال، ثم قال: انشدكم بالله الذي بإذنه تقوم السماء والارض اتعلمون ذلك؟، قالوا: نعم، ثم نشد عباسا، وعليا بمثل ما نشد به القوم اتعلمان ذلك؟، قالا: نعم، قال: فلما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو بكر: انا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئتما تطلب ميراثك من ابن اخيك ويطلب هذا ميراث امراته من ابيها، فقال ابو بكر : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما نورث ما تركناه صدقة "، فرايتماه كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إنه لصادق بار راشد تابع للحق، ثم توفي ابو بكر وانا ولي رسول الله صلى الله عليه وسلم وولي ابي بكر، فرايتماني كاذبا آثما غادرا خائنا والله يعلم إني لصادق بار راشد تابع للحق، فوليتها ثم جئتني انت وهذا وانتما جميع وامركما واحد، فقلتما: ادفعها إلينا، فقلت: إن شئتم دفعتها إليكما، على ان عليكما عهد الله ان تعملا فيها بالذي كان يعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخذتماها بذلك، قال: اكذلك؟، قالا: نعم، قال: ثم جئتماني لاقضي بينكما ولا والله لا اقضي بينكما بغير ذلك حتى تقوم الساعة، فإن عجزتما عنها فرداها إلي،وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ : أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: " أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَخُذْهُ، فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، وَالزُّبَيْرِ ، وَسَعْدٍ ؟، فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوا ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ ، وَعَلِيٍّ ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ: الْقَوْمُ أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ : اتَّئِدَا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ سورة الحشر آية 7، مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا، قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ "، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَعْمَلَا فِيهَا بِالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُمَاهَا بِذَلِكَ، قَالَ: أَكَذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَا وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ،
زہری سے روایت ہے کہ مالک اوس کے بیٹے نے حدیث بیان کی ان سے، مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا میں ان کے پاس دن چڑھے آیا۔ وہ اپنے گھر میں تخت پر بیٹھے تھے گدی پر اور کوئی فرش اس پر نہ تھا اور ٹیک لگائے ہوئے تھے ایک چمڑے کے تکیہ پر۔ انہوں نے کہا: اے مالک تیری قوم کے کئی گھر والے دوڑ کر میرے پاس آئے میں نے ان کو کچھ تھوڑا دلا دیا ہے تو ان سب کو بانٹ دے۔ میں نے کہا: کاش! یہ کام آپ اور کسی سے لیں، انہوں نے کہا: تو لے اے مالک اتنے میں یرفا (ان کا عرض بیگے اور خدمت گار) آیا اور کہنے لگا اے امیرالمؤمنین! عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم حاضر ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا ان کو آنے دے، وہ آئے۔ پھر یرفا آیا اور کہنے لگا سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا! ان کو بھی اجازت دے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمؤمنین! میرا اور جھوٹے گنہگار دغاباز چور کا فیصلہ کر دیجئے۔ لوگوں نے کہا: ہاں اے امیر المؤمنین! فیصلہ ان کا کر دیجئے اور ان کو اس ٹنٹے (جھگڑے) سے راحت دیجئیے۔ مالک بن اوس نے کہا: میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے) عثمان اور عبدالرحمٰن اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم کو اس لیے آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھہرو میں تم کو قسم دیتا ہوں اس اللہ کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ سب نے کہا: ہاں ہم کو معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ ان دونوں نے کہا: بے شک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی فرمایا اللہ تعالیٰ نے «مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ»”جو دیا اللہ نے اپنے رسول کو گاؤں والوں کے مال میں سے وہ اللہ اور رسول کا ہی ہے۔“(مجھے معلوم نہیں کہ اس پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی یا نہیں)، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کو بنی نضیر کے مال بانٹ دئیے اور قسم اللہ کی آپ نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیا کہ آپ لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو۔ یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا: اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا وہ بیت المال میں شریک ہوتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم کو قسم دیتا ہوں اس اللہ کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں تم یہ سب جانتے ہو یا نہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں جانتے ہیں۔ پھر قسم دی عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو ایسی ہی۔ انہوں نے بھی یہی کہا، پھر سیدنا عمر نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ولی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو تم دونوں اپنا ترکہ مانگنے آئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بھائی کے بیٹے تھے) اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنی بی بی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا، جو بی بی تھیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اور بیٹی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے:“ تم ان کو جھوٹا گنہگار دغا باز چور سمجھے۔ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک ہدایت پر تھے حق کے تابع تھے، پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور میں ولی ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا۔ تم نے مجھ کو بھی جھوٹا، گنہگار، دغاباز، اور چور سمجھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا ہوں، نیک ہوں، ہدایت پر ہوں، حق کا تابع ہوں میں اس مال کا بھی ولی رہا پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا حکم بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں موجود ہے مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کر دو میں نے کہا: اچھا اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو دے دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں ایسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم دونوں (اب) میرے پاس آئے ہو فیصلہ کرانے کو اور قسم اللہ کی میں سوائے اس کے اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں قیامت تک۔ البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا تو مجھ کو پھر لوٹا دو۔