الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر
مسند الحميدي
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر: 101
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
101 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، ثنا المسعودي، عن القاسم قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لعبد الله بن مسعود: «اقرا» فقال: اقرا وعليك انزل؟ قال: «إني احب ان اسمعه من غيري» قال: فقرات سورة النساء حتي إذا بلغ ﴿ فكيف إذا جئنا من كل امة بشهيد وجئنا بك علي هؤلاء شهيدا﴾ استعبر رسول الله صلي الله عليه وسلم فكف عبد الله101 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا الْمَسْعُودِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: «اقْرَأْ» فَقَالَ: أَقْرَأُ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ: «إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي» قَالَ: فَقَرَأْتُ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّي إِذَا بَلَغَ ﴿ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدِ وَجِئْنَا بِكَ عَلَي هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ اسْتَعْبَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَفَّ عَبْدُ اللَّهِ
101- قاسم بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تلاوت کرو! تو انہوں نے عرض کی: کیا میں تلاوت کروں؟ جبکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اسے اپنے علاوہ کسی دوسرے کی زبانی سننا چاہتا ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ جب یہ آیت تلاوت کی: تو اس وقت کیا عالم ہوگا کہ جب ہم امت میں سے ایک گوہ کو لے کر آئیں گے اور تمہیں ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ رک گئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، فيه عبد الرحمن بن عبدالله المسعودي، والقاسم بن عبدالرحمن لم يدرك النبى صلى الله عليه وسلم، فالإسناده منقطع۔ غيران الحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري فى ”صحيحه“ برقم: 4582، 5049، 5050،5055، 5056، ومسلم فى ”صحيحه“، برقم: 800، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5019، وابن حبان فى "صحيحه" برقم: 735، 7065» ‏‏‏‏

   صحيح البخاري5049عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري
   صحيح البخاري5050عبد الله بن مسعوداقرأ علي قلت يا رسول الله أأقرأ عليك وعليك أنزل قال نعم فقرأت
   صحيح البخاري4582عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري فقرأت عليه
   صحيح البخاري5055عبد الله بن مسعودأشتهي أن أسمعه من غيري قال فقرأت النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا
   صحيح البخاري5056عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري
   صحيح مسلم1867عبد الله بن مسعودأشتهي أن أسمعه من غيري فقرأت النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا
   صحيح مسلم1869عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري قال فقرأ عليه من أول
   جامع الترمذي3025عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري فقرأت
   جامع الترمذي3024عبد الله بن مسعودأمرني رسول الله أن أقرأ عليه وهو على المنبر فقرأت عليه من سورة النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا غمزني رسول الله يده فنظرت إليه وعيناه تدمعان
   سنن أبي داود3668عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري قال فقرأت عليه حتى إذا انتهيت إلى قوله فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد
   سنن ابن ماجه4194عبد الله بن مسعوداقرأ علي فقرأت عليه بسورة النساء حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا
   المعجم الصغير للطبراني1100عبد الله بن مسعودأحب أن أسمعه من غيري فافتتحت فقرأت
   مسندالحميدي101عبد الله بن مسعوداقرأ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:101  
101- قاسم بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تلاوت کرو! تو انہوں نے عرض کی: کیا میں تلاوت کروں؟ جبکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اسے اپنے علاوہ کسی دوسرے کی زبانی سننا چاہتا ہوں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے سورۂ نساء پڑھنی شروع کی، یہاں تک کہ جب یہ آیت تلاوت کی: تو اس وقت کیا عالم ہوگا کہ جب ہم امت میں سے ایک گوہ کو لے کر آئیں گے اور تمہیں ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہنے لگے، تو سیدنا عبداللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:101]
فائدہ:
پہلی حدیث میں مفضول سے قرآن کریم سننے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ غیر سے قرآن کریم سننے کے کچھ مقاصد ہوتے ہیں، مثلاً:
① قرآن کریم پر زیادہ غور و فکر کیا جا سکے۔
② قرآن کریم کو دوسرے پر پیش کر کے سنت ثابت کرنا۔
قرآن کریم پر غور وفکر کر نا امت نے چھوڑ دیا ہے، ورنہ امت آ ج جہاں تک پہنچ چکی ہے، یہاں تک کبھی نہ پہنچتی۔ قرآن کریم جس قدر بلند مقام والی کتاب ہے، اسی قدر امت مسلمہ نے اس سے دوری اختیار کر رکھی ہے۔ قرآن کریم سن کر رونا درست ہے، اور خشیت الہی کی دلیل ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں حافظ صلاح الدین یوسف تم رحمہ اللہ لکھتے ہیں ہر امت میں اس کا پیغمبر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گواہی دے گا کہ اے اللہ! ہم نے تو تیرا پیغام اپنی قوم کو پہنچا دیا تھا، اب انہوں نے نہیں مانا تو اس میں ہمارا کیا قصور؟ پھر ان سب پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے کہ اے اللہ! یہ انبیاء کرام علیہم السلام سچے ہیں۔ آپ کی یہ گواہی اس قرآن کی وجہ سے دیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ جس میں گزشتہ انبیاء اور ان کی قوموں کی سرگزشت بھی حسب ضرورت بیان کی گئی ہے۔ یہ ایک سخت مقام ہوگا، اس کا تصور ہی لرزہ براندام کر دینے والا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ گواہی وہی دے سکتا ہے جو سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھے، اس لیے وہ شہید (گواہ) کے معنی حاضر و ناظر کے کرتے ہیں۔ یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر باور کراتے ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر سمجھنا، یہ آپ کو اللہ کی صفت میں شریک کرنا ہے جو شرک ہے، کیونکہ حاضر و ناظر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ شہید کے لفظ سے ان کا استدلال اپنے اندر کوئی قوت نہیں رکھتا، اس لیے کہ شہادت یقینی علم کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے، اور قرآن میں بیان کردہ حقائق و واقعات سے زیادہ یقینی علم کس کا ہوسکتا ہے؟ اسی یقینی علم کی بنیاد پر خود امت محمدیہ کوبھی قرآن نے «شهـداء على الناس» (تمام کائنات کے لوگوں پر گواہ) کہا ہے، اگر گواہی کے لیے حاضر و ناظر ہونا ضروری ہے تو پھر امت محمدیہ کے ہر فرد کو حاضر و ناظر ماننا پڑے گا۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ مشرکانہ اور بے بنیاد ہیں۔ (تفسیر احسن البيان، ص: 240، 239)
دوسری حدیث پہلی حدیث کا تتمہ ہے، اس میں مزید کچھ اضافہ ہے، جس سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں بھی ہر جگہ حاضر وناظر تھے اور نہ ہی آپ کی وفات کے بعد ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ اس کی خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرما دی ہے، صرف اللہ تعالیٰ تمام بندوں پر نگران ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث\صفحہ نمبر: 102   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.