الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: قربانی کے مسائل
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
15. باب فِي الذَّبِيحَةِ بِالْمَرْوَةِ
15. باب: دھار دار پتھر سے ذبح کرنے کا بیان۔
Chapter: Slaughtering With Marwah.
حدیث نمبر: 2821
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو الاحوص، حدثنا سعيد بن مسروق، عن عباية بن رفاعة، عن ابيه، عن جده رافع بن خديج، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله إنا نلقى العدو غدا وليس معنا مدى، افنذبح بالمروة وشقة العصا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارن او اعجل ما انهر الدم وذكر اسم الله عليه، فكلوا ما لم يكن سنا او ظفرا، وساحدثكم عن ذلك اما السن فعظم، واما الظفر فمدى الحبشة، وتقدم به سرعان من الناس فتعجلوا فاصابوا من الغنائم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم في آخر الناس، فنصبوا قدورا فمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالقدور، فامر بها فاكفئت وقسم بينهم فعدل بعيرا بعشر شياه وند بعير من إبل القوم ولم يكن معهم خيل فرماه رجل بسهم فحبسه الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن لهذه البهائم اوابد كاوابد الوحش، فما فعل منها هذا فافعلوا به مثل هذا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَلْقَى الْعَدُوَّ غَدًا وَلَيْسَ مَعَنَا مُدًى، أَفَنَذْبَحُ بِالْمَرْوَةِ وَشِقَّةِ الْعَصَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرِنْ أَوْ أَعْجِلْ مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ، فَكُلُوا مَا لَمْ يَكُنْ سِنًّا أَوْ ظُفْرًا، وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ ذَلِكَ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ، وَأَمَّا الظُّفْرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ، وَتَقَدَّمَ بِهِ سَرْعَانٌ مِنَ النَّاسِ فَتَعَجَّلُوا فَأَصَابُوا مِنَ الْغَنَائِمِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ النَّاسِ، فَنَصَبُوا قُدُورًا فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقُدُورِ، فَأَمَرَ بِهَا فَأُكْفِئَتْ وَقَسَمَ بَيْنَهُمْ فَعَدَلَ بَعِيرًا بِعَشْرِ شِيَاهٍ وَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا بِهِ مِثْلَ هَذَا".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمنوں سے مقابلہ کرنے والے ہیں، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے (بانس کی کھپچی) سے ذبح کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی کر لو ۱؎ جو چیز کہ خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لیا جائے تو اسے کھاؤ ہاں وہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ ہو، عنقریب میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں، دانت سے تو اس لیے نہیں کہ دانت ایک ہڈی ہے، اور ناخن سے اس لیے نہیں کہ وہ جبشیوں کی چھریاں ہیں، اور کچھ جلد باز لوگ آگے بڑھ گئے، انہوں نے جلدی کی، اور کچھ مال غنیمت حاصل کر لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پیچھے چل رہے تھے تو ان لوگوں نے دیگیں چڑھا دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دیگوں کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں پلٹ دینے کا حکم دیا، چنانچہ وہ پلٹ دی گئیں، اور ان کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال غنیمت) تقسیم کیا تو ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا، ایک اونٹ ان اونٹوں میں سے بھاگ نکلا اس وقت لوگوں کے پاس گھوڑے نہ تھے (کہ گھوڑا دوڑا کر اسے پکڑ لیتے) چنانچہ ایک شخص نے اسے تیر مارا تو اللہ نے اسے روک دیا (یعنی وہ چوٹ کھا کر گر گیا اور آگے نہ بڑھ سکا) اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان چوپایوں میں بھی بدکنے والے جانور ہوتے ہیں جیسے وحشی جانور بدکتے ہیں تو جو کوئی ان جانوروں میں سے ایسا کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ایسا ہی کرو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشرکة 3 (2488)، 16 (2507)، الجھاد 191 (3075)، الذبائح 15 (5498)، 18 (5503)، 23 (5509)، 36 (5543)، 37 (5544)، صحیح مسلم/الأضاحي 4 (1968)، سنن الترمذی/الصید 19 (1492)، السیر 40 (1600)، سنن النسائی/الصید 17 (4302)، الضحایا 15 (4396)، 26 (4414، 4415)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 9 (3183)، (تحفة الأشراف: 3561)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/463، 464، 4/140، 142) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: مطلب یہ ہے کہ ایسی ہی کوئی صورت کر کے جلدی ذبح کر لو اور گوشت کھاؤ۔

Narrated Rafi bin Khadij: I came to the Messenger of Allah ﷺ and said: Messenger of Allah, we shall meet the enemy tomorrow and we have no knives with us. May we kill with a sharp-edged white stone (flint) and with splinter of a staff ? The Messenger of Allah ﷺ said: Hasten in slaughtering it. When Allah's name is mentioned you may eat what is killed by anything which causes the blood to flow except tooth and claw. I shall tell you about it. The tooth is a bone, and the claw is the knife of Abyssinians. Some people hastened and went forward, they made haste and got booty, while the Messenger of Allah ﷺ was in the rear and they setup cooking pots. The Messenger of Allah ﷺ passed by over the cooking pots. He ordered to turn them over. He then divided (the spoils of war) between them, and gave them a camel for ten goats in equation. One of the camels of the people ran away, and they had no horses with them at that time. A man shot an arrow at it, and Allah prevented it from escaping. The Prophet ﷺ said: Among animals (i. e. camels) there are some which bolt like wild animals ; so when any of them does so, do with it like this.
USC-MSA web (English) Reference: Book 15 , Number 2815


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5498) صحيح مسلم (1968)

   صحيح البخاري5506رافع بن خديجكل ما أنهر الدم إلا السن والظفر
   صحيح البخاري5543رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكلوه ما لم يكن سن ولا ظفر وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة أصابوا من الغنائم والنبي في آخر الناس فنصبوا قدورا فأمر بها فأكفئت قسم بينهم وعدل بعيرا بعشر شياه لهذه البهائم أوابد كأوابد الوحش فما فعل منها هذا ف
   صحيح البخاري5509رافع بن خديجأعجل ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وسأحدثك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فافعلوا
   صحيح البخاري5503رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس الظفر والسن أما الظفر فمدى الحبشة وأما السن فعظم لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فما غلبكم منها فاصنعوا به هكذا
   صحيح البخاري2507رافع بن خديجأنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوا ليس السن والظفر وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   صحيح البخاري5498رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل ليس السن والظفر وسأخبركم عنه أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   صحيح مسلم5092رافع بن خديجأعجل ما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل ليس السن والظفر وسأحدثك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة لهذه الإبل أوابد كأوابد الوحش فإذا غلبكم منها شيء فاصنعوا به هكذا
   جامع الترمذي1491رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوه ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   سنن أبي داود2821رافع بن خديجأرن ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكلوا ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة تعجلوا فأصابوا من الغنائم ورسول الله في آخر الناس فنصبوا قدورا فمر رسول الله بالقدور فأمر بها فأكفئت قسم بينهم فعدل بعيرا بعشر شياه لهذه ا
   سنن النسائى الصغرى4409رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكلوا ما لم يكن سنا أو ظفرا وسأحدثكم عن ذلك أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة
   سنن النسائى الصغرى4408رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله فكل إلا بسن أو ظفر
   سنن ابن ماجه3178رافع بن خديجما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل غير السن والظفر فإن السن عظم والظفر مدى الحبشة
   بلوغ المرام1155رافع بن خديج ما أنهر الدم وذكر اسم الله عليه فكل ليس السن والظفر أما السن فعظم وأما الظفر فمدى الحبشة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5506  
´جانور کو دانت، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کیا جائے`
«. . . عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ . . .»
. . . رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھاؤ یعنی (ایسے جانور کو جسے ایسی دھاردار چیز سے ذبح کیا گیا ہو) جو خون بہا دے۔ سوا دانت اور ناخن کے (یعنی ان سے ذبح کرنا درست نہیں ہے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5506]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5506 کا باب: «بَابُ لاَ يُذَكَّى بِالسِّنِّ وَالْعَظْمِ وَالظُّفُرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے دانت، ہڈی اور ناخن سے ذبح نہ کرنے کا ذکر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب حدیث میں دانت اور ناخن کا ذکر ہے مگر ہڈی کا ذکر نہیں ہے، لہٰذا باب سے حدیث کا مکمل طور پر مناسبت ہونا ثابت نہیں ہو رہا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«والبخاري فى هذا ماش على عادتة فى الإشارة إلى ما يتضمنه أصل الحديث فان فيه أما السن فعظم وان كانت هذه الجملة لم تذكرهنا لكنها ثابته مشهورة فى نفس الحديث .» [فتح الباري لابن حجر: 540/90]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں بھی اپنی عادت کے مطابق اصل حدیث کے متقضی کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں کہ دانت ہڈی ہے اگرچہ یہ جملہ یہاں پر مذکور نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارے کے ذریعے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو نص حدیث میں ثابت اور مشہور ہے۔

عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ذكر البخاري فى الباب حديث رافع وفيه ذكر السن والظفر، وليس فيه ذكر العظم، لكن مشي البخاري على عادته فى الاشارة الى ما يتضمنه اصل الحديث .» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 306/4]

علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ترجم بالعظم ولم يذكره فى الحديث، ولكن حكمه يعلم منه، لأن المذكور فى الحديث، أعني: السن والظفر أيضا من العظم .»
امام کرمانی رحمہ اللہ کی توجیہ کے مطابق بھی دوسری حدیث میں واضح لفظ ہیں کہ:
«اعنيى السن والظفر أيضاً من العظم .»

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کے علاوہ سابقہ روایت میں زیادتی ہے کہ «أما السن فعظم» (دانت ہڈی ہے) پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ [ارشاد الساري: 439/9]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3178  
´کس چیز سے ذبح کرنا جائز ہے؟`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ غزوات میں ہوتے ہیں اور ہمارے پاس چھری نہیں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خون بہا دے اور جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3178]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
لوہے کی چھری کے علاوہ نیزے، تلوار اور شیشے کے ٹکڑے وغیرہ سے ذبح کرنا بھی جائز ہے۔

(2)
اگر ہڈی کا ٹکڑا ٹوٹ کر تیز دھار کی طرح بن گیا ہواور اس سے ذبح کرنا ممکن ہو، تب بھی اس سے ذبح نہیں کرنا چاہیے۔

(3)
کسی چھوٹے جانور یا پرندے کو دانت سے کاٹ کر ذبح کرلیا جائے تو یہ ذبح نہیں ہوگا کیونکہ یہ ممنوع ہے۔

(4)
اسی طرح ناخن سے خون نکال کر جانور کو بے جان کرنا جائز نہیں۔

(5)
حبشیوں سے مراد غیر مسلم حبشی ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ان لوگوں کی غالب اکثریت غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔

(6)
غیر مسلموں کے رسم ورواج اور طور طریقوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی ﷺ نے ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت کا سبب بیان کیا ہے کہ یہ غیر مسلم حبشیوں کا طریقہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3178   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1155  
´شکار اور ذبائح کا بیان`
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جو چیز خون کو بہا دے اور اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو تو اس جانور کو کھا لو۔ ذبح کرنے کا آلہ دانت اور ناخن نہیں کیونکہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1155»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الذبائح، باب الستمية علي الذبيحة...، حديث:5498، ومسلم، الأضاحي، باب جواز الذبح بكل ما أنهر الدم إلا السن وسائر العظام، حديث:1968.»
تشریح:
1. یہ حدیث مطلقاً دانت اور ناخن سے جانور کو مارنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔
خواہ وہ دانت اور ناخن انسان کا ہو یا کسی جانور کا‘ الگ ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہوا ہو، اگرچہ تیز دھار ہی ہو۔
(سبل السلام) 2.حبشیوں سے مراد غیر مسلم حبشی ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان لوگوں کی اکثریت غیرمسلموں پر مشتمل تھی۔
غیر مسلموں کے رسم و رواج اور طور طریقوں سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کرنا ضروری ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ یہ غیر مسلم حبشیوں کا طریقہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1155   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1491  
´بانس وغیرہ سے ذبح کرنے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کل ہم دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس (جانور ذبح کرنے کے لیے) چھری نہیں ہے (تو کیا حکم ہے؟)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو خون بہا دے ۱؎ اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھا گیا ہو تو اسے کھاؤ، بجز دانت اور ناخن سے ذبح کیے گئے جانور کے، اور میں تم سے دانت اور ناخن کی ۲؎ تفسیر بیان کرتا ہوں: دانت، ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے ۳؎۔ محمد بن بشار کی سند سے یہ بیان کیا، سفیان ثوری کہتے ہیں عبایہ بن رفاعہ سے، اور عبایہ نے رافع ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1491]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں تلوار،
چھری،
تیز پتھر،
لکڑی،
شیشہ،
سرکنڈا،
بانس اور تانبے یا لوہے کی بنی ہوئی چیزیں شامل ہیں۔

2؎:
اس جملہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ اللہ کے رسول کا قول ہے یاراوی حدیث رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کا ہے۔

3؎:
ناخن کے ساتھ ذبح کرنے میں کفار کے ساتھ مشابہت ہے،
نیز یہ ذبح کی صفت میں نہیں آتا،
دانت وناخن خواہ انسان کا ہو یا کسی اور جانور کا الگ اور جدا ہو یا جسم کے ساتھ لگا ہو،
ان سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1491   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2821  
´دھار دار پتھر سے ذبح کرنے کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمنوں سے مقابلہ کرنے والے ہیں، ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں کیا ہم سفید (دھار دار) پتھر یا لاٹھی کے پھٹے ہوئے ٹکڑے (بانس کی کھپچی) سے ذبح کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلدی کر لو ۱؎ جو چیز کہ خون بہا دے اور اللہ کا نام اس پر لیا جائے تو اسے کھاؤ ہاں وہ دانت اور ناخن سے ذبح نہ ہو، عنقریب میں تم کو اس کی وجہ بتاتا ہوں، دانت سے تو اس لیے نہیں کہ دانت ایک ہڈی ہے، اور ناخن سے اس لیے نہیں کہ وہ جبشیوں کی چھریاں ہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2821]
فوائد ومسائل:

بوقت ضرورت تیز دھاری دار پتھر اورلکڑی کے تیز چھلکے یا پھٹے وغیرہ سے ذبح کرنا جائز ہے، مگر دانت ہڈی۔
اور ناخن سے ذبح کرنا جائز نہیں۔
کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت ہے۔


  ذبح کرتےوقت تکبیر پڑھنا۔
اور خون نکلنا لازمی ہے۔


جو جانور وحشی بن جائے۔
اور قابو میں نہ آرہا ہو تو اسے شکار کی مانند نشانہ مار کرذبح کرنا یا زخمی کرنا حتیٰ کہ قابو میں آجائے جائز ہے۔
جب وہ زخمی ہوکر گرجائے تو اس کے گلے پرچھری پھیرکر اسے ذبح کرلیا جائے۔


امام کو حق حاصل ہے کہ حسب مصلحت مالی تعزیر لگائے۔
(جرمانہ کرنا مباح ہے)

اسلامی معاشرے میں عدل کا نفاذ ازحد ضروری ہے۔
بالخصوص جہاد میں اور کفار کے مقابلے میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
کیونکہ یہ عمل کفار پرنصرت اور غلبے کا ایک اہم عنصر ہے۔


اس حدیث میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دینا ا س موقع پر قیمت کی بنیاد پرتھا۔
اس سے یہ استدلال کرنا کہ ایک اونٹ میں دس افراد حصہ دار ہوسکتے ہیں۔
محل نظر ہے۔
لیکن قربانی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس افراد کے شریک ہونے کا ذکر دوسری احادیث سے ثابت ہے۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے فوائد ومسائل حدیث نمبر 2810)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2821   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.