الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
Chapters: The Book of the Sunnah
35. بَابُ : فِيمَا أَنْكَرَتِ الْجَهْمِيَّةُ
35. باب: جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔
حدیث نمبر: 198
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا هشام بن عمار ، ومحمد بن الصباح ، قالا: حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم ، حدثني ابي ، عن عبيد الله بن مقسم ، عن عبد الله بن عمر ، انه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر يقول: ياخذ الجبار سماواته وارضه بيده، وقبض بيده فجعل يقبضها ويبسطها، ثم يقول:" انا الجبار اين الجبارون اين المتكبرون؟"، قال: ويتميل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن يمينه وعن يساره، حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من اسفل شيء منه، حتى إني اقول اساقط هو برسول الله صلى الله عليه وسلم.
(قدسي) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ: يَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرْضَهُ بِيَدِهِ، وَقَبَضَ بِيَدِهِ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا، ثُمَّ يَقُولُ:" أَنَا الْجَبَّارُ أَيْنَ الْجَبَّارُونَ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟"، قَالَ: وَيَتَمَيَّلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ، حَتَّى إِنِّي أَقُولُ أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: «جبار» (اللہ تعالیٰ) آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کی اور پھر اسے باربار بند کرنے اور کھولنے لگے) اور فرمائے گا: میں «جبار» ہوں، کہاں ہیں «جبار» اور کہاں ہیں تکبر (گھمنڈ) کرنے والے؟، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھکنے لگے یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا کہ نیچے سے ہلتا تھا، مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/صفات المنافقین 1 (2788)، (تحفة الأشراف: 7315)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید 19 (7412)، سنن ابی داود/السنة 21 (4732)، سنن النسائی/الکبری 18 (7689)، مسند احمد (2/72)، سنن الدارمی/الرقاق 80 (2841) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے صاف ثابت ہوا کہ صفات باری تعالیٰ میں لفظ «ید» (ہاتھ) سے حقیقی «ید» ہی مراد ہے، اس کی تاویل قدرت و طاقت اور اقتدار سے کرنا گمراہی ہے۔

It was narrated that 'Abdullah bin 'Umar said: "I heard the Messenger of Allah say, when he was on the pulpit: 'The Compeller will seize the heavens and the earth in His Hand' and he clenched his fist and began to open and close it. Then He will say: "I am the Compeller! Where are the tyrants? Where are the arrogant?" He said, the Messenger of Allah was turning to his right and to his left, until he saw the pulpit moving from below and I thought: 'What if it falls with the Messenger of Allah on it?'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح مسلم7052عبد الله بن عمريأخذ الله سماواته وأرضيه بيديه فيقول أنا الله ويقبض أصابعه ويبسطها أنا الملك حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من أسفل شيء منه حتى إني لأقول أساقط هو برسول الله
   صحيح مسلم7051عبد الله بن عمريطوي الله السماوات يوم القيامة ثم يأخذهن بيده اليمنى ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون ثم يطوي الأرضين بشماله ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون
   سنن أبي داود4732عبد الله بن عمريطوي الله السماوات يوم القيامة ثم يأخذهن بيده اليمنى ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون ثم يطوي الأرضين ثم يأخذهن قال ابن العلاء بيده الأخرى ثم يقول أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون
   سنن ابن ماجه4275عبد الله بن عمريأخذ الجبار سماواته وأرضيه بيده وقبض يده فجعل يقبضها ويبسطها ثم يقول أنا الجبار أنا الملك أين الجبارون أين المتكبرون قال ويتمايل رسول الله عن يمينه وعن شماله حتى نظرت إلى المنبر يتحرك من أسفل شيء منه حتى إني لأقول أساقط هو برسول الله صل
   سنن ابن ماجه198عبد الله بن عمرأنا الجبار أين الجبارون أين المتكبرون

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث198  
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: «جبار» (اللہ تعالیٰ) آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کی اور پھر اسے باربار بند کرنے اور کھولنے لگے) اور فرمائے گا: میں «جبار» ہوں، کہاں ہیں «جبار» اور کہاں ہیں تکبر (گھمنڈ) کرنے والے؟، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھکنے لگے یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا کہ نیچے سے ہلتا تھا، مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ وہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 198]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث سے بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا ثبوت ملتا ہے۔
ہاتھ سے مراد قدرت لینا باطل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی بند کر کے بات کو واضح فرما دیا ہے، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو ذرہ بھر تعجب نہ ہوا، ورنہ خلاف عقل بات سمجھ کر ضرور سوال کرتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام ؓ بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کو من و عن تسلیم کرتے تھے۔
كَمَا يَلِيقُ بِجَلَالِه. اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا پتہ چلتا ہے کہ اتنی عظیم اور وسیع مخلوق اللہ تعالیٰ کے لیے ایک معمولی ذرے کی طرح ہے۔

(3)
وعظ میں مناسب موقع پر جوش یا غضب کا اظہار جائز ہے۔

(4)
تکبر(بڑائی کا اظہار)
بہت بڑی خصلت ہے جو انسان جیسی ضعیف اور حقیر مخلوق کے لائق نہیں، البتہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان ہی اس لائق ہے کہ وہ تکبر یعنی بڑائی اور عظمت کے اظہار کی صفت سے متصف ہ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 198   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4732  
´جہمیہ کے رد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے روز اللہ آسمانوں کو لپیٹ دے گا، پھر انہیں اپنے دائیں ہاتھ میں لے لے گا، اور کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں تکبر اور گھمنڈ کرنے والے؟ پھر زمینوں کو لپیٹے گا، پھر انہیں اپنے دوسرے ہاتھ میں لے لے گا، پھر کہے گا: میں ہوں بادشاہ، کہاں ہیں ظلم و قہر کرنے والے؟ کہاں ہیں اترانے والے؟۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4732]
فوائد ومسائل:
1: اللہ عزوجل کی صفات میں وارد الفاظ واضح اور صریح ہیں، ہم انہیں اپنے رب تعالی کے حق میں بلا جھجک استعمال کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں، لیکن ان کی حقیقت کا ہمیں کوئی ادراک نہیں کیونکہ (لَیسَ کمثلهِ شيءٌ وھو السمیعُ البصیرُ) (الشوری)
2:اللہ کے دو ہاتھ ہیں اور دونوں ہی داہنے ہیں اور اللہ تعالی کلام کرنے سے موصوف ہے۔

3: حقیقی بادشاہ تو اب بھی اللہ عزوجل ہی ہے، مگر دنیا میں نام کے بادشاہ موجود ہیں اور ان میں جبار اور متکبر بھی ہیں، لیکن محشر میں کسی کا کوئی وجود نہیں ہو گا اور بادشاہت صرف ایک اکیلے اللہ کی ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4732   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.