الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: (چاند، سورج) گرہن کے احکام و مسائل
The Book of Eclipses
17. بَابُ : قَدْرِ الْقِرَاءَةِ فِي صَلاَةِ الْكُسُوفِ
17. باب: سورج گرہن کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان۔
Chapter: Length of recitation for the eclipse prayer
حدیث نمبر: 1494
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، قال: حدثنا ابن القاسم، عن مالك، قال: حدثني زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال:" خسفت الشمس فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقام قياما طويلا قرا نحوا من سورة البقرة , قال: ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد , ثم انصرف وقد تجلت الشمس , فقال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك فاذكروا الله عز وجل". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قالوا: يا رسول الله رايناك تناولت شيئا في مقامك هذا ثم رايناك تكعكعت , قال:" إني رايت الجنة او اريت الجنة فتناولت منها عنقودا ولو اخذته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا، ورايت النار فلم ارك اليوم منظرا قط ورايت اكثر اهلها النساء" , قالوا: لم يا رسول الله؟ قال:" بكفرهن" , قيل: يكفرن بالله , قال:" يكفرن العشير ويكفرن الإحسان، لو احسنت إلى إحداهن الدهر ثم رات منك شيئا , قالت: ما رايت منك خيرا قط".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قال: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قال:" خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا قَرَأَ نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ , قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ , ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ , فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ , قَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أُرِيتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَكَ الْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ" , قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بِكُفْرِهِنَّ" , قِيلَ: يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ , قَالَ:" يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا , قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورۃ البقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چنانچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کر لے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چنانچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے، پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی: میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 21 (29) مختصراً، ال صلاة 51 (431) مختصراً، الأذان 91 (748) مختصراً، الکسوف 9 (1052)، بدء الخلق 4 (3202) مختصراً، النکاح 88 (5197)، صحیح مسلم/الکسوف 3 (907)، سنن ابی داود/الصلاة 263 (1189)، (تحفة الأشراف: 5977)، موطا امام مالک/الکسوف 1 (2)، مسند احمد 1/298، 358، سنن الدارمی/الصلاة 187 (1569) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري29عبد الله بن عباسأريت النار فإذا أكثر أهلها النساء يكفرن العشير
   صحيح البخاري5880عبد الله بن عباسأتى النساء فجعلن يلقين الفتخ والخواتيم في ثوب بلال
   صحيح البخاري5881عبد الله بن عباسخرج النبي يوم عيد فصلى ركعتين لم يصل قبل ولا بعد ثم أتى النساء فأمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تصدق بخرصها وسخابها
   صحيح البخاري98عبد الله بن عباسوعظهن وأمرهن بالصدقة فجعلت المرأة تلقي القرط والخاتم وبلال يأخذ في طرف ثوبه
   صحيح البخاري863عبد الله بن عباسأتى النساء فوعظهن وذكرهن وأمرهن أن يتصدقن فجعلت المرأة تهوي بيدها إلى حلقها تلقي في ثوب بلال ثم أتى هو وبلال البيت
   صحيح مسلم2044عبد الله بن عباسأنتن على ذلك فقالت امرأة واحدة لم يجبه غيرها منهن نعم يا نبي الله لا يدرى حينئذ من هي قال فتصدقن فبسط بلال ثوبه ثم قال هلم فدى لكن أبي وأمي فجعلن يلقين الفتخ والخواتم في ثوب بلال
   سنن النسائى الصغرى1494عبد الله بن عباسلم أر كاليوم منظرا قط رأيت أكثر أهلها النساء قالوا لم يا رسول الله
   صحيح البخاري3202عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد
   صحيح البخاري5197عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد ولا لحياته
   صحيح مسلم2109عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينكسفان لموت أحد ولا لحياته
   سنن النسائى الصغرى1494عبد الله بن عباسالشمس والقمر آيتان من آيات الله لا يخسفان لموت أحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 29  
´دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے`
«. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُرِيتُ النَّارَ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِهَا النِّسَاءُ يَكْفُرْنَ، قِيلَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ: يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔ پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 29]

تشریح:
حضرت امام المحدثین قدس سرہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ کفر دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو کفر حقیقی ہے جس کی وجہ سے آدمی اسلام سے نکل جاتا ہے۔ دوسرے بعض گناہوں کے ارتکاب پر بھی کفر کا لفظ بولا گیا ہے۔ مگر یہ کفر حقیقی سے کم ہے۔ ابوسعید والی حدیث کتاب الحیض میں ہے۔ اس میں یہ ہے کہ آپ نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں نے دوزخ میں زیادہ تر تم کو دیکھا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اور خاوند کا کفر یعنی ناشکری کرتی ہو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث بڑی لمبی ہے۔ جو بخاری کی کتاب الکسوف میں ہے، یہاں استدلال کے لیے حضرت امام نے اس کا ایک ٹکڑا ذکر کر دیا ہے۔

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وفي هذاالحديث وعظ الرئيس المروس وتحريضه على الطاعة ومراجعة المتعلم العالم والتابع المتبوع فيماقاله اذا لم يظهر له معناه الخ»
یعنی اس حدیث کے تحت ضروری ہوا کہ سردار اپنے ماتحوں کو وعظ ونصیحت کرے اور نیکی کے لیے ان کو رغبت دلائے اور اس سے یہ بھی نکلا کہ شاگرد اگر استاد کی بات پورے طور پر نہ سمجھ پائے تو استاد سے دوبارہ دریافت کر لے اور اس حدیث سے ناشکری پر بھی کفر کا اطلاق ثابت ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ معاصی سے ایمان گھٹ جاتا ہے۔ اس لیے کہ معاصی کو بھی کفر قرار دیا گیا ہے مگر وہ کفر نہیں ہے جس کے ارتکاب سے دوزخ میں ہمیشہ رہنا لازم آتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عورتوں کا ایمان جیسے خاوند کی ناشکری سے گھٹ جاتا ہے، ویسے ہی ان کی شکر گزاری سے بڑھ بھی جاتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔

حضرت امام نے «كفر دون كفر» کا ٹکڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اس قول سے لیا ہے جو آپ نے آیت کریمہ «وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ» [المائدۃ: 44] کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ اور جو شخص اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے سو ایسے لوگ کافر ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ میں وہ کفر مراد نہیں ہے جس کی سزا «خلود فى النار» ہے۔ اس لیے علماء محققین نے کفر کو چار قسمو ں پر تقسیم کیا ہے۔
➊ کفر بانکل انکار کے معنی میں ہے، یعنی اللہ پاک کا بالکل انکار کرنا اس کا وجود ہی نہ تسلیم کرنا، قرآن مجید میں زیادہ تر ایسے ہی کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔
➋ کفر جحود ہے یعنی اللہ کو دل سے حق جاننا مگر اپنے دنیاوی مفاد کے لیے زبان سے اقرار بھی نہ کرنا، مشرکین مکہ میں سے بعض کا ایسا ہی کفر تھا، آج بھی ایسے بہت لوگ ملتے ہیں۔
➌ کفر عناد یعنی دل میں تصدیق کرنا زبان سے اقرار بھی کرنا مگر احکام الٰہی کو تسلیم نہ کرنا اور توحید و رسالت کے اسلامی عقیدہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہونا، ماضی و حال میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں۔
➍ کفر نفاق یعنی زبان سے اقرار کرنا مگر دل میں یقین نہ کرنا جیسا کہ آیت شریف «وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَـكِنْ لَا يَعْلَمُونَ» [البقرۃ: 13] میں مذکو رہے۔ (یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ) جب ان سے کہا جائے کہ تم ایسا پختہ ایمان لاؤ جیسا کہ دوسرے لوگ (انصار و مہاجرین) لائے ہوئے ہیں تو جواب میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی بے وقوفوں جیسا ایمان لے آئیں۔ یاد رکھو یہی (منافق) بے قوف ہیں۔ لیکن ان کو علم نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 29   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 98  
´عورتوں کا عیدگاہ میں جانا`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَمَعَهُ بِلَالٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعِ النِّسَاءَ، فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو (خطبہ اچھی طرح) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 98]

تشریح:
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عیدگاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جو لوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کر رہے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب و شرم و حیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگر سنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 98   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1494  
´سورج گرہن کی نماز میں قرأت کی مقدار کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ سورج گرہن لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے ساتھ لوگوں نے نماز پڑھی، آپ نے قیام کیا تو لمبا قیام کیا، اور سورۃ البقرہ جیسی سورت پڑھی، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، پھر اپنا سر اٹھایا تو لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، پھر ایک لمبا قیام کیا، اور یہ پہلے قیام سے کم تھا، پھر آپ نے ایک لمبا رکوع کیا، اور یہ پہلے رکوع سے کم تھا، پھر آپ نے سجدہ کیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں کسی کے مرنے سے نہیں گہناتے ہیں، اور نہ کسی کے پیدا ہونے سے، چنانچہ جب تم انہیں گہنایا ہوا دیکھو تو اللہ تعالیٰ کو یاد کرو، لوگوں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ اپنی جگہ میں کسی چیز کو آگے بڑھ کر لے رہے تھے، اور پھر ہم نے دیکھا آپ پیچھے ہٹ رہے تھے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے جنت کو دیکھا یا مجھے جنت دکھائی گئی تو میں اس میں سے پھل کا ایک گچھا لینے کے لیے آگے بڑھا، اور اگر میں اسے لے لیتا تو تم اس سے رہتی دنیا تک کھاتے، اور میں نے جہنم کو دیکھا چنانچہ میں نے آج سے پہلے اس بھیانک منظر کی طرح کبھی نہیں دیکھا تھا، اور میں نے اہل جہنم میں زیادہ تر عورتوں کو دیکھا، انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ایسا کیوں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا ان کے کفر کی وجہ سے ہے، پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: (نہیں بلکہ) وہ شوہر کے ساتھ کفر کرتی ہیں (یعنی اس کی ناشکری کرتی ہیں) اور (اس کے) احسان کا انکار کرتی ہیں، اگر تم ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کرو، پھر اگر وہ تم سے کوئی چیز دیکھے تو وہ کہے گی: میں نے تم سے کبھی بھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الكسوف/حدیث: 1494]
1494۔ اردو حاشیہ:
➊ نمازکسوف میں لمبا قیام وغیرہ سورج کو روشن کرنے کے لیے نہیں، اس نے اپنے معمول کے مطابق روشن ہوہی جانا ہوتا ہے، کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے یا گالیاں دے کیونکہ وہ تکوینی چیز ہے۔ یہ تو صرف وقتی فریضہ ادا کرنے کے لیے ہے، جیسے صبح کی نماز لمبی پڑھی جاتی ہے۔ عموماً کسوف کا وقت طویل ہوتا ہے۔ خصوصاً آپ کے دور کا کسوف مکمل سورج گرہن تھا اور مکمل سورج گرہن ختم ہونے میں کافی وقت لگتا ہے، لہٰذا اس نماز میں طوالت مستحب اور وقتی تقاضا ہے۔
➋ کفر کے معنی انکار کرنا بھی ہیں، ناشکری کرنا بھی۔ یہاں دوسرے معنی مراد ہیں۔ اور جہنم میں یہ دخول عارضی ہے کیونکہ گناہ گار مومنوں کا اصل اور مستقل ٹھکانا جنت ہے، ہاں حقیقی کافر دائمی جہنمی ہیں اور جہنم ان کا مستقل ٹھکانا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1494   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.