الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
2. بَابُ : مَنْ لَمْ يَجِدِ الأُضْحِيَةَ
2. باب: جو قربانی نہ پائے تو کیا کرے؟
Chapter: The One Who Cannot Find A Sacrifice
حدیث نمبر: 4370
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا يونس بن عبد الاعلى، قال: حدثنا ابن وهب، قال: اخبرني سعيد بن ابي ايوب، وذكر آخرين، عن عياش بن عباس القتباني، عن عيسى بن هلال الصدفي، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل:" امرت بيوم الاضحى عيدا جعله الله عز وجل لهذه الامة"، فقال الرجل: ارايت إن لم اجد إلا منيحة انثى , افاضحي بها؟، قال:" لا، ولكن تاخذ من شعرك، وتقلم اظفارك، وتقص شاربك، وتحلق عانتك، فذلك تمام اضحيتك عند الله عز وجل".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ، وَذَكَرَ آخَرِينَ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ الْقِتْبَانِيِّ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ:" أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى , أَفَأُضَحِّي بِهَا؟، قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ، وَتُقَلِّمُ أَظْفَارَكَ، وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَذَلِكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: مجھے قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ) کو عید منانے کا حکم ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اس امت کے لیے عید کا دن بنایا ہے، وہ شخص بولا: اگر میرے پاس سوائے ایک دو دھاری بکری کے کچھ نہ ہو تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کی قربانی کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم (قربانی کے دن) ۱؎ اپنے بال، ناخن کاٹو، اپنی مونچھ تراشو اور ناف کے نیچے کے بال کاٹو، تو یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الأضاحی 1 (2789)، (تحفة الأشراف: 8909)، مسند احمد (2/169) (حسن) (شیخ البانی نے ’’عیسیٰ بن ہلال صوفی‘‘ کو مجہول قرار دے کر اس حدیث کی تضعیف کی ہے۔ جب کہ عیسیٰ بتحقیق ابن حجر ’’صدوق‘‘ ہیں دیکھئے ”أحکام العیدین للفریابی“ تحقیق مساعد الراشد حدیث رقم 2)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد اپنے بال اور ناخن کاٹنے سے رک جاؤ، اور عید کی نماز پڑھ کر ان کو کاٹو تو تمہیں بھی مکمل قربانی کا ثواب ملے گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   سنن النسائى الصغرى4370عبد الله بن عمروأمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله لهذه الأمة فقال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا منيحة أنثى أفأضحي بها قال لا ولكن تأخذ من شعرك وتقلم أظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك فذلك تمام أضحيتك عند الله
   سنن أبي داود2789عبد الله بن عمروأمرت بيوم الأضحى عيدا جعله الله لهذه الأمة قال الرجل أرأيت إن لم أجد إلا أضحية أنثى أفأضحي بها قال لا ولكن تأخذ من شعرك وأظفارك وتقص شاربك وتحلق عانتك فتلك تمام أضحيتك عند الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4370  
´جو قربانی نہ پائے تو کیا کرے؟`
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: مجھے قربانی کے دن (دسویں ذی الحجہ) کو عید منانے کا حکم ہوا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس دن کو اس امت کے لیے عید کا دن بنایا ہے، وہ شخص بولا: اگر میرے پاس سوائے ایک دو دھاری بکری کے کچھ نہ ہو تو آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں اس کی قربانی کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم (قربانی کے دن) ۱؎ اپنے بال، ناخن کاٹو، اپنی مونچھ تراشو اور ناف کے نیچے کے بال ک [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4370]
اردو حاشہ:
(1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ جو شخص قربانی کرنے کی طاقت نہیں رکھتا، اس کے لیے شریعت کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنی جسمانی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرے۔ عید والے دن اپنے بال اور ناخن تراشے۔ اپنی مونچھیں کاٹے اور زیر ناف بالوں کی صفائی کرے۔ یہ اہتمام اس کے لیے قربانی کرنے کے قائم مقام ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
(2)عید کے دن بننا سنورنا اور صفائی ستھرائی کا اہتمام کرنا مستحب ہے چونکہ یہ لوگوں کے اجتماع کا دن ہے، اس لیے اس دن کی خاطر خاص طور پر نہانا دھونا، اچھا لباس پہننا، خوشبو لگانا اور شریعت کے بتلائے ہوئے دیگر امور بجا لانا مطلوب اور شریعت مطہرہ کی نظر میں پسندیدہ عمل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی نہ کر سکنے کے باوجود مذکورہ امور کو کما حقہ بجا لانا، اجر و ثواب میں مکمل قربانی کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ قربانی کرنے کی خصوصی اہمیت بھی اجاگر کرتی ہے کیونکہ قربانی کرنے کا اس قدر بنانا مستحب قرار دیا گیا ہے تاکہ قربانی کرنے والے لوگوں کے ساتھ بدنی مشابہت ہو جائے۔
(4) معلوم ہوا قربانی کی طاقت نہ رکھنے والے شخص کو قربانی معاف ہے۔ ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4370   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2789  
´قربانی کے وجوب کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اضحی کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر و متعین فرمایا ہے، ایک شخص کہنے لگا: بتائیے اگر میں بجز مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسی کی قربانی کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھ کتر لو، اور زیر ناف کے بال لے لو، اللہ عزوجل کے نزدیک (ثواب میں) بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2789]
فوائد ومسائل:
فی الواقع جس کسی کے پاس وسعت نہ ہو کہ وہ قربانی کرسکے۔
تو نہ صرف یہ کہ اسے قربانی معاف ہے۔
بلکہ اگر وہ عید الاضحیٰ کے دن نماز عید کے بعد مذکورہ کام کرلے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس پر ہی قربانی کا اجر عطا فرما دے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2789   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.