الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of Salah
3. بَابُ : كَيْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ
3. باب: نماز کیسے فرض ہوئی؟
Chapter: How The Salah Was Made Obligatory
حدیث نمبر: 457
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي، قال: حدثنا يحيى، وعبد الرحمن، قالا: حدثنا ابو عوانة، عن بكير بن الاخنس، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال:" فرضت الصلاة على لسان النبي صلى الله عليه وسلم في الحضر اربعا وفي السفر ركعتين وفي الخوف ركعة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" فُرِضَتِ الصَّلَاةُ عَلَى لِسَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَضَرِ أَرْبَعًا وَفِي السَّفَرِ رَكْعَتَيْنِ وَفِي الْخَوْفِ رَكْعَةً".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت، اور خوف میں ایک رکعت فرض کی گئی ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین حدیث 6 (687)، سنن ابی داود/الصلاة 287 (1247)، سنن ابن ماجہ/إقامة 73 (1068)، (تحفة الأشراف: 6380)، بدون الشطر الأخیر، حم1/237، 243، 254، 355، ویأتی عند المؤلف (برقم: 1442، 1443، 1533) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی خوف کی حالت میں ایک ہی رکعت پر اکتفا کرے تو جائز ہے، کئی ایک صحابہ کرام اور ائمہ عظام اس کے قائل بھی ہیں، حذیفہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی صراحت بھی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   صحيح البخاري4299عبد الله بن عباسأقمنا مع النبي في سفر تسع عشرة نقصر الصلاة
   صحيح البخاري4298عبد الله بن عباسأقام النبي بمكة تسعة عشر يوما يصلي ركعتين
   صحيح البخاري1080عبد الله بن عباسأقام النبي تسعة عشر يقصر فنحن إذا سافرنا تسعة عشر قصرنا وإن زدنا أتممنا
   صحيح مسلم1576عبد الله بن عباسفرض الصلاة على لسان نبيكم على المسافر ركعتين على المقيم أربعا في الخوف ركعة
   صحيح مسلم1575عبد الله بن عباسفرض الله الصلاة على لسان نبيكم في الحضر أربعا في السفر ركعتين في الخوف ركعة
   جامع الترمذي549عبد الله بن عباسسافر رسول الله سفرا فصلى تسعة عشر يوما ركعتين ركعتين
   جامع الترمذي547عبد الله بن عباسخرج من المدينة إلى مكة لا يخاف إلا الله رب العالمين فصلى ركعتين
   سنن أبي داود1247عبد الله بن عباسفرض الله الصلاة على لسان نبيكم في الحضر أربعا في السفر ركعتين في الخوف ركعة
   سنن أبي داود1230عبد الله بن عباسأقام سبع عشرة بمكة يقصر الصلاة
   سنن أبي داود1231عبد الله بن عباسأقام رسول الله بمكة عام الفتح خمس عشرة يقصر الصلاة
   سنن أبي داود1232عبد الله بن عباسأقام بمكة سبع عشرة يصلي ركعتين
   سنن النسائى الصغرى1437عبد الله بن عباسنسير مع رسول الله بين مكة والمدينة لا نخاف إلا الله نصلي ركعتين
   سنن النسائى الصغرى1442عبد الله بن عباسفرضت صلاة الحضر على لسان نبيكم أربعا صلاة السفر ركعتين صلاة الخوف ركعة
   سنن النسائى الصغرى1436عبد الله بن عباسخرج من مكة إلى المدينة لا يخاف إلا رب العالمين يصلي ركعتين
   سنن النسائى الصغرى1443عبد الله بن عباسالله فرض الصلاة على لسان نبيكم في الحضر أربعا في السفر ركعتين في الخوف ركعة
   سنن النسائى الصغرى1454عبد الله بن عباسأقام بمكة خمسة عشر يصلي ركعتين ركعتين
   سنن النسائى الصغرى457عبد الله بن عباسفرضت الصلاة على لسان النبي في الحضر أربعا في السفر ركعتين في الخوف ركعة
   سنن النسائى الصغرى1533عبد الله بن عباسفرض الله الصلاة على لسان نبيكم في الحضر أربعا في السفر ركعتين في الخوف ركعة
   سنن ابن ماجه1075عبد الله بن عباسأقام رسول الله تسعة عشر يوما يصلي ركعتين ركعتين فنحن إذا أقمنا تسعة عشر يوما نصلي ركعتين ركعتين فإذا أقمنا أكثر من ذلك صلينا أربعا
   سنن ابن ماجه1068عبد الله بن عباسافترض الله الصلاة على لسان نبيكم في الحضر أربعا وفي السفر ركعتين
   سنن ابن ماجه1076عبد الله بن عباسأقام بمكة عام الفتح خمس عشرة ليلة يقصر الصلاة
   سنن ابن ماجه1072عبد الله بن عباسفرض رسول الله صلاة الحضر وصلاة السفر فكنا نصلي في الحضر قبلها وبعدها نصلي في السفر قبلها وبعدها
   بلوغ المرام346عبد الله بن عباساقام النبي صلى الله عليه وآله وسلم تسعة عشر يقصر. وفي لفظ:" بمكة تسعة عشر يوما
   المعجم الصغير للطبراني279عبد الله بن عباس افترض الله الصلوات الخمس على لسان نبيكم صلى الله عليه وآله وسلم فى الحضر أربعا ، وفي السفر ركعتين ، وفي الخوف ركعة
   المعجم الصغير للطبراني186عبد الله بن عباس يسافر من مكة إلى المدينة لا يخاف إلا الله يصلي ركعتين ركعتين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 457  
´نماز کیسے فرض ہوئی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نماز بزبان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضر میں چار رکعت، سفر میں دو رکعت، اور خوف میں ایک رکعت فرض کی گئی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 457]
457 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ہر نماز چار رکعت نہیں، مغرب چونکہ وترالنھار ہے، لہٰذا وہ تین رکعت ہے اور تین ہی رہے گی۔ اور فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے حتیٰ کہ دورکعت چار رکعت سے بھی بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا یہ نماز بھی حضروسفر میں دورکعت ہی رکھی گئی۔ باقی تین نمازیں گھر میں چار رکعت اور سفر میں دورکعت ہیں، البتہ محقق قول کے مطابق اگر کوئی مسافر چار رکعت پڑھنا چاہے تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما سے صحیح ثابت ہے۔ [صحیح البخاري، التقصیر، حدیث: 1083]
ہاں! دو رکعت پڑھنا بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول یہی رہا ہے۔ اگر کوئی چار پڑھے گا تو اس کا بھی جواز ہے۔ واللہ اعلم۔
خوف کی نماز ایک رکعت۔ نماز خوف کی مخصوص مختلف صورتوں میں سے یہ بھی ایک صورت ہے، یعنی شدید خوف میں ایک رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن جمہور علماء اس حدیث کی تاویل کرتے ہیں کہ ایک رکعت سے مراد امام کے ساتھ ایک رکعت ہے اور دوسری رکعت اپنے طور پر پڑھے۔ صرف ایک رکعت نماز درست نہیں۔ لیکن جمہور علماء کا یہ موقف دلائل کی روشنی میں محل نظر معلوم ہوتا ہے، کیونکہ ایک رکعت نماز بھی متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے، لہٰذا موقع محل کی مناسبت سے ایک رکعت بھی بلاتامل پڑھی جا سکتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے حدیث نمبر1442 اور 1530 کے فوائدومسائل دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 457   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1072  
´سفر میں نوافل پڑھنے کا بیان۔`
اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے طاؤس سے سفر میں نفل پڑھنے کے بارے سوال کیا، اور اس وقت ان کے پاس حسن بن مسلم بھی بیٹھے ہوئے تھے، تو حسن نے کہا: طاؤس نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر اور سفر دونوں کی نماز فرض کی، تو ہم حضر میں فرض سے پہلے اور اس کے بعد سنتیں پڑھتے، اور سفر میں بھی پہلے اور بعد نماز پڑھتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1072]
اردو حاشہ:
فائده:
اس سے معلوم ہوا کہ سفر میں بھی سنتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔
اگر کوئی پڑھنا چاہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1072   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 346  
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس روز قیام فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصر ہی فرماتے رہے اور ایک روایت میں ہے کہ مکہ میں انیس روز قیام فرمایا۔ (بخاری) اور ابوداؤد کی روایت میں سترہ روز ہے اور ایک دوسری روایت میں پندرہ روز ہے۔ اور ابوداؤد میں ہی عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدت قیام اٹھارہ دن تھی اور انہیں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک میں بیس دن قیام فرمایا اور نماز قصر ادا کرتے رہے، اس روایت کے راوی ثقہ ہیں، مگر اس کے موصول ہونے میں اختلاف ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 346»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1080، وأبوداود، صلاة السفر، حديث:1230-1232، وحديث عمران أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1229 وهو حديث حسن، وحديث جابر أخرجه أبوداود، صلاة السفر، حديث:1235 وهو حديث صحيح.»
تشریح:
1.مکہ میں مدت قیام کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ۱۹ روز یا ۱۸ روز یا ۱۷ روز یا ۱۵ روز قیام پذیر رہے۔
ان میں سے ہر مدت قیام کے حق میں کچھ نہ کچھ لوگوں کی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اس سے زیادہ مدت ٹھہرنے کی نیت کرے تو نماز قصر نہیں کرے گا۔
2.یہ ذہن نشین رہے کہ مدت قیام میں اختلاف فتح مکہ کے موقع کا ہے‘ حجۃ الوداع کے موقع کا نہیں‘ کیونکہ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ وہ تو صرف دس روز تھا۔
3. ان روایات میں جمع و تطبیق کی صحیح صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ ۱۹ روز والی روایت دوسری روایات کے مقابلے میں صحیح ترین اور قوی ترین ہے۔
اس کی تائید اہل مغازی کا وہ بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بروز منگل صبح کو داخل ہوئے‘ وہ رمضان کی سترہ تاریخ تھی اور حنین کی جانب بروز ہفتہ چھ شوال کو روانہ ہوئے۔
پس ان ایام کی تعداد‘ دخول اور خروج کے ایام سمیت ۱۹ روز بنتی ہے اور ۱۸ روز والی روایت تو اپنے ضعف کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس کے باوجود یہ احتمال ہے کہ راوی کے ذہن میں راتوں کی تعداد ہو‘ دنوں کی تعداد نہ ہو کیونکہ آپ مکہ میں داخل بھی دن کو ہوئے تھے اور یہاں سے نکلے بھی دن کو تھے۔
یوں ۱۹ دن کی تعداد پوری ہوگئی اور راتوں کی تعداد ۱۸ ہوئی۔
اس طرح ان دونوں روایتوں میں کوئی فرق اور تعارض باقی نہ رہا۔
اور اس تاویل کی تائید اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ۱۸ کی تعداد والی روایت میں لفظ لیل (شب) موجود ہے۔
اور سترہ یوم والی روایت کی صورت میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ غالباً راوی نے مکہ میں دخول اور خروج کے دونوں دن شمار نہیں کیے‘ لہٰذا انیس میں سے دو نکال دیں تو باقی سترہ ہی رہ جاتے ہیں۔
اور رہی پندرہ یوم والی روایت تو وہ روایت شاذ ہے اور ثقہ راویوں کی روایت کردہ روایات کے مخالف ہے‘ لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
اور اس کا بھی احتمال ہے کہ راوی نے سترہ یوم والی روایت کو اصل قرار دے کر مکہ میں آپ کے داخل اور خارج ہونے کا دن نکال دیا ہو‘ اس طرح سترہ میں سے دو نکال دیے جائیں تو باقی پندرہ دن رہ جاتے ہیں۔
4. ان روایات سے مدت قصر کے تعین پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان روایات میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ اگر آپ اس مدت سے زیادہ قیام کرتے تو قصر چھوڑدیتے اور پوری نماز پڑھتے بلکہ آپ سے تو تبوک کے مقام پر بیس دن کے قیام میں بھی قصر ثابت ہے۔
آپ نے قصر کو نہیں چھوڑا تھا۔
اور اس لیے کہ یہ سفر تو غزوہ اور لڑائی کا سفر تھا۔
محارب کو ہر لمحہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں کہ اسے آگے بھی بڑھنا پڑے اور پیچھے بھی ہٹنا اور واپس ہونا پڑے۔
یہ صورت حال بذات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آئی کہ فتح مکہ کے فوراً بعد آپ کو مجاہدین کا ایک چھوٹا سا دستہ عزٰی کے انہدام کے لیے روانہ کرنا پڑا اور اس دستے کی قیادت اور امارت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دی‘ پھر معاً بعد دوسرا دستہ سواع بت کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا‘ اس لشکر کی قیادت و امارت حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمائی‘ پھر تیسرا دستہ مناۃ بت کے انہدام کے لیے روانہ فرمایا‘ اس کی امارت پر حضرت سعد بن زید رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا اور پھر چوتھا دستہ جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا‘ اس کی قیادت بھی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تفویض فرمائی۔
اس کے بعد تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ قبائل ثقیف و ہوازن کے اجتماع کی اطلاع ملی تو آپ نے خود آگے بڑھ کر ان کا سامنا کیا حتی کہ وادی ٔحنین میں ان سے مڈبھیڑ ہوگئی۔
پھر یہاں پر وہ معرکہ آرائی ہوئی اور گھمسان کا رن پڑا جو مشہور و معروف ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ مجاہد و سپاہی اگر قیام کا ارادہ کرے‘ خواہ فتح یابی و کامرانی کے بعد ہی ہو اس کی نیت معتبر تسلیم نہیں کی جائے گی بلکہ اس کی کیفیت تو اس مسافر کی سی ہوگی جو تذبذب و تردد میں مبتلا ہو کہ آج واپسی ہوتی ہے یا کل‘ پس ایسا متردد ا ور متذبذب مسافر ہمیشہ قصر نماز ہی ادا کرتا رہے گا‘ خواہ یہ کیفیت سالوں اور مہینوں پر محیط ہو‘ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح مکہ اور غزوۂ تبوک کے مواقع پر قصر نماز ادا فرمانا‘ قصر نماز کی مدت متعین پر دلالت ہی نہیں کرتا۔
5. اس بارے میں راجح مسلک وہی ہے جسے ائمۂ ثلاثہ: امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے کہ جو آدمی داخل اور خارج ہونے کے دونوں ایام کو چھوڑ کر صرف چار روز قیام کا ارادہ رکھتا ہو اسے پوری نماز پڑھنی چاہیے۔
یہ اس بنیاد پر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ اور گرد و نواح میں دس دن گزارے تھے تو آپ ان ایام میں قصر نماز ادا فرماتے رہے۔
آپ مکہ میں ذی الحجہ کی چار تاریخ کو صبح داخل ہوئے اور مکہ سے آٹھ ذی الحجہ کے دن کے آغاز میں نکلے تھے۔
اس دوران میں آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے حتی کہ مناسک کی تکمیل فرما لی۔
اس اعتبار سے آپ کے قیام کی مدت صرف تین دن بنتی ہے‘ داخل ہونے اور وہاں سے نکلنے کے دو دن اس سے خارج ہیں۔
آپ کے عمل سے یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ نے حالت امن میں اس مدت سے زیادہ قیام فرمایا ہو اور آپ نے قصر نماز ادا کی ہو‘ یا اس سے کم مدت کا قیام فرمایا ہو اور قصر نماز ادا نہ فرمائی ہو‘ لہٰذا نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس قدر ثابت ہوگیا اس پر اکتفا کیا جائے گا‘ اس پر اضافہ درست نہیں ہے۔
6. مناسک حج کی تکمیل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہاجرین کو مکہ میں تین دن سے زائد قیام کرنے سے منع فرمانا بھی اس کی دلیل ہے کہ مسافر اگر چار دن کا ارادہ کرے گا تو مقیم سمجھا جائے گا‘ نیز ان کا استدلال اس سے بھی ہے جو امام مالک رحمہ اللہ نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہود کو حجاز سے جلا وطن کیا تو پھر ان میں جو تاجر کی حیثیت سے حجاز میں آنا چاہتا اسے بھی تین دن قیام کی اجازت دیتے۔
مصنف نے اسے اپنی کتاب التلخیص الحبیر میں نقل کرکے کہا ہے کہ اسے امام ابوزرعہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث میں ۱۵‘ ۱۷‘ ۱۸ اور ۱۹ روز قصر نماز پڑھنے کا جو ذکر ہے‘ اس کی تطبیق اور روایات کے مابین جمع کی صورت اوپر مذکور ہے۔
مختلف مکاتب فکر کے ہاں مدت قیام بھی مختلف ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں تین دن اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ۱۵ دن۔
جب مسافر حالت تردد میں مبتلا ہو جائے اور واپسی کا حتمی فیصلہ نہ کر پائے تو ایسی صورت میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنے اصحاب سمیت اور ایک قول کی رو سے امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ ایسا متردد و متذبذب مسافر تادم زیست یا واپسی تک قصر کر سکتا ہے‘ چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے آذر بائیجان میں چھ ماہ تک قصر نماز پڑھی اور اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ کو نیشا پور کے مقام پر سال یا دو سال حالت تردد میں رہنا پڑا تو قصر ہی کرتے رہے۔
اور کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو رامہرمز میں نو ماہ تک رکنا پڑا تو وہ قصر ہی کرتے رہے۔
ان واقعات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ تردد اور تذبذب کی حالت میں قصر کی مدت مقرر نہیں ہے بلکہ جب تک ضرورت کا تقاضا ہو اتنی مدت تک قصر جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 346   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 547  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے، آپ کو سوائے اللہ رب العالمین کے کسی کا خوف نہ تھا۔ (اس کے باوجود) آپ نے دو ہی رکعتیں پڑھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 547]
اردو حاشہ:
1؎:
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سفر میں قصر خوف کی وجہ سے نہیں ہے،
جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں،
سفر خواہ کیسا بھی پر امن ہو اس میں قصر رخصت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 547   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1232  
´مسافر پوری نماز کب پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں سترہ دن تک مقیم رہے اور دو دو رکعتیں پڑھتے رہے۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1232]
1232۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت بھی بعض محققین کے نزدیک ضعیف منکر ہے اور صحیح 19 دن ہی ہے۔ جن کے نزدیک یہ روایات صحیح ہیں ان میں سفر مکہ کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ میں امامت انیس دن، اٹھارہ دن، سترہ دن اور پندرہ دن مروی ہے۔ تو اس عدد میں اختلاف کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے یوں حل فرمایا ہے کہ جس راوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور روانگی کے دن شمار کئے اس نے انیس دن بتائے ہیں اور جس نے ان کو خارج کر دیا، اس نے سترہ کہے۔ اور جس نے آمد اور روانگی میں کوئی ایک دن شمار کیا، اس نے اٹھارہ دن کہے اور جس نے پندرہ دن کہے اس کے خیال میں اصل اقامت مع ایام آمد و رفت سترہ دن ہو گی۔ اور پھر اس نے آمد و روانگی کے دو دن چھوڑ دیے تو پندرہ دن ہوئے۔ (انتہیٰ ملخصہ)، خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر سفر جہاد تھا اور مجاہدین کی اقامت کہیں بھی بالجزم نہیں ہوا کرتی۔ اس لئے سفر جہاد میں کسی جگہ اقامت کو، حالت امن کے عام سفر میں اقامت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ اس بناء پر ہمارے مشائخ کا فتویٰ یہی ہے کہ عام سفر میں تین یا چار دن کی اقامت تک قصر اور اس سے زیادہ میں اتمام ہے، جیسے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے اور یہی راحج ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1232   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.