الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: رضاعت کے احکام و مسائل
The Book on Suckling
2. باب مَا جَاءَ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ
2. باب: دودھ کی نسبت مرد کی طرف ہو گی۔
حدیث نمبر: 1148
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال، حدثنا ابن نمير، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: جاء عمي من الرضاعة يستاذن علي، فابيت ان آذن له حتى استامر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فليلج عليك فإنه عمك "، قالت: إنما ارضعتني المراة، ولم يرضعني الرجل، قال: " فإنه عمك فليلج عليك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم، من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم كرهوا لبن الفحل، والاصل في هذا حديث عائشة، وقد رخص بعض اهل العلم في لبن الفحل والقول الاول اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَ عَمِّي مِنَ الرَّضَاعَةِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ، فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْمِرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ عَمُّكِ "، قَالَتْ: إِنَّمَا أَرْضَعَتْنِي الْمَرْأَةُ، وَلَمْ يُرْضِعْنِي الرَّجُلُ، قَالَ: " فَإِنَّهُ عَمُّكِ فَلْيَلِجْ عَلَيْكِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ كَرِهُوا لَبَنَ الْفَحْلِ، وَالْأَصْلُ فِي هَذَا حَدِيثُ عَائِشَةَ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي لَبَنِ الْفَحْلِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا: تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے انہوں نے «لبن فحل» (مرد کے دودھ) کو حرام کہا ہے۔ اس باب میں اصل عائشہ کی حدیث ہے،
۳- اور بعض اہل علم نے «لبن فحل» (مرد کے دودھ) کی رخصت دی ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 2 (1445)، (تحفة الأشراف: 1682) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الشہادات 7 (2644) وتفسیر سورة السجدة 9 (6974)، و النکاح 22 (5103)، و1117 (5239)، والأدب 93 (6156)، صحیح مسلم/الرضاع (المصدر المذکور) سنن النسائی/النکاح 49 (3303)، سنن الدارمی/النکاح 48 (2294) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مرد کا دودھ ہو (یعنی اس عورت کا شوہر) وہ بھی شیرخوار پر حرام ہو جاتا ہے اور اس سے بھی شیرخوار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1948)

   صحيح البخاري5103عائشة بنت عبد اللهأمرني أن آذن له
   صحيح البخاري4796عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك تربت يمينك
   صحيح البخاري2644عائشة بنت عبد اللهصدق أفلح ائذني له
   صحيح البخاري6156عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك تربت يمينك
   صحيح مسلم3575عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   صحيح مسلم3571عائشة بنت عبد اللهأمرني أن آذن له علي
   صحيح مسلم3573عائشة بنت عبد اللهائذني له
   صحيح مسلم3580عائشة بنت عبد اللهليدخل عليك فإنه عمك
   صحيح مسلم3578عائشة بنت عبد اللههلا أذنت له تربت يمينك
   جامع الترمذي1148عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   سنن أبي داود2057عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   سنن النسائى الصغرى3316عائشة بنت عبد اللهائذني له
   سنن النسائى الصغرى3319عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3318عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3320عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3317عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن ابن ماجه1948عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فأذني له
   سنن ابن ماجه1949عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   المعجم الصغير للطبراني500عائشة بنت عبد اللهإيذني له فإنه عمك من الرضاعة
   المعجم الصغير للطبراني501عائشة بنت عبد اللهليدخل عليك عمك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم374عائشة بنت عبد الله فامرني ان آذن له علي
   بلوغ المرام967عائشة بنت عبد اللهصنعت فامرني ان آذن له علي وقال إنه عمك
   مسندالحميدي231عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فأذني له
   مسندالحميدي232عائشة بنت عبد اللهتربت يمينك هو عمك فأذني له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 374  
´اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا`
«. . . انها اخبرته ان افلح اخا ابى القعيس جاء يستاذن عليها -وهو عمها من الرضاعة- بعد ان نزل الحجاب، قالت: فابيت ان آذن له. فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرته بالذي صنعت فامرني ان آذن له علي . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ابوالقعیس کے بھائی افلح جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے، انہوں نے پردے کی فرضیت کے بعد میرے (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے) پاس آنے کی اجازت چاہی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے یہ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں آنے کی اجازت دے دوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 374]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5103، ومسلم 1445/3، من حديث مالك به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه:
➊ اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا، بعد میں فرض ہوا۔
➋ نسبی اور رضاعی حرام رشتوں سے پردہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے پردہ کیا جاتا ہے جن سے اصلاً نکاح جائز ہے۔
➌ رضاعی ماں حقیقی ماں کی طرح ہے لہٰذا حقیقی نسبی رشتوں کی طرح رضاعی رشتے بھی حرام ہیں۔
➍ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دودھ پیتے بچے کی رضاعت دودھ کے پانچ گھونٹ پینے سے ثابت ہو جاتی ہے لیکن بڑے آدمی کی رضاعت میں اختلاف ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے جائز سمجھتی تھیں جبکہ جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ آنے والی حدیث سے بھی ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [التمهيد 260/8]
➎ امہات المؤمنین پردے کے وجوب کے بعد عام مومنوں سے پردہ کیا کرتی تھیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 39   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1949  
´دودھ مرد کی طرف سے ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، تو میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے چچا کو اپنے پاس آنے دو، میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں!، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں انہیں اپنے پاس آنے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1949]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعی رشتے جس طرح دودھ پلانے والی عورت کی طرف سے قائم ہوتے ہیں (رضاعی ماموں، رضاعی خالہ وغیرہ)
اسی طرح اس عورت کا خاوند دودھ پینے والے بچے کا باپ بن جاتا ہے اور اس کی طرف سے دودھ کے رشتے قائم ہوتے ہیں (رضاعی چچا، تایا، رضاعی پھوپھی وغیرہ)
۔

(2)
جو رشتے نسبی طور پر محرم ہیں وہ رضاعی طور پر بھی محرم ہیں لہٰذا ان رضاعی رشتہ داروں کا آپس میں پردہ نہیں اور ان کا باہم نکاح بھی جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے، حدیث: 1937 کے فوائد)

(3)
اگر کسی مسئلہ میں شاگرد کو کوئی اشکال یا شبہ ہو تو استاد سے بیان کر دینا چاہیے اور استاد کو چاہیے کہ مناسب انداز سے اشکال دور کر دے۔

(4)
ہاتھ کو مٹی لگنے کے محاورہ سے اہل عرب فقر و مسکنت مراد لیتے ہیں تاہم تعجب کے موقع پر یہ جملہ بولنے سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1949   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 967  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوالقعیس کا بھائی افلح حجاب کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آنے کیلئے اجازت طلب کرتا رہا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا جو میں نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیا کروں اور فرمایا کہ وہ تمہارا چچا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 967»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لبن الفحل، حديث:5103، ومسلم، الرضاع، باب تحريم الرضاعة من ماء الفحل، حديث:1445.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا دودھ پی لیا جائے اس کا شوہر دودھ پینے والے کے لیے بمنزلہ باپ ہوگا۔
اب جو رشتے ماں‘ باپ کی جانب سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جائیں گے۔
2.افلح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا اس لیے ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوالقعیس کی بیوی کا دودھ پیا تھا۔
3.دودھ کی پیدائش میں مرد و عورت دونوں کے نطفے کا دخل ہوتا ہے‘ اس لیے رضاعت بھی دونوں کی جانب سے ہوئی اور اسی وجہ سے حرمت بھی ثابت ہوگئی۔
وضاحت: «افلح» ان کی کنیت ابوجعد اور نام افلح ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔
ان کے بھائی ابوالقعیس کا نام جعد تھا۔
اور ایک قول یہ ہے کہ وائل بن افلح اشعری ان کا نام تھا۔
اس طرح ان کے بھائی کا نام اور ان کے باپ کا نام ایک ہوا۔
معلوم رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچے دو تھے۔
ایک تو ان کے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رضاعی بھائی تھا‘ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فوت ہوگیا تھا‘ دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دودھ پلانے والی کا دیور تھا۔
اس کا نام افلح تھا جو کہ ابوالقعیس کا بھائی تھااور ابوالقعیس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی باپ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 967   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1148  
´دودھ کی نسبت مرد کی طرف ہو گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا: تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1148]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مرد کا دودھ ہو (یعنی اس عورت کا شوہر) وہ بھی شیر خوار پر حرام ہو جاتا ہے اوراس سے بھی شیر خوار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1148   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2057  
´مرد سے دودھ کا رشتہ۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس افلح بن ابوقعیس آئے تو میں نے پردہ کر لیا، انہوں نے کہا: مجھ سے پردہ کر رہی ہو، میں تو تمہارا چچا ہوں؟ میں نے کہا: چچا کس طرح سے؟ انہوں نے کہا کہ تمہیں میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے، پھر میرے یہاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ سے بیان کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں، وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2057]
فوائد ومسائل:
دودھ پلانے والی رضاعی ماں ہوئی تو اس کا شوہر رضاعی باپ اور اس کا بھائی رضائی چچا ہوا جس طرح دودھ پلانے والی سے تعلق جڑتا ہے۔
ویسے ہی اس کے شوہر اور عزیزوں سے بھی جُڑ جاتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2057   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.