(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن خيثمة، عن عدي بن حاتم، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما منكم من رجل إلا سيكلمه ربه يوم القيامة وليس بينه وبينه ترجمان، فينظر ايمن منه فلا يرى شيئا إلا شيئا قدمه، ثم ينظر اشام منه فلا يرى شيئا إلا شيئا قدمه، ثم ينظر تلقاء وجهه فتستقبله النار "، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من استطاع منكم ان يقي وجهه حر النار ولو بشق تمرة فليفعل " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْكُمْ مِنْ رَجُلٍ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ، فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدَّمَهُ، ثُمَّ يَنْظُرُ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَتَسْتَقْبِلُهُ النَّارُ "، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَقِيَ وَجْهَهُ حَرَّ النَّارِ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے، اور نیک عمل کرتا رہے، کیونکہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔
ما منكم من أحد إلا وسيكلمه الله يوم القيامة ليس بين الله وبينه ترجمان ثم ينظر فلا يرى شيئا قدامه ثم ينظر بين يديه فتستقبله النار من استطاع منكم أن يتقي النار ولو بشق تمرة
ما منكم أحد إلا سيكلمه ربه ليس بينه وبينه ترجمان فينظر أيمن منه فلا يرى إلا ما قدم من عمله وينظر أشأم منه فلا يرى إلا ما قدم وينظر بين يديه فلا يرى إلا النار تلقاء وجهه اتقوا النار ولو بشق تمرة
ما منكم من أحد إلا سيكلمه الله ليس بينه وبينه ترجمان فينظر أيمن منه فلا يرى إلا ما قدم وينظر أشأم منه فلا يرى إلا ما قدم وينظر بين يديه فلا يرى إلا النار تلقاء وجهه اتقوا النار ولو بشق تمرة
ما منكم من رجل إلا سيكلمه ربه يوم القيامة وليس بينه وبينه ترجمان فينظر أيمن منه فلا يرى شيئا إلا شيئا قدمه ثم ينظر أشأم منه فلا يرى شيئا إلا شيئا قدمه ثم ينظر تلقاء وجهه فتستقبله النار من استطاع منكم أن يقي وجهه حر النار
ما منكم من أحد إلا سيكلمه ربه ليس بينه وبينه ترجمان فينظر عن أيمن منه فلا يرى إلا شيئا قدمه ثم ينظر عن أيسر منه فلا يرى إلا شيئا قدمه ثم ينظر أمامه فتستقبله النار من استطاع منكم أن يتقي النار ولو بشق تمرة فليفعل
ما منكم من أحد إلا سيكلمه ربه ليس بينه وبينه ترجمان فينظر أمامه فتستقبله النار وينظر عن أيمن منه فلا يرى إلا شيئا قدمه وينظر عن أشأم منه فلا يرى إلا شيئا قدمه من استطاع منكم أن يتقي النار ولو بشق تمرة فليفعل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث185
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔` عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے ہر شخص سے اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) بغیر کسی ترجمان کے ہم کلام ہو گا ۱؎، بندہ اپنی دائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو اپنے آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر بائیں جانب نگاہ ڈالے گا تو اپنے ان اعمال کے سوا جن کو آگے بھیج چکا تھا کچھ بھی نہ دیکھے گا، پھر اپنے آگے دیکھے گا تو جہنم اس کے سامنے ہو گی پس جو جہنم سے بچ سکتا ہو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کو اللہ کی راہ میں دے کر تو اس کو ضرور ایسا کرنا چاہیئے۔“[سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 185]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث شریف میں اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کا ثبوت ہے۔ (بندے کو اپنے اعمال کا خود ہی حساب دینا پڑے گا، اس لیے کسی بزرگ کی سفارش وغیرہ پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
(3) جہنم سے بچاؤ کے لیے نیک اعمال ضروری ہیں۔
(4) صدقہ بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھنے والا نیک عمل ہے۔
(5) اگر بڑا نیک عمل کرنے کی طاقت نہ ہو تو چھوٹا عمل کر لینا چاہیے، کچھ نہ کرنے سے چھوٹی نیکی بھی بہتر ہے۔
(6) کسی نیکی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، خلوص کے ساتھ کی گئی چھوٹی سی نیکی بھی اللہ کی رحمت کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 185
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2415
´قیامت کے دن حساب اور بدلے کا بیان۔` عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے مگر اس کا رب اس سے قیامت کے روز کلام کرے گا اور دونوں کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا، وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر بائیں جانب دیکھے گا تو اسے سوائے اپنے عمل کے کوئی چیز دکھائی نہ دے گی، پھر سامنے دیکھے گا تو اسے جہنم نظر آئے گی“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو جہنم کی گرمی سے اپنے چہرے کو بچانا چاہے تو اسے ایسا کرنا چاہیئے، اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2415]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی جہنم سے بچاؤ کا راستہ اختیار کرے، اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے، اورنیک عمل کرتا رہے، کیوں کہ یہ جہنم سے بچاؤ اور نجات کا ذریعہ ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2415
(مرفوع) حدثنا ابو السائب، حدثنا وكيع يوما بهذا الحديث، عن الاعمش، فلما فرغ وكيع من هذا الحديث , قال: من كان ها هنا من اهل خراسان فليحتسب في إظهار هذا الحديث بخراسان , لان الجهمية ينكرون هذا اسم ابي السائب سلم بن جنادة بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرة الكوفي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ يَوْمًا بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، فَلَمَّا فَرَغَ وَكِيعٌ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ , قَالَ: مَنْ كَانَ هَا هُنَا مِنْ أَهْلِ خُرَاسَانَ فَلْيَحْتَسِبْ فِي إِظْهَارِ هَذَا الْحَدِيثِ بِخُرَاسَانَ , لِأَنَّ الْجَهْمِيَّةَ يُنْكِرُونَ هَذَا اسْمُ أَبِي السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ بْنِ سَلْمِ بْنِ خَالِدِ بْنِ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ الْكُوفِيُّ.
ابوسائب کہتے ہیں کہ ایک دن اس حدیث کو ہم سے وکیع نے اعمش کے واسطہ سے بیان کیا پھر جب وکیع یہ حدیث بیان کر کے فارغ ہوئے تو کہا: اہل خراسان میں سے جو بھی یہاں موجود ہوں انہیں چاہیئے کہ وہ اس حدیث کو خراسان میں بیان کر کے اور اسے پھیلا کر ثواب حاصل کریں۔
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی کیونکہ جہمیہ اس حدیث کا انکار کرتے ہیں ۲؎۔ ابوسائب کا نام سلمہ بن جنادہ بن سلم بن خالد بن جابر بن سمرہ کوفی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»
وضاحت: ۲؎: جہمیہ اس حدیث کا انکار اس لیے کرتے ہیں کیونکہ اس میں کلام الٰہی کا اثبات ہے اور جہمیہ اس کے منکر ہیں۔