الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: علم اور فہم دین
Chapters on Knowledge
7. باب مَا جَاءَ فِي الْحَثِّ عَلَى تَبْلِيغِ السَّمَاعِ
7. باب: دوسرے تک دین کی بات پہنچانے پر ابھارنے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2657
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، انبانا شعبة، عن سماك بن حرب، قال: سمعت عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود يحدث، عن ابيه، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " نضر الله امرا سمع منا شيئا فبلغه كما سمع فرب مبلغ اوعى من سامع " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه عبد الملك بن عمير، عن عبد الرحمن بن عبد الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ فَرُبَّ مُبَلِّغٍ أَوْعَى مِنْ سَامِعٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ اس شخص کو تروتازہ (اور خوش) رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی پھر اس نے اسے جیسا کچھ مجھ سے سنا تھا ہوبہو دوسروں تک پہنچا دیا کیونکہ بہت سے لوگ جنہیں بات (حدیث) پہنچائی جائے پہنچانے والے سے کہیں زیادہ بات کو توجہ سے سننے اور محفوظ رکھنے والے ہوتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس حدیث کو عبدالملک بن عمیر نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 18 (232) (تحفة الأشراف: 9361) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (232)

   جامع الترمذي2657عبد الله بن مسعودنضر الله امرأ سمع منا شيئا فبلغه كما سمع رب مبلغ أوعى من سامع
   جامع الترمذي2658عبد الله بن مسعودنضر الله امرأ سمع مقالتي فوعاها وحفظها وبلغها رب حامل فقه إلى من هو أفقه منه ثلاث لا يغل عليهن قلب مسلم إخلاص العمل لله مناصحة أئمة المسلمين لزوم جماعتهم فإن الدعوة تحيط من ورائهم
   سنن ابن ماجه232عبد الله بن مسعودنضر الله امرأ سمع منا حديثا فبلغه رب مبلغ أحفظ من سامع
   مشكوة المصابيح230عبد الله بن مسعودنضر الله امرا سمع منا شيئا فبلغه كما سمعه فرب مبلغ اوعى له من سامع
   المعجم الصغير للطبراني72عبد الله بن مسعود نضر الله عبدا سمع مقالتي فوعاها وحفظها ، فرب حامل علم إلى من هو أعلم منه ثلاث لا يغل عليهن القلب : إخلاص العمل لله ، ومناصحة الولاة ، ولزوم الجماعة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 230  
´محدثین کے لیے دعائے رسول صلی اللہ علیہ وسلم`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن ابْن مَسْعُودٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَهُ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَى لَهُ مِنْ سَامِعٍ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے حدیث کو سنا اور جس طرح سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچا دیا۔ کیونکہ بہت سے لوگ جن کو پہنچایا جاتا ہے سننے والوں سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 230]

تحقیق الحدیث:
صحیح ہے۔ دیکھئے حدیث: [اضواء المصابيح: 228 - 229]
◄ سنن دارمی والی روایت میں یحییٰ بن موسیٰ البلخی، ابوسعید عمرو بن محمد العنقزی القرشی الکوفی اور اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی تینوں ثقہ تھے۔
◄ عبدالرحمٰن بن زبید بن الحارث الیامی کو ابن حبان نے کتاب الثقات میں ذکر کیا اور اس پر امام بخاری کی طرف منسوب جرح منکر الحدیث جو امام بخاری سے ثابت نہیں، لہٰذا عبدالرحمٰن مذکور مجہول الحال ہے۔
ابوالعجلان کو بقول حافظ ابن حجر عجلی نے ثقہ قرار دیا ہے، لیکن ہمیں یہ حوالہ کتاب الثقات (التاریخ) للعجلی میں نہیں ملا۔ «والله اعلم»
◄ مختصر یہ کہ دارمی والی سند عبدالرحمٰن بن زبید کی جہالت حال وغیرہ کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن اس کے صحیح شواہد ہیں، لہٰذا یہ حدیث شواہد کے ساتھ صحیح ہے۔ «والحمد لله»

فائدہ:
دارمی والی روایت مذکورہ کو طبرانی نے «اسرائيل عن عبدالرحمٰن بن زبيد» کی سند سے بیان کیا ہے۔ ديكهئے: [جامع المسانيد لابن كثير 13؍652۔ 653 ح11187، وفي المطبوع تصحيف]
فقہ الحدیث کے لئے دیکھئے حدیث سنن ترمذی: [2656]

تنبیہ:
«نضر الله امرءًا» اور «نضر الله امرأً» دونوں طرح لکھنا صحیح ہے، جبکہ اول الذکر زیادہ فصیح ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 230   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث232  
´علم دین کے مبلغ کے مناقب و فضائل۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی حدیث سنی اور اسے دوسروں تک پہنچا دیا، اس لیے کہ بہت سے وہ لوگ جنہیں حدیث پہنچائی جاتی ہے وہ سننے والوں سے زیادہ ادراک رکھنے والے ہوتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 232]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نام کے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے احادیث مروی ہیں۔
اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔
جب صرف عبداللہ (صحابی)
لکھا ہو تو مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی ہوں گے۔

(2)
اس حدیث میں بشارت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد بھی ہر دور میں حفاظ حدیث موجود رہیں گے اگرچہ ان کی تعداد کسی دورمیں بہت زیادہ اور کسی دور میں کم ہو گی۔

(3)
حفظ حدیث سے عموماً حدیث کو زبانی یاد رکھنا مراد لیا جاتا ہے لیکن تحریری طور پر حدیث کو محفوظ کر لینا بھی حفظ حدیث میں شامل ہے۔
ائمہ حدیث نے دونوں طرح حدیث کو محفوظ کیا ہے بلکہ صحابہ کرام میں سے متعدد حضرات حدیث تحریری طور پر محفوظ رکھتے تھے اور زبانی بھی یاد کرتے تھے اور روایت کرتے تھے۔
مثلا:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ وغيره۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 232   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.