الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية ابن القاسم کل احادیث 657 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية ابن القاسم
نوافل و سنن کا بیان
नफ़िल और सुन्नतें
1. چاشت کی نماز مستحب ہے
“ चाशत की नमाज़ को पसंद किया गया है ”
حدیث نمبر: 145
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
37- وبه: عن عائشة ام المؤمنين انها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب ان يعمل به خشية ان يعمل به الناس فيفرض عليهم.37- وبه: عن عائشة أم المؤمنين أنها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لأستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم.
اور اسی سند کے ساتھ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز (ہمیشہ) کبھی نہیں پڑھی اور میں اس نماز کو مستحب سمجھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو پسند کرنے کے باوجود (بعض اوقات) اس خوف کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اس پر لوگوں کے عمل کرنے کی وجہ سے فرض نہ ہو جائے۔
इसी सनद के साथ उम्मुल मोमिनीन हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने चाश्त की नमाज़ (हमेशा) कभी नहीं पढ़ी और मैं इस नमाज़ को अच्छा समझती हूँ, रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम एक अमल को पसंद करते हुए भी (कभी कभी) इस डर की वजह से छोड़ देते थे कि कहीं इस पर लोगों के अमल करने की वजह से फ़र्ज़ न हो जाए।

تخریج الحدیث: «37- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 152/1، 153 ح 357، ك 9 ب 8 ح 29 وعنده: وابي لا سبحها [اور ميں يه نماز پڑهتي هوں]) التمهيد 134/8، الاستذكار: 127، و أخرجه البخاري (1128) ومسلم (718) من حديث مالك به نحو المعنيٰ.»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري1177عائشة بنت عبد اللهما رأيت رسول الله سبح سبحة الضحى وإني لأسبحها
   صحيح البخاري1128عائشة بنت عبد اللهليدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم ما سبح رسول الله سبحة الضحى قط
   صحيح مسلم2717عائشة بنت عبد اللهإن صام شهرا معلوما سوى رمضان حتى مضى لوجهه ولا أفطره حتى يصيب منه
   صحيح مسلم1662عائشة بنت عبد اللهما رأيت رسول الله يصلي سبحة الضحى قط وإني لأسبحها يدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم
   صحيح مسلم1661عائشة بنت عبد اللهأكان النبي يصلي الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه
   صحيح مسلم1660عائشة بنت عبد اللههل كان النبي يصلي الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه
   سنن أبي داود1293عائشة بنت عبد اللهما سبح رسول الله سبحة الضحى قط وإني لأسبحها يدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم
   سنن أبي داود1292عائشة بنت عبد اللههل كان رسول الله يصلي الضحى فقالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله يقرن بين السورتين قالت من المفصل
   سنن النسائى الصغرى2186عائشة بنت عبد اللهأكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله يصوم شهرا كله قالت لا ما علمت صام شهرا كله إلا رمضان ولا أفطر حتى يصوم منه حتى مضى لسبيله
   سنن النسائى الصغرى2187عائشة بنت عبد اللهأكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله له صوم معلوم سوى رمضان قالت والله إن صام شهرا معلوما سوى رمضان حتى مضى لوجهه ولا أفطر حتى يصوم منه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم145عائشة بنت عبد الله ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 145  
´چاشت کی نماز مستحب ہے`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين انها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب ان يعمل به خشية ان يعمل به الناس فيفرض عليهم . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز (ہمیشہ) کبھی نہیں پڑھی اور میں اس نماز کو مستحب سمجھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو پسند کرنے کے باوجود (بعض اوقات) اس خوف کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اس پر لوگوں کے عمل کرنے کی وجہ سے فرض نہ ہو جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 145]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1128، ومسلم 718، من حديث مالك به نحو المعنيٰ]

تفقه:
➊ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، الا یہ کہ جب سفر سے واپس آتے (تو پڑھتے تھے) دیکھئے: [صحيح مسلم 717]
● دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز چار رکعتیں یا زیادہ پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم: 719]
◄ معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے مگر ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 49/3]
➋ چاشت کی نماز واجب یا سنت موکدہ نہیں ہے بلکہ مستحب اور افضل ہے۔
➌ چاشت کی نماز دو رکعتیں، چار رکعتیں یا آٹھ رکعتیں ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 719، 720، 721 وصحيح بخاري: 1176، وصحيح مسلم 336 بعدح 719] ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا مسنون ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہما کو چاشت کی نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [صحيح مسلم:722، 721]
➎ چاشت کی نماز کا وقت سورج کے طلوع کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے اور اس کا افضل وقت اونٹ کے بچے کے پاؤں دھوپ سے گرم ہونے پر ہے۔ [صحيح مسلم: 748]
● اسے صلٰوۃ الاوابین (بہت زیادہ توبہ کرنے والوں کی نماز) بھی کہتے ہیں۔ یہ وقت دن کے ابتدائی تقریباً چوتھے حصے تک ہوتا ہے۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے فرض نماز پڑھنے کے لئے (مسجد کی طرف) نکلتا ہے تو اسے حج کا ثواب ملتا ہے اور جو چاشت کی نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے تو اسے عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 558، وسنده حسن، ومسند أحمد 268/5] والحمدللہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 37   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1292  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1292]
1292۔ اردو حاشیہ:
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں تشریف لاتے، دو رکعتیں پڑھتے، احباب سے ملاقات ہوتی، پھر گھر تشریف لے جاتے۔ [صحيح بخاري: 4418]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1292   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.