الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
32. بَابُ مَنْ لَمْ يُصَلِّ الضُّحَى وَرَآهُ وَاسِعًا:
32. باب: چاشت کی نماز پڑھنا اور اس کو ضروری نہ جاننا۔
(32) Chapter. Whoever did not offer the Duha prayer and thought it premissible (to offer it).
حدیث نمبر: 1177
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم , قال: حدثنا ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها , قالت:" ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم سبح سبحة الضحى وإني لاسبحها".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّحَ سُبْحَةَ الضُّحَى وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے، ان سے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر میں خود پڑھتی ہوں۔

Narrated `Aisha: I never saw the Prophet offering the Duha prayer but I always offer it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 273


   صحيح البخاري1177عائشة بنت عبد اللهما رأيت رسول الله سبح سبحة الضحى وإني لأسبحها
   صحيح البخاري1128عائشة بنت عبد اللهليدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم ما سبح رسول الله سبحة الضحى قط
   صحيح مسلم2717عائشة بنت عبد اللهإن صام شهرا معلوما سوى رمضان حتى مضى لوجهه ولا أفطره حتى يصيب منه
   صحيح مسلم1662عائشة بنت عبد اللهما رأيت رسول الله يصلي سبحة الضحى قط وإني لأسبحها يدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم
   صحيح مسلم1661عائشة بنت عبد اللهأكان النبي يصلي الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه
   صحيح مسلم1660عائشة بنت عبد اللههل كان النبي يصلي الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه
   سنن أبي داود1293عائشة بنت عبد اللهما سبح رسول الله سبحة الضحى قط وإني لأسبحها يدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم
   سنن أبي داود1292عائشة بنت عبد اللههل كان رسول الله يصلي الضحى فقالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله يقرن بين السورتين قالت من المفصل
   سنن النسائى الصغرى2186عائشة بنت عبد اللهأكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله يصوم شهرا كله قالت لا ما علمت صام شهرا كله إلا رمضان ولا أفطر حتى يصوم منه حتى مضى لسبيله
   سنن النسائى الصغرى2187عائشة بنت عبد اللهأكان رسول الله يصلي صلاة الضحى قالت لا إلا أن يجيء من مغيبه هل كان رسول الله له صوم معلوم سوى رمضان قالت والله إن صام شهرا معلوما سوى رمضان حتى مضى لوجهه ولا أفطر حتى يصوم منه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم145عائشة بنت عبد الله ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 145  
´چاشت کی نماز مستحب ہے`
«. . . عن عائشة ام المؤمنين انها قالت: ما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط وإني لاستحبها، وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب ان يعمل به خشية ان يعمل به الناس فيفرض عليهم . . .»
. . . ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز (ہمیشہ) کبھی نہیں پڑھی اور میں اس نماز کو مستحب سمجھتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک عمل کو پسند کرنے کے باوجود (بعض اوقات) اس خوف کی وجہ سے چھوڑ دیتے تھے کہ کہیں اس پر لوگوں کے عمل کرنے کی وجہ سے فرض نہ ہو جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 145]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1128، ومسلم 718، من حديث مالك به نحو المعنيٰ]

تفقه:
➊ ایک روایت میں آیا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: نہیں، الا یہ کہ جب سفر سے واپس آتے (تو پڑھتے تھے) دیکھئے: [صحيح مسلم 717]
● دوسری روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز چار رکعتیں یا زیادہ پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم: 719]
◄ معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے مگر ہمیشہ نہیں پڑھتے تھے۔ دیکھئے: [السنن الكبري للبيهقي 49/3]
➋ چاشت کی نماز واجب یا سنت موکدہ نہیں ہے بلکہ مستحب اور افضل ہے۔
➌ چاشت کی نماز دو رکعتیں، چار رکعتیں یا آٹھ رکعتیں ہیں۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 719، 720، 721 وصحيح بخاري: 1176، وصحيح مسلم 336 بعدح 719] ہر دو رکعت پر سلام پھیرنا مسنون ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہما کو چاشت کی نماز پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ [صحيح مسلم:722، 721]
➎ چاشت کی نماز کا وقت سورج کے طلوع کے فوراً بعد شروع ہوتا ہے اور اس کا افضل وقت اونٹ کے بچے کے پاؤں دھوپ سے گرم ہونے پر ہے۔ [صحيح مسلم: 748]
● اسے صلٰوۃ الاوابین (بہت زیادہ توبہ کرنے والوں کی نماز) بھی کہتے ہیں۔ یہ وقت دن کے ابتدائی تقریباً چوتھے حصے تک ہوتا ہے۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد مبارک کا خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے فرض نماز پڑھنے کے لئے (مسجد کی طرف) نکلتا ہے تو اسے حج کا ثواب ملتا ہے اور جو چاشت کی نماز پڑھنے کے لئے جاتا ہے تو اسے عمرے کا ثواب ملتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود 558، وسنده حسن، ومسند أحمد 268/5] والحمدللہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 37   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1292  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، سوائے اس کے کہ جب آپ سفر سے آتے۔ میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو سورتیں ملا کر پڑھتے تھے؟ آپ نے کہا: مفصل کی سورتیں (ملا کر پڑھتے تھے) ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1292]
1292۔ اردو حاشیہ:
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں تشریف لاتے، دو رکعتیں پڑھتے، احباب سے ملاقات ہوتی، پھر گھر تشریف لے جاتے۔ [صحيح بخاري: 4418]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1292   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1177  
1177. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر میں اسے ادا کرتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1177]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے صرف اپنی رؤیت کی نفی کی ہے ورنہ بہت سی روایات میں آپ ﷺ کا یہ نماز پڑھنا مذکور ہے۔
حضرت صدیقہ ؓ کے خود پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے اس نماز کے فضائل سنے ہوں گے۔
پس معلوم ہوا کہ اس نماز کی ادائیگی باعث اجروثواب ہے۔
اس لفظ سے کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔
باب کا مطلب نکلتا ہے، کیونکہ اس کاپڑھنا ضروری ہوتا تو وہ آنحضرت ﷺ کو ہر روز پڑھتے دیکھتیں۔
قسطلانی نے کہا کہ حضرت عائشہ ؓ کے نہ دیکھنے سے چاشت کی نماز کی نفی نہیں ہوتی۔
ایک جماعت صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے۔
جیسے انس، ابوہریرہ، ابو ذر، ابو اسامہ، عقبہ بن عبد، ابن ابی اوفیٰ، ابو سعید، زیدبن ارقم، ابن عباس، جبیر بن مطعم، حذیفہ، ابن عمر، ابو موسی، عتبان، عقبہ بن عامر، علی، معاذ بن انس، ابو بکرہ اور ابو مرہ وغیرہم ؓ نے۔
عتبان بن مالک کی حدیث اوپر کئی بار اس کتاب میں گزر چکی ہے اور امام احمد نے اس کو اس لفظ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے ان کے گھر میں چاشت کے نفل پڑھے۔
سب لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1177   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1177  
1177. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا مگر میں اسے ادا کرتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1177]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے مزید وضاحت ہے کہ رسول الله ﷺ کی عادت تھی کہ آپ کسی عمل کو پسند کرتے تھے مگر اس پر عمل پیرا نہ ہوتے۔
اس کی وجہ یہ ہوتی کہ آپ کے عمل کو دیکھ کر لوگ بھی اسے اپنائیں گے تو وہ ان پر فرض ہو جائے گا۔
اس اندیشے کی بنا پر پسندیدہ ہونے کے باوجود آپ اس پر عمل نہ کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1662(718)
واضح رہے کہ نماز ضحیٰ کا دوسرا نام نماز اشراق ہے۔
وقت ادا کے اعتبار سے اس کے الگ الگ نام ہیں، یعنی اگر طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ادا کریں تو نماز اشراق اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو جائے تو اسے نماز ضحیٰ کہا جاتا ہے۔
اسے محدثین کرام نے ضحوۂ صغریٰ اور ضحوۂ کبریٰ سے بھی تعبیر کیا ہے۔
اور دھوپ میں اس قدر شدت آ جائے کہ پاؤں جلنے لگیں لیکن زوال سے پہلے پڑھیں تو اسے صلاۃ الاوابین کہتے ہیں۔
حافظ ابن قیم ؒ نے نماز اشراق کے متعلق اختلاف بیان کرتے ہوئے مختلف مسالک کی نشاندہی کی ہے جس کی مختصراً تفصیل کچھ یوں ہے:
٭ نماز اشراق مستحب ہے، البتہ اس کی تعداد میں اختلاف ہے۔
٭ کسی سبب کی وجہ سے اس کا اہتمام کیا جائے، مثلاً:
کسی شہر کے فتح ہونے پر یا کسی مخالف کی موت پر یا کسی کے ہاں زیارت کے لیے جانے پر یا سفر سے واپسی پر۔
٭ سرے سے مشروع نہیں، جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اسے نہیں پڑھا کرتے تھے۔
٭ اس پر مداومت نہ کی جائے بلکہ کبھی پڑھ لی جائے اور کبھی چھوڑ دی جائے۔
٭ اس کے پڑھنے کا اہتمام گھروں میں کیا جائے، مساجد وغیرہ میں اس کا اظہار درست نہیں۔
٭ یہ مستحب نہیں بلکہ بدعت ہے۔
(زادالمعاد: 351/1) (2)
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اس تفصیل کو بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 72/3)
ہمارے نزدیک پہلا موقف راجح ہے اور اس کی کم از کم تعداد دو رکعت اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات ہیں، چنانچہ معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے رسول اللہ ﷺ کی نماز اشراق کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
ہاں، آپ چار رکعت پڑھتے تھے اور جس قدر اللہ چاہتا آپ اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1883(719)
حضرت عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے نبی ﷺ کے متعلق پوچھا کہ آیا آپ نماز اشراق پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا:
جب آپ سفر سے واپس آتے تو اشراق پڑھ کر گھر آتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1660(717)
حضرت ام ذرہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ کو دیکھا کہ وہ نماز اشراق پڑھتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے نماز اشراق کی چار رکعات پڑھتے دیکھا ہے۔
(مسند أحمد: 108/8)
روایات سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نماز اشراق بڑے اہتمام سے ادا کرتیں اور فرمایا کرتی تھیں:
اگر میرے والدین بھی زندہ ہو کر آ جائیں تب بھی میں نماز اشراق نہیں چھوڑوں گی۔
(الموطأ للإمام مالك، باب صلاة الضحیٰ: 52/1، 53) (3)
نماز اشراق کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اے ابن آدم! تو میرے لیے چار رکعت (اشراق کی)
اول دن میں پڑھ، میں اس دن کی شام تک تیرے کام سنوار دوں گا۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1289)
امام نووی ؒ نے اپنی شرح صحیح مسلم میں نماز اشراق کی احادیث کے پیش نظر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
نماز اشراق کے استحباب کا بیان، اس کی کم از کم دو رکعات اور مکمل آٹھ رکعات ہیں، درمیانے درجے کی چار یا چھ رکعات ادا کرنا اور شوق سے اس کی پابندی کا بیان چونکہ حضرت عائشہ ؓ سے نماز اشراق کے متعلق مختلف روایات مروی ہیں، اس لیے جمع کی صورت یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی نفی سے مراد دوام ہے اور وہ خود اس کی پابندی کرتی تھیں۔
اس کی وجہ بھی انہوں نے خود بیان کر دی ہے کہ آپ اس لیے پابندی نہیں کرتے تھے کہ مبادا فرض ہو جائے۔
(فتح الباري: 73/3)
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1177   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.