الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيفه همام بن منبه کل احادیث 139 :حدیث نمبر
صحيفه همام بن منبه
متفرق
विभिन्न हदीसें
22. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، اللہ کی اطاعت
२२. “ रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की इताअत यानि अल्लाह की इताअत ”
حدیث نمبر: 22
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اطاعني فقد اطاع الله، ومن يعصني فقد عصى الله، ومن يطع الامير فقد اطاعني، ومن يعص الامير فقد عصاني"((حديث مرفوع) (حديث موقوف)) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ يَعْصِنِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمَنْ يُطِعِ الأَمِيرَ فَقَدْ أَطَاعَنِي، وَمَنْ يَعْصِ الأَمِيرَ فَقَدْ عَصَانِي"
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور جس نے (میرے مقرر کیے ہوئے) امیر کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔
रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जिस ने मेरी आज्ञा का पालन किया तो उस ने अल्लाह की आज्ञा का पालन किया, और जिस ने मेरी आज्ञा न मानी तो उस ने अल्लाह तआला की आज्ञा न मानी, और जिस ने (मेरे बनाए हुए) अमीर की आज्ञा का पालन किया तो उस ने मेरी आज्ञा का पालन किया और जिस ने अमीर की आज्ञा न मानी तो उस ने मेरी आज्ञा न मानी।”

تخریج الحدیث: «صحيح مسلم، كتاب الامارة، رقم: 4752، حدثنا محمد بن رافع: حدثنا عبدالرزاق: حدثنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبى هريرة، عن النبى صلى الله عليه وسلم.... - صحيح بخاري، كتاب الجهاد، رقم: 2957، وكتاب الأحكام، رقم: 7137 - مسند أحمد: 39/16، 40، رقم: 20/8119 - شرح السنة: 41/10، رقم: 2651.»

   صحيح البخاري2957عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقى به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن قال بغيره فإن عليه منه
   صحيح البخاري7137عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني
   صحيح مسلم4747عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن يعصني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني
   صحيح مسلم4749عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني
   سنن النسائى الصغرى4198عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع أميري فقد أطاعني ومن عصى أميري فقد عصاني
   سنن ابن ماجه2859عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ومن أطاع الإمام فقد أطاعني ومن عصى الإمام فقد عصاني
   سنن ابن ماجه3عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله
   صحيفة همام بن منبه22عبد الرحمن بن صخرمن أطاعني فقد أطاع الله ومن يعصني فقد عصى الله ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عبدالله شميم حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيفه همام بن منبه   22  
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، اللہ کی اطاعت`
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور جس نے (میرے مقرر کیے ہوئے) امیر کی اطاعت کی گویا اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ [صحيفه همام بن منبه/متفرق/حدیث: 22]
شرح الحديث:
جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے الله کی اطاعت کی:
یقیناً رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا یہ فرمان قرآن مجید کی اس آیت کے عین مطابق ہے: «مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهُ» [النساء: 80]
"جس شخص نے رسول کی اطاعت کی درحقیقت اس نے الله کی اطاعت کی۔ "
اسی طرح معصیت کے متعلق بھی......آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: «وَمَنْ يَّعْصِنِىْ فَقَدْ عَصَى اللهَ» "اور جس نے میری نافرمانی کی، درحقیقت اس نے الله کی نافرمانی کی۔ "
اس حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی اہمیت بیان کی گئی ہے، لہذا کوئی شخص رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کرکے الله کا فرمانبردار نہیں بن سکتا۔ اور نہ ہی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی کرکے الله کی بندگی ہو سکتی ہے۔
«وَمَنْ يُّطِعِ الْأَمِيْرَ فَقَدْ أَطَاعَنِيْ، وَمَنْ يَعْصِ الْأَمِيْرَ فَقَدْ عَصَانِيْ .»
"اور جس شخص نے امیر کی اطاعت کی درحقیقت اس نے میری اطاعت کی، اور جس شخص نے امیر کی نافرمانی کی درحقیقت اس نے میری نافرمانی کی۔ "
حدیث کے اس جزء میں امیر کی اطاعت کی اہمیت بیان کی گئی ہے، اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امیر کی اطاعت کو واضح کرتے ہوئے، سیدنا ابوذر رضی الله عنہ سے فرمایا کہ امیر کی اطاعت کرو اگرچہ وہ غلام، حبشی اور ناک کٹا ہی کیوں نہ ہو۔ [صحيح مسلم، كتاب الامارة، رقم: 4755]
لیکن اگر امیر کا حکم قرآن و حدیث کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث پر عمل کرنا ہوگا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا» [النساء: 59]
"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو الله تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی الله علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، الله تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں الله تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ "
اس آیت میں الله تعالیٰ نے رعایا کو، چاہے وہ فوج کے افراد ہوں، یا عام لوگ، انہیں اپنی، اپنے رسول اور مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے، الا یہ کہ حکام الله کی نافرمانی کا حکم دیں، تو ان کی بات نہیں مانی جائے گی؟ اس لیے شرعی قانون ہے کہ: «لَا طَاعَةِ لِمَخْلُوْقٍ فِىْ مَعْصِيَتِ الْخَالِقْ» [ارشاد السارى: 216/10]
"جہاں خالق کی نافرمانی ہو رہی ہو، وہاں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ "
امام بخاری رحمة الله علیه نے ابن عباس رضی الله عنہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت عبد الله بن حذافہ بن قیس بن عدی کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے انہیں اہم مہم پر بطور امیر کے روانہ کیا تھا۔ [صحيح بخاري، كتاب التفسير، رقم: 4584]
سيدنا علی رضی الله عنہ بیان كرتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک دستہ بھیجا اور اس پر انصار کے ایک شخص کو امیر بنایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ ان کی اطاعت کریں۔ پھر امیر فوج کے لوگوں پر غصہ ہوئے اور کہا کہ کیا نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ضرور دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ لکڑی جمع کرو اور اس سے آگ جلاؤ اور اس میں کود پڑو۔ لوگوں نے لکڑی جمع کی اور آگ جلائی، جب کودنا چاہا تو ایک دوسرے کو لوگ دیکھنے لگے اور ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی فرمانبرداری آگ سے بچنے کے لیے کی تھی، کیا پھر ہم اس میں خود ہی داخل ہو جائیں۔ اسی دوران میں آگ ٹھنڈی ہو گئی اور امیر کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود پڑتے تو پھر اس میں سے نہ نکل سکتے۔ اطاعت صرف اچھی باتوں میں ہے۔ [صحيح بخاري، كتاب الاحكام، رقم: 7145]
مزید برآں امام بخاری رحمة الله علیه نے اپنی صحیح، کتاب الجہاد والسیر، اور "کتاب الأحکام" میں باب قائم کیا ہے: «بَابُ السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ لِلْاِمَامِ مَالَمْ تَكُنْ مَعْصِيَةً» "باب، امام اور بادشاہ اسلام کی بات سننا اور ماننا واجب ہے جب تک وہ خلاف شرع اور گناہ کی بات کا حکم نہ دے۔ "
اور اس کے تحت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیث لائے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ» [صحيح بخاري، رقم: 2955، 7144]
مسلمان کے لیے امیر کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے، ان چیزوں میں بھی جنہیں وہ پسند کرے اور ان میں بھی جنہیں وہ ناپسند کرے، جب تک اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ پھر جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو نہ سننا باقی رہتا ہے نہ اطاعت کرنا۔
   صحیفہ ہمام بن منبہ شرح حافظ عبداللہ شمیم، حدیث\صفحہ نمبر: 22   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3  
´اتباع سنت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 3]
اردو حاشہ:
(1)
یہ مسئلہ قرآن مجید میں بھی ان الفاظ میں بیان ہوا ہے:
﴿مَّن يُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾  (النساء: 80)
جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے (اصل میں) اللہ کی اطاعت کی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کے احکام اپنی رائے اور پسند کے مطابق نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے مطابق بیان فرماتے تھے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ،  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾ (النجم: 4,3)
 وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے، بلکہ وہ تو وحی ہے جو (ان پر) نازل کی جاتی ہے۔
  یہی وجہ ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان احکام پر اسی طرح عمل کرتے تھے۔
جس طرح دوسرے مومنین، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو عام مومنوں سے کہیں زیادہ تقویٰ اور عمل صالح کا اسوہ حسنہ پیش فرماتے تھے۔

(2)
قرآن مجید، فرامین نبوی اور صحابہ و تابعین کرام کے اقوال، سنت نبوی کی پیروی اور اتباع کو لازم ٹھہراتے ہیں۔
اس سلسلے میں چند فرامین درج ذیل ہیں:

(ا)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لوگو! اصحاب الرائے سے بچو، کیونکہ وہ سنت کے دشمن ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کو حفظ کرنے سے عاجز آ گئے تو انہوں نے اپنی رائے سے مسائل بیان کرنے شروع کر دیے۔
اس طرح خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
دیکھئے: (مفتاح الجنة في الإحتجاج بالسنة، ص: 47)

(ب)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ کو عصر کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:
مت پڑھا کرو۔
وہ کہنے لگے:
میں تو پڑھوں گا۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نماز سے منع کیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ تمہیں ان دو رکعتوں پر ثواب کی بجائے سزا ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ﴾ (الأحزاب: 36)
کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی حکم مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ (سنن الدارمي، المقدمة، باب ما يتقي من تفسير حديث النبي صلي الله عليه وسلم وقول غيره عند قوله صلي الله عليه وسلم، حديث: 438)

(ج)
حضرت ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب تو کسی شخص کو سنت نبوی کی تعلیم دے اور وہ کہے:
سنت نبوی کو چھوڑیے قرآن سے تعلیم دیں۔
تو جان لو ایسا شخص گمراہ ہے۔ دیکھیے: (مفتاح الجنة، ص: 35)

(د)
امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شخص کو فرمان نبوی سنایا تو وہ کہنے لگا:
فلاں فلاں شخص تو ایسے ایسے کہتے ہیں۔
امام صاحب کہتے ہیں:
میں تجھے فرمان نبوی سناتا ہوں اور تو مجھے لوگوں کی آراء سناتا ہے؟ جا! آج کے بعد میں تیرے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ دیکھیے: (إيقاظ الهمة لإتباع نبي الأمة، ص: 123)
اسلاف کے اس طرز عمل سے ثابت ہوا کہ ائمہ کی تقلید اور لوگوں کی آراء کی پیروی قطعاً درست اور جائز نہیں۔

(3)
علامہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(وَالتَّقْلِيْدُ قَبُولُ قَوْلِ الْغَيْرِ بِلَا دَلِيْلٍ فَكَأَنَّه لِقَبُولِهِ جَعَلَهُ قلَادَةً فِي عُنُقِهِ) (شرح قصيدة أمالي، ص: 34)
کسی دوسرے کی بات بغیر دلیل کے قبول کرنا تقلید ہے۔
گویا کہ مقلد شخص نے امام کے قول کو قبول کر کے گلے کا ہار بنا لیا ہے۔

(4)
تقلید کی ابتدا خیرالقروں کے بعد چوتھی صدی ہجری میں ہوئی۔
اس سے پہلے یہ بدعت موجود نہ تھی بلکہ صحابہ کرام، تابعین کرام اور ان کے شاگرد قرآن و سنت کی پیروی ہی کو واجب سمجھتے تھے۔
شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(إِعْلَمْ اَنَّ النَّاسّ كَانُوا قَبْلَ الْمِائَةِ الرَّابِعَةِ غَيْرُ مُجْمَعِيْنَ عَلَي التَّقْلِيدِ الْخَالِصِ لِمَذْهَبٍ وَّاحِدٍ)
 جان لو کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی ایک خالص مذہب کی تقلید پر متفق نہ تھے. (حجة الله البالغة، ص: 157)

(5)
تقلید کے رد میں صحابہ کرام اور ائمہ مذاہب کے فرامین ملاحظہ ہوں:

(ا)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی روح قبض کی نہ ان سے وحی منقطع کی حتیٰ کہ ان کی امت کو لوگوں کی آراء سے بے پروا فرما دیا۔ دیکھیے (حقیقة الفقة، ص: 75)

(ب)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں آتا کہ وہ تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے یا تمہیں زمین میں دھنسا دے، تم کہتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے فرمایا تھا اور فلاں شخص نے یوں فرمایا ہے، یعنی فرمان نبوی کے مقابلے میں کسی شخص کی رائے کو پیش کرنا عذاب الہی کو دعوت دینا ہے۔ (حقیقة الفقة، ص: 76)

(ج)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
تم میں سے کوئی شخص دین کے بارے میں کسی کی تقلید نہ کرے کہ اگر وہ (متبوع) مومن رہا تو اس کا مومن بھی مقلد رہے گا اور اگر وہ کافر ہوا تو اس کا مقلد بھی کافر ہو جائے گا۔
اس اعتبار سے یہ تقلید بلاشبہ برائی میں اُسوہ ہے۔ (الإِیْقَاظُ لهمم أُولِي الأَبْصَارِ)  أَعَاذَنَااللهُ مِنْهُ.
(د)
حضرت عبداللہ بن معتمر کہتے ہیں:
(لَا فَرقَ بَيْنَ بَهِيْمَةٍ تَنْقَادُ وُإنْسَانٍ يُقَلِّدُ)
مقلد شخص اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ (حقیقة الفقة، ص: 78)

(ہ)
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(لَا تُقَلِّدْنِي وَلَا تُقَلِّدَنَّ مَالِكاً وَّلَا غَيْرَهُ وَخُذِالَأحْكَامَ مِنْ حَيْثُ أَخَذُوْا مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ) (حقيقة الفقة‘ ص: 90)
 میری تقلید نہ کرنا، نہ مالک کی، نہ کسی اور کی تقلید کرنا۔
احکام کو وہاں سے حاصل کرو جہاں سے انہوں نے حاصل کیے ہیں یعنی کتاب و سنت سے۔
نیز فرمایا:
کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ میری دلیل سے واقف ہوئے بغیر میرے کلام کا فتویٰ دے۔ (حقیقة الفقة، ص: 88)

(ر)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ہر شخص کی بات قبول بھی کی جا سکتی ہے اور رد بھی، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے (وہ واجب الإتباع ہے۔)

(ز)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب تم دیکھو کہ میرا قول حدیث نبوی کے خلاف ہے تو حدیث نبوی پر عمل کرو اور میرے قول کو دیوار پر دے مارو۔
نیز فرمایا:
(إِذَا صَحَّ الْحَدِيْثُ فَهُوَ مَذْهَبِي) (عِقْدُ الْجِيْدِ وَ حُجَّةُ اللهِ الْبَالِغَة: 1؍157)
 جب صحیح حدیث مل جائے تو میرا مذہب وہی ہے۔

(ح)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
کسی کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کلام کی گنجائش نہیں۔ (کتاب و سنت کے ہوتے ہوئے کسی کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں۔)

(ط)
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(هَل يُقَلِّدُ اِلَّا عَصِيٌّ)
تقلید نافرمان ہی کرتا ہے۔

(ی)
علامہ جاراللہ حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
(إِنْ كَانَ لِضَلاَلٍ اُمٌّ فَالتَّقْلِيْدُ اُمُّهُ)
 اگر گمراہی کی کوئی ماں ہوتی تو وہ تقلید ہی ہوتی۔ (حقیقة الفقة، ص: 58، 51)
ائمہ سلف کے مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ گمراہی کا اصل اور اس کی جڑ تقلید ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اتباع سنت کی توفیق عطا فرمائے اور تقلید سے نجات دے۔
آمین
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.