ہم سے محمد بن العلاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے، وہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگایا جس میں پانی تھا۔ پھر اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھویا اور اسی میں کلی کی۔
ألا تنجز لي يا محمد ما وعدتني فقال له رسول الله أبشر فقال له الأعرابي أكثرت علي من أبشر فأقبل رسول الله على أبي موسى وبلال كهيئة الغضبان فقال إن هذا قد رد البشرى فاقبلا أنتما فقالا قبلنا يا رسول الله قال فدعا رسول الله بقدح فيه ماء فغسل يديه ووجهه ومج فيه
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 196
´لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں` «. . . عَنْ أَبِي مُوسَى، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِقَدَحٍ فِيهِ مَاءٌ فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ فِيهِ وَمَجَّ فِيهِ " . . . .» ”. . . ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگایا جس میں پانی تھا۔ پھر اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھویا اور اسی میں کلی کی۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ فِي الْمِخْضَبِ وَالْقَدَحِ وَالْخَشَبِ وَالْحِجَارَةِ:: 196]
تشریح: گو اس حدیث میں وضو کرنے کا ذکر نہیں۔ مگر منہ ہاتھ دھونے کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا ہی وضو کیا تھا اور راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ باب کا مطلب نکلنا ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 196
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:196
196. حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک بڑا پیالہ منگوایا جس میں پانی تھا۔ آپ نے اس میں ہاتھ منہ دھوئے اور اس میں کلی فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:196]
حدیث حاشیہ: اس روایت میں ”قدح“ کا ذکر ہے جو لکڑی کے بنے ہوئے پیالے کو کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں دست مبارک اور چہرے کو دھویا اور کلی کی۔ اگرچہ اس حدیث میں وضو کا ذکر نہیں، تاہم ہاتھ منہ دھونا اور کلی کرنا وضو کے اعمال ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ نے مکمل وضو کیا ہو، لیکن راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ بہرحال امام بخاری ؒ اس روایت سے قدح میں وضو کرنا ثابت کرتے ہیں۔ اس لیے نوعیت اور مادہ دونوں چیزوں پر اس روایت سے استدلال ہو گیا۔ یہ روایت پہلے بھی گزر چکی ہے، اس سے متعلقہ فوائد حدیث: 188 میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 196