حدثنا محمد بن رافع، حدثنا سريج بن النعمان، حدثنا فليح، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" خرج معتمرا، فحال كفار قريش بينه وبين البيت، فنحر هديه، وحلق راسه بالحديبية، وقاضاهم على ان يعتمر العام المقبل، ولا يحمل سلاحا عليهم إلا سيوفا، ولا يقيم بها إلا ما احبوا، فاعتمر من العام المقبل فدخلها كما كان صالحهم، فلما اقام بها ثلاثا امروه ان يخرج، فخرج".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَرَجَ مُعْتَمِرًا، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ بِالْحُدَيْبِيَةِ، وَقَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يَعْتَمِرَ الْعَامَ الْمُقْبِلَ، وَلَا يَحْمِلَ سِلَاحًا عَلَيْهِمْ إِلَّا سُيُوفًا، وَلَا يُقِيمَ بِهَا إِلَّا مَا أَحَبُّوا، فَاعْتَمَرَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَدَخَلَهَا كَمَا كَانَ صَالَحَهُمْ، فَلَمَّا أَقَامَ بِهَا ثَلَاثًا أَمَرُوهُ أَنْ يَخْرُجَ، فَخَرَجَ".
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن نعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے، تو کفار قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ جانے سے روک دیا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا جانور حدیبیہ میں ذبح کر دیا اور سر بھی وہیں منڈوا لیا اور کفار مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال عمرہ کر سکیں گے۔ تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے۔ (اور وہ بھی نیام میں ہوں گی) اور قریش جتنے دن چاہیں گے اس سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہر سکیں گے۔ (یعنی تین دن) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال عمرہ کیا اور شرائط کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے، پھر جب تین دن گزر چکے تو قریش نے مکے سے چلے جانے کے لیے کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس چلے آئے۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle set out for the `Umra but the pagans of Quraish prevented him from reaching the Ka`ba. So, he slaughtered his sacrifice and got his head shaved at Al-Hudaibiya, and agreed with them that he would perform `Umra the following year and would not carry weapons except swords and would not stay in Mecca except for the period they allowed. So, the Prophet performed the `Umra in the following year and entered Mecca according to the treaty, and when he stayed for three days, the pagans ordered him to depart, and he departed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 864
خرج معتمرا فحال كفار قريش بينه وبين البيت فنحر هديه وحلق رأسه بالحديبية وقاضاهم على أن يعتمر العام المقبل ولا يحمل سلاحا عليهم إلا سيوفا ولا يقيم بها إلا ما أحبوا فاعتمر من العام المقبل فدخلها كما كان صالحهم فلما أن أقام بها ثلاثا أمروه أن يخرج فخرج
خرج معتمرا فحال كفار قريش بينه وبين البيت فنحر هديه وحلق رأسه بالحديبية وقاضاهم على أن يعتمر العام المقبل ولا يحمل سلاحا عليهم إلا سيوفا ولا يقيم بها إلا ما أحبوا فاعتمر من العام المقبل فدخلها كما كان صالحهم فلما أقام بها ثلاثا أمروه أن يخرج فخرج
إن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله وأنا معه حين حالت كفار قريش بينه وبين البيت أشهدكم أني قد أوجبت عمرة فانطلق حتى أتى ذا الحليفة فلبى بالعمرة ثم قال إن خلي سبيلي قضيت عمرتي وإن حيل بيني وبينه فعلت كما فعل رسول الله وأنا معه ثم تلا لقد كان لكم في رس
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 632
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان` سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قربانی حجامت کرانے سے پہلے کی اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری)[بلوغ المرام/حدیث: 632]
632راوئ حدیث: حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ مسور کے ”میم“ کے نیچے کسرہ ”سین“ ساکن اور ”واو“ پر فتحہ ہے۔ مخرمہ میں ”میم“ پر فتحہ ”خا“ ساکن اور ”را“ پر فتحہ ہے۔ زہری قرشی ہیں۔ صاحب فضل لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مکہ منتقل ہو گئے۔ یزید بن معاویہ نے جب 64 ہجری کے آغاز میں مکے کا محاصرہ کیا تو اس وقت نماز پڑھتے ہوئے انہیں منجنیق کا پتھر آ کر لگا اور وہ وفات پا گئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 632
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2701
2701. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے اس لیے آپ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہی اپنی قربانی کو ذبح کیا، اپنا سر مبارک بھی حدیبیہ میں منڈایا اور مشرکین قریش سے اس بات پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے اور ان پر ہتھیار اٹھا کر نہیں چلیں گے، البتہ تلواریں نیام میں لے کرآسکیں گے، نیز مکہ معظمہ میں جب تک کفار پسند کریں آپ قیام فرمائیں گے، چنانچہ آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور حسب شرائط صلح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن مکہ میں ٹھہر چکے تو انھوں نے مکہ سے چلے جانے کو کہا، لہذا آپ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2701]
حدیث حاشیہ: اگرچہ مشرکین کی یہ شرطیں بالکل نامناسب تھیں، مگر رحمۃ للعالمین ﷺ نے بہت سے مصالح کے پیش نظر ان کو تسلیم فرمالیا۔ پس مصلحتاً دب کر صلح کرلینا بھی بعض مواقع پر ضروری ہوجاتا ہے۔ اسلام سراسر صلح کا حامی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص فساد کو مٹانے کے لیے اپنا حق چھوڑ کر بھی صلح کرلے، اللہ اس سے بہت ہی بہتر اجر عطا کرتا ہے۔ حضرت حسن ؓ اور حضرت امیر معاوریہ ؓ کی صلح بھی اسی قسم کی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2701
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2701
2701. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے تو کفار قریش آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان حائل ہوگئے اس لیے آپ ﷺ نے حدیبیہ کے مقام پر ہی اپنی قربانی کو ذبح کیا، اپنا سر مبارک بھی حدیبیہ میں منڈایا اور مشرکین قریش سے اس بات پر صلح کرلی کہ آپ آئندہ سال عمرہ کریں گے اور ان پر ہتھیار اٹھا کر نہیں چلیں گے، البتہ تلواریں نیام میں لے کرآسکیں گے، نیز مکہ معظمہ میں جب تک کفار پسند کریں آپ قیام فرمائیں گے، چنانچہ آپ نے آئندہ سال عمرہ کیا اور حسب شرائط صلح مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے۔ جب تین دن مکہ میں ٹھہر چکے تو انھوں نے مکہ سے چلے جانے کو کہا، لہذا آپ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2701]
حدیث حاشیہ: (1) معلوم ہوا کہ دیت دے کر صلح کرنا جائز ہے۔ ربیع ؓ حضرت انس بن مالک ؓ کی پھوپھی تھیں اور انس بن نضر ؓ ان کے چچا ہیں۔ (2) حضرت انس بن نضر نے شرعی حکم کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے خیال کیا کہ شاید دیت او قصاص میں اختیار ہے، ان میں جو بھی ادا کر دیا جائے جائز ہے۔ انہیں قصاص کی تعیین کا علم نہیں تھا جبکہ قرآن مجید میں ہے: (وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ) ”دانت کے بدلے دانت (توڑا جائے۔ “)(المائدة: 45: 5) اس کا ایک خوبصورت جواب یہ بھی ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ نے لا تكسر کے الفاظ سے حکم الٰہی کو رَد نہیں کیا تھا بلکہ اللہ کے فضل پر پختہ یقین کرتے ہوئے اس کے عدم وقوع کی خبر دی تھی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتماد و یقین کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اس بات کی گواہی دی کہ بعض مخلص بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ ان کی کہی ہوئی بات کو پورا کرتا ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت سے تطبیق کی صورت ذکر کی ہے کہ ان لوگوں نے قصاص معاف کر کے دیت قبول کر لی، مطلق معافی مراد نہیں ہے۔ امام بخاری ؒ نے فزاری کی روایت کو خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4611)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2701