حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن يحيى بن سعيد الانصاري، قال: حدثني ابو صالح، قال: سمعت ابا هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لولا ان اشق على امتي ما تخلفت عن سرية ولكن لا اجد حمولة، ولا اجد ما احملهم عليه ويشق علي ان يتخلفوا عني ولوددت اني قاتلت في سبيل الله، فقتلت، ثم احييت، ثم قتلت، ثم احييت".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي مَا تَخَلَّفْتُ عَنْ سَرِيَّةٍ وَلَكِنْ لَا أَجِدُ حَمُولَةً، وَلَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُهُمْ عَلَيْهِ وَيَشُقُّ عَلَيَّ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنِّي وَلَوَدِدْتُ أَنِّي قَاتَلْتُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقُتِلْتُ، ثُمَّ أُحْيِيتُ، ثُمَّ قُتِلْتُ، ثُمَّ أُحْيِيتُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوصالح نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر میری امت پر یہ امر مشکل نہ گزرتا تو میں کسی سریہ (یعنی مجاہدین کا ایک چھوٹا سا دستہ جس کی تعداد زیادہ سے زیادہ چالیس ہو) کی شرکت بھی نہ چھوڑتا۔ لیکن میرے پاس سواری کے اتنے اونٹ نہیں ہیں کہ میں ان کو سوار کر کے ساتھ لے چلوں اور یہ مجھ پر بہت مشکل ہے کہ میرے ساتھی مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ میری تو یہ خوشی ہے کہ اللہ کے راستے میں میں جہاد کروں، اور شہید کیا جاؤں۔ پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں اور پھر زندہ کیا جاؤں۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Were it not for the fear that it would be difficult for my followers, I would not have remained behind any Sariya, (army-unit) but I don't have riding camels and have no other means of conveyance to carry them on, and it is hard for me that my companions should remain behind me. No doubt I wish I could fight in Allah's Cause and be martyred and come to life again to be martyred and come to life once more."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 216
لولا أن أشق على أمتي ما تخلفت عن سرية ولكن لا أجد حمولة ولا أجد ما أحملهم عليه ويشق علي أن يتخلفوا عني ولوددت أني قاتلت في سبيل الله فقتلت ثم أحييت ثم قتلت ثم أحييت
لولا أن رجالا من المؤمنين لا تطيب أنفسهم أن يتخلفوا عني ولا أجد ما أحملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله والذي نفسي بيده لوددت أني أقتل في سبيل الله ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل
لولا أن رجالا من المؤمنين لا تطيب أنفسهم بأن يتخلفوا عني ولا أجد ما أحملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله والذي نفسي بيده لوددت أني أقتل في سبيل الله ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل
لولا أن رجالا من المؤمنين لا تطيب أنفسهم أن يتخلفوا عني ولا أجد ما أحملهم عليه ما تخلفت عن سرية تغزو في سبيل الله والذي نفسي بيده لوددت أفني أقتل في سبيل الله ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل ثم أحيا ثم أقتل
لولا أن أشق على أمتي لم أتخلف عن سرية ولكن لا يجدون حمولة ولا أجد ما أحملهم عليه ويشق عليهم أن يتخلفوا عني ولوددت أني قتلت في سبيل الله ثم أحييت ثم قتلت ثم أحييت ثم قتلت ثلاثا
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 557
´شہادت کی آرزو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے` «. . . 506- مالك عن يحيى بن سعيد عن أبى صالح السمان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لولا أن أشق على أمتي، لأحببت أن لا أتخلف عن سرية تخرج فى سبيل الله، ولكن لا أجد ما أحملهم عليه، ولا يجدون ما يتحملون عليه فيخرجون، ويشق عليهم أن يتخلفوا بعدي، فوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل. . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو مجھے یہ پسند تھا کہ میں کسی جہادی دستے سے پیچھے نہ رہوں جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے لیکن میرے پاس تمہاری سواری کے لئے کوئی چیز نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس سواریاں ہیں تاکہ وہ (اللہ کے راستے میں) نکلیں اور لوگوں کو اس میں تکلیف ہو گی کہ وہ مجھ سے پیچھے رہ جائیں۔ پس میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں تو قتل کیا جاؤں۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 557]
تخریج الحدیث: [وأخرجه النسائي فى الكبريٰ 5/ 259 ح8835، من حديث مالك به ورواه البخاري 2972، ومسلم 6/ 2876، من حديث يحييٰ بن سعيد الانصاري به وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: ”وَلٰكِنِّيْ“]
تفقه: ➊ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا بہت افضل عمل ہے۔ ➋ شرعی عذر کے بغیر کمانڈر کو خود میدانِ جنگ سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔ ➌ یہ ممکن ہے کہ اللہ کا رسول اور نبی میدانِ جنگ وغیرہ میں شہید ہوجائے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أشد الناس عذابًا یوم القیامة رجل قتله نبي أو قتل نبیًا وإمام ضلالة وممثل من الممثلین۔» قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس کو ہوگا: جسے کسی نبی نے قتل کیا یا جس نے کسی نبی کو قتل کیا اور گمراہی کا امام اور مجسمہ یا تصویر بنانے والا۔ [مسند أحمد 1 / 407 ح3868 وسنده حسن] ➍ یہ کہنا بلا دلیل اور قرآن وحدیث کے خلاف ہے کہ نبی اور رسول قتل نہیں ہوسکتے۔ ➎ جہاد کے لئے اپنا مال خرچ کرنا چاہئے تاکہ صحیح العقیدہ مجاہدین اس سے سواریاں اور سامانِ جہاد خرید سکیں۔ ➎ جہاد قیامت تک حتی الوسع جاری رہے گا۔ ➐ اس حدیث میں شہادت فی سبیل اللہ کی فضیلت اور اس کی تمنا کی ترغیب ہے۔ نیز دیکھئے: [حديث:الموطأ 215، البخاري 2849، ومسلم 96/1871]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 506
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 556
´شہادت کی آرزو سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے` «. . . 347- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”والذي نفسي بيده، لوددت أني أقاتل فى سبيل الله فأقتل، ثم أحيا فأقتل، ثم أحيا فأقتل، فكان أبو هريرة يقول ثلاثا: أشهد بالله. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں چاہتا ہوں کہ اللہ کے راستے میں قتال کروں پھر مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں (تو قتال کروں) پھر قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر قتل کیا جاؤں پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تین دفعہ فرماتے: میں اللہ (کی قسم) کے ساتھ گواہی دیتا ہوں۔“ . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 556]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7227، من حديث مالك، ومسلم 106/1876، من حديث ابي الزناد به] تفقه: ➊ جہاد اس قدر افضل اور عظیم الشان رکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حتی الوسع ہر جہاد میں بذاتِ خود شامل ہوتے تھے۔ ➋ میدانِ جنگ وغیرہ میں نبی اور رسول قتل یعنی شہید ہوسکتا ہے۔ ➌ سچی قسم کھانا ہر وقت جائز ہے۔ ➍ ہر وقت دل میں شہادت کی تمنا سجائے رکھنا اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔ نیز دیکھئے [الموطأ حديث: 346]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 347
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2972
2972. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر میں اپنی امت پر مشکل اور دشوار نہ سمجھتا تو میں کسی بھی چھوٹے سے چھوٹےلشکر سے پیچھے نہ رہتا لیکن میرے پاس اتنی سواریاں نہیں ہیں کہ میں ان کو دے سکوں اور نہ میرے پاس اتنے وسائل ہی ہیں کہ میں انھیں عاریتاً سواریاں مہیا کر سکوں۔ اس کے باوجود ان کا جہاد سے پیچھے رہ جانا بھی مجھ پر بہت گراں ہے۔ میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں اور قتل ہو جاؤں، پھر زندہ کردیا جاؤں، پھر قتل ہو جاؤں، پھر زندہ کر دیا جاؤں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2972]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے مقصود "حملان في سبیل اللہ" کا ثبوت مہیا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مجاہد کو بطورتعاون کوئی سواری مہیا کردی جائے یا اسے ادھار دے دی جائے۔ ایساکرنا جائزہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے متعلق اپنے ارادے کا اظہار کیاتھا۔ 2۔ جہاد کا حکم تو سب کے لیے برابر ہے،کسی معقول عذر کے بغیر اس سے علیحدگی اختیار کرنا جائز نہیں، البتہ یہ صورت اس سے الگ ہے کہ کسی پر جہادفرض نہ ہو اوروہ جہاد میں جانے والے کی مدد کرے ثواب میں شریک ہوجائے، ہاں جہاد میں شرکت سے بچنے کے لیے اگرایسا کرتا ہے تو جائز نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2972