Narrated 'Aisha: (the mother of the faithful believers) The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Apostle was in the form of good dreams which came true like bright daylight, and then the love of seclusion was bestowed upon him. He used to go in seclusion in the cave of Hira where he used to worship (Allah alone) continuously for many days before his desire to see his family. He used to take with him the journey food for the stay and then come back to (his wife) Khadija to take his food likewise again till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him and asked him to read. The Prophet replied, "I do not know how to read." The Prophet added, "The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read and I replied, 'I do not know how to read.' Thereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read but again I replied, 'I do not know how to read (or what shall I read)?' Thereupon he caught me for the third time and pressed me, and then released me and said, 'Read in the name of your Lord, who has created (all that exists), created man from a clot. Read! And your Lord is the Most Generous." (96.1, 96.2, 96.3) Then Allah's Apostle returned with the Inspiration and with his heart beating severely. Then he went to Khadija bint Khuwailid and said, "Cover me! Cover me!" They covered him till his fear was over and after that he told her everything that had happened and said, "I fear that something may happen to me." Khadija replied, "Never! By Allah, Allah will never disgrace you. You keep good relations with your kith and kin, help the poor and the destitute, serve your guests generously and assist the deserving calamity-afflicted ones." Khadija then accompanied him to her cousin Waraqa bin Naufal bin Asad bin 'Abdul 'Uzza, who, during the pre-Islamic Period became a Christian and used to write the writing with Hebrew letters. He would write from the Gospel in Hebrew as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to Waraqa, "Listen to the story of your nephew, O my cousin!" Waraqa asked, "O my nephew! What have you seen?" Allah's Apostle described whatever he had seen. Waraqa said, "This is the same one who keeps the secrets (angel Gabriel) whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out." Allah's Apostle asked, "Will they drive me out?" Waraqa replied in the affirmative and said, "Anyone (man) who came with something similar to what you have brought was treated with hostility; and if I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly." But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 1, Number 3
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3
´ وحی کی ابتداء `
«. . . عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ . . .»
”. . . وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا . . .“ [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ/(بَابٌ:): 3]
لغوی توضیح:
«مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ» صبح کی روشنی کی مانند۔
«غَارِ حِرَاءٍ» حراء پہاڑ مکہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں ایک سوراخ ہے جسے غار حراء کہا جاتا ہے۔
«يَتَزَوَّدُ» زاد راہ یعنی توشہ لینا۔
«جَاءَهُ الْحَقُّ» حتی کہ آپ کے پاس حق یعنی وحی آ گئی۔
«غَطَّنِیْ» مجھے اپنے ساتھ ملا کر خوب زور سے دبایا۔
«الْعَلَقَ» جامد خون۔
«یَرجُفُ» کانپ رہا تھا۔
«زَمُّلُوْنِیْ» مجھے چادر اوڑھا دو۔
«الرَّوْعُ» گھبراہٹ۔
«تَحْمِلُ الْکَلَّ» بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
«تَکْسِبُ الْمَعْدُمَ» مفلس، محتاج اور کام سے عاجز لاگوں کو کما کر دیتے ہیں۔
«تَقْرِِئ الضَّیْفَ» مہمان نوازی کرتے ہیں۔
«تَنَصَّرَ» عیسائی مذہب قبول کر لیا۔
«النَّامُوْسُ» خیر کا رازداں مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں۔
«مُؤَزَّراً» قوی، شدید، زیادہ۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 99
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3
3. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں کی صورت میں ہوئی۔ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہو جاتا۔ پھر آپ کو تنہائی محبوب ہو گئی، چنانچہ آپ غار حرا میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروف عبادت رہتے۔ آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے، پھر حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ ایک روز جبکہ آپ غار حرا میں تھے، (یکایک) آپ کے پاس حق آ گیا اور ایک فرشتے نے آ کر آپ سے کہا: پڑھو! آپ نے فرمایا:”میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ آپ کا فرمان ہے: اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر خوب بھینچا، یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو! میں نے کہا: ”میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔“ اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر دبوچا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3]
حدیث حاشیہ:
1۔
اچھے اور سچے خواب نبوت کا حصہ ہیں۔
وحی الٰہی سے مشرف اور مانوس کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ عرصے تک سچے خواب دکھائے گئے، چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے عالم شہادت، یعنی دنیا میں اس کا ظہور بلا کم وکاست ہوجاتا تھا۔
اس طرح آپ کا رابطہ عالمِ مثال سے کرا دیا گیا جو عالم غیب، یعنی منبع وحی سے تعلق کا پیش خیمہ ثابت ہوا، گویا سچے خوابوں کے ذریعے حقائق نبوت سے آپ کو آگہی کرادی گئی۔
2۔
خواب میں ہم مادی امور سے ایک حد تک قطع تعلق ہوجاتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خوابوں کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیداری میں بھی خلوت گزینی محبوب بنادی، چنانچہ غارحرا کاانتخاب اسی روحانی تربیت کانتیجہ تھا۔
3۔
عرصہ وحی 23 برس پر محیط ہے۔
ان میں چھ ماہ سچے خوابوں پر مشتمل ہیں، غالباً اسی لیے حدیث میں سچے خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6989)
لیکن حصہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی آدمی محض رؤیائے صادقہ کے بل بوتے پر نبی بن جائے، جیسے اذان کے کسی کلمے کو بآواز بلند کہنے والے کو مؤذن نہیں کہا جا سکتا اسی طرح ضروری نہیں کہ ہر سچے خواب دیکھنے والا نبی ہو۔
اس کے علاوہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ نبوت ورسالت ختم ہوچکی ہے۔
میرے بعد کوئی نبی یارسول نہیں آئے گا، البتہ مبشرات، یعنی رؤیائے صادقہ باقی ہیں۔
(جامع الترمذي، الرؤیا، حدیث: 2272، ومسند الإمام احمد: 267/3 والخبر صحیح.)
اس سے معلوم ہوا کہ نبوت اور چیز ہے اور مبشرات چیزے دیگر است۔
4۔
اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں [تَصدُقُ الحَديثَ] کے الفاظ بھی ہیں، یعنی آپ گفتار میں سچے ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کے متعلق اپنے پاکیزہ خیالات کا اظہار کرکے آپ کے اخلاق فاضلہ کی بہترین تصویر کشی فرمائی ہے۔
یقیناً یہ چھ خصلتیں مکارم اخلاق کی بنیاد ہیں اور ان کا حامل انسان معاشرے میں باعزت اور اس کامستقبل انتہائی تابناک ہوتا ہے۔
5۔
ناموس وحی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دفعہ بھینچا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بھینچنے سے عموماً جذبات برانگیختہ ہوتے اورخفیہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں، غالباً اسی بنا پر آپ کو بھینچا گیا کہ آپ کے قوائے نبوت بیدار ہوجائیں اورآپ پوری یکسوئی سے وحی الٰہی کی سماعت فرمائیں۔
یا اس وجہ سے کہ سینے سے لگا کر بھینچنے سے باہم موانست پیدا ہوتی ہے اوروحشت وبیگانگی کافور ہوجاتی ہے۔
6۔
وحی کے موقوف ہونے کے زمانے میں صرف نزول قرآن موقوف ہواتھا، تاہم جبرئیل علیہ السلام کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ منقطع نہیں ہواتھا، چنانچہ جب آپ توقف وحی سے پریشان ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے بار بار تسلی دی اور آپ کو نبی برحق ہونے کا مژدہ جانفزا سنایا۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6982)
7۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ انسان جب کسی اہم حادثے سے دو چار ہوتو کسی قابل اعتماد ساتھی، خواہ وہ خاتون خانہ ہی ہو، سے اس کا ذکر کرے، اور مخلص ساتھی کو بھی چاہیے کہ وہ حوصلہ افزائی اور تسلی کا انداز اپنائے تاکہ حادثے سے دوچار شخص کے دل سے خوف اور گھبراہٹ کے اثرات دور ہوجائیں۔
علاوہ ازیں ایسے موقع پر کسی تجربہ کار اور سمجھ دابزرگ سے رابطہ کرنا مفید ہے تاکہ وہ صحیح مشورہ دے سکے۔
(فتح الباري: 1؍25)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3