Narrated Malik bin Aus bin Al-Hadathan: Once I set out to visit `Umar (bin Al-Khattab). (While I was sitting there with him his gate-keeper, Yarfa, came and said, "Uthman `AbdurRahman (bin `Auf), Az-Zubair and Sa`d (bin Abi Waqqas) are seeking permission (to meet you)." `Umar said, "Yes. So he admitted them and they entered, greeted, and sat down. After a short while Yarfa came again and said to `Umar 'Shall I admit `Ali and `Abbas?" `Umar said, "Yes." He admitted them and when they entered, they greeted and sat down. `Abbas said, "O Chief of the Believers! Judge between me and this (`Ali)." The group, `Uthman and his companions Sa`d, 'O Chief of the Believers! Judge between them and relieve one from the other." `Umar said. Wait! I beseech you by Allah, by Whose permission both the Heaven and the Earth stand fast ! Do you know that Allah's Apostle said. 'We (Apostles) do not bequeath anything to our heirs, but whatever we leave is to be given in charity.' And by that Allah's Apostles meant himself?" The group said, "He did say so." `Umar then turned towards 'All and `Abbas and said. "I beseech you both by Allah, do you know that Allah's Apostle said that?" They said, 'Yes " `Umar said, "Now, let me talk to you about this matter. Allah favored His Apostle with something of this property (war booty) which He did not give to anybody else. And Allah said:-- 'And what Allah has bestowed on His Apostle (as Fai Booty) from them for which you made no expedition with either cavalry or camelry . . . Allah is Able to do all things.' (59.6) So this property was especially granted to Allah's Apostle. But by Allah he neither withheld it from you, nor did he keep it for himself and deprive you of it, but he gave it all to you and distributed it among you till only this remained out of it. And out of this property Allah's Apostle used to provide his family with their yearly needs, and whatever remained, he would spend where Allah's Property (the revenues of Zakat) used to be spent. Allah's Apostle kept on acting like this throughout his lifetime. Now I beseech you by Allah, do you know that?" They said, "Yes." Then `Umar said to `Ali and `Abbas, "I beseech you by Allah, do you both know that?" They said, "Yes." `Umar added, "When Allah had taken His Apostle unto Him, Abu Bakr said, 'I am the successor of Allah's Apostle. So he took charge of that property and did with it the same what Allah's Apostle used to do, and both of you knew all about it then." Then `Umar turned towards `Ali and `Abbas and said, "You both claim that Abu- Bakr was so-and-so! But Allah knows that he was honest, sincere, pious and right (in that matter). Then Allah caused Abu Bakr to die, and I said, 'I am the successor of Allah's Apostle and Abu Bakr.' So I kept this property in my possession for the first two years of my rule, and I used to do the same with it as Allah's Apostle and Abu Bakr used to do. Later both of you (`Ali and `Abbas) came to me with the same claim and the same problem. (O `Abbas!) You came to me demanding your share from (the inheritance of) the son of your brother, and he (`Ali) came to me demanding his wives share from (the inheritance of) her father. So I said to you, 'If you wish I will hand over this property to you, on condition that you both promise me before Allah that you will manage it in the same way as Allah's Apostle and Abu Bakr did, and as I have done since the beginning of my rule; otherwise you should not speak to me about it.' So you both said, 'Hand over this property to us on this condition.' And on this condition I handed it over to you. I beseech you by Allah, did I hand it over to them on that condition?" The group said, "Yes." `Umar then faced `Ali and `Abbas and said, "I beseech you both by Allah, did I hand it over to you both on that condition?" They both said, "Yes." `Umar added, "Do you want me now to give a decision other than that? By Him with Whose permission (order) both the Heaven and the Earth stand fast, I will never give any decision other than that till the Hour is established! But if you are unable to manage it (that property), then return it to me and I will be sufficient for it on your behalf . "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 64, Number 271
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5358
5358. سیدنا امام ابن شہاب زہری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی جبکہ (اس سے پہلے) محمد بن جبیر بن معطم نے مجھ سے اس حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا تھا پھر میں خود سیدنا مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کی بابت پوچھا تو حضرت مالک بن اوس بن حدثان نے کہا کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس دوران میں ان کے چوکیدار جناب یرفا ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا زبیر، اور سیدنا سعد ؓ اجازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں انہیں اجازت ہے، چنانچہ انہیں اجازت دی گئی تو وہ اندر آئے اورسلام کر کے بیٹھ گئے سیدنا یرفا نے تھوڑی دیر کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس آ کر عرض کیا: سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5358]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا میں مال خمس میں سے اپنے اہل کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل منقول ہے کہ آپ اس میں سے سال بھر کا خرچہ رکھ لیا کرتے تھے۔
یہی باب اور حدیث میں مطابقت ہے۔
آخری جملہ کا مطلب یہ کہ تم چاہو کہ میں ذاتی ملک املاک کی طرح یہ جائیداد تم دونوں میں تقسیم کر دوں یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ تم سب کو خوب معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے (لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ)
ہمارا ترکہ ایک صدقہ ہوتا ہے جس کا کوئی خاص وارث نہیں ہو سکتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5358
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5358
5358. سیدنا امام ابن شہاب زہری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے مالک بن اوس بن حدثان نے خبر دی جبکہ (اس سے پہلے) محمد بن جبیر بن معطم نے مجھ سے اس حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا تھا پھر میں خود سیدنا مالک بن اوس کے پاس گیا اور ان سے اس حدیث کی بابت پوچھا تو حضرت مالک بن اوس بن حدثان نے کہا کہ میں سیدنا عمر بن خطاب ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس دوران میں ان کے چوکیدار جناب یرفا ان کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سیدنا عثمان، سیدنا عبدالرحمن، سیدنا زبیر، اور سیدنا سعد ؓ اجازت چاہتے ہیں کیا آپ انہیں اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر ؓ نے فرمایا: ہاں انہیں اجازت ہے، چنانچہ انہیں اجازت دی گئی تو وہ اندر آئے اورسلام کر کے بیٹھ گئے سیدنا یرفا نے تھوڑی دیر کے بعد سیدنا عمر بن خطاب ؓ کے پاس آ کر عرض کیا: سیدنا علی بن ابی طالب ؓ اور سیدنا عباس ؓ کو اندر آنے کی اجازت دیتے ہیں؟ سیدنا عمر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5358]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما دوبارہ اس غرض سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تھے کہ وہ جائیداد دونوں کے درمیان مشترک تھی اور شراکت کی وجہ سے آئے دن ان کے جھگڑے رہتے تھے، اس لیے ان کا مطالبہ تھا کہ یہ جائیداد ہمارے درمیان تقسیم کر دی جائے، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر تقسیم کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ اگر اسے تقسیم کر دیا گیا تو زمانہ گزرنے پر ایسا وقت بھی آ سکتا ہے کہ دونوں کی اولادیں اس جائیداد کی ملکیت کا دعویٰ کر دیں۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی اولاد کہے کہ یہ جائیداد اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی تھی، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کہے کہ یہ ہماری جدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حصہ ہے جو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تھا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اسے تقسیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ طعام کا ذخیرہ کرنا توکل کے خلاف ہے، لہذا یہ ناجائز ہے۔
جب سید المتوکلین صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل و عیال کے لیے طعام ذخیرہ کرتے تھے تو اس کے جائز ہونے میں کیا شک و شبہ ہو سکتا ہے اور ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں بلکہ یہ تو خالص ایک انتظامی معاملہ ہے جس سے گھر کا نظام چلانا مقصود ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراخدلی اور سخاوت اس حد تک تھی کہ بعض اوقات سال بھر کے لیے جمع کیا ہوا مال سال پورا ہونے سے پہلے ختم ہو جاتا کیونکہ وہ ضرورت مندوں کو دے دیتے، پھر گھر کا نظام چلانے کے لیے کسی سے ادھار لیتے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخری حصے میں ایک یہودی سے چند وسق جو لیے اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی، لیکن عمر نے وفا نہ کی، ادائیگی سے پہلے ہی آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہودی کو جو کی ادائیگی کر کے وہ زرہ واپس لی اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کی۔
صلی اللہ علیہ وسلم۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے ایک حدیث کا مطلب واضح کیا ہے، حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ کل کے لیے کوئی چیز ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔
اس عنوان کا مطلب یہ ہوا کہ اپنے علاوہ دوسروں کے لیے ذخیرہ کر لیتے تھے۔
اگرچہ اس میں آپ خود بھی شریک ہوتے لیکن اپنی ذات کے لیے کچھ بھی ذخیرہ نہ کرتے تھے۔
(فتح الباری: 624/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5358