ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ہرقل نے انہیں بلا بھیجا تو انہوں نے اسے بتایا کہ وہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز، صدقہ، پاک دامنی اور صلہ رحمی کا حکم فرماتے ہیں۔
Narrated Abu Sufyan: That Heraclius sent for him and said, "What did he, i.e. the Prophet order you?" I replied, "He orders us to offer prayers; to give alms; to be chaste; and to keep good relations with our relatives.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 10
بينا أنا بالشأم إذ جيء بكتاب من النبي إلى هرقل قال وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل قال فقال هرقل هل ها هنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي فقالوا نعم قال فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل فأجلسنا بين يديه فقا
هرقل أرسل إليه وهم بإيلياء ثم دعا بكتاب رسول الله فلما فرغ من قراءة الكتاب كثر عنده الصخب فارتفعت الأصوات وأخرجنا فقلت لأصحابي حين أخرجنا لقد أمر أمر ابن أبي كبشة إنه يخافه ملك بني الأصفر
بينا أنا بالشأم إذ جيء بكتاب من رسول الله إلى هرقل يعني عظيم الروم قال وكان دحية الكلبي جاء به فدفعه إلى عظيم بصرى فدفعه عظيم بصرى إلى هرقل فقال هرقل هل هاهنا أحد من قوم هذا الرجل الذي يزعم أنه نبي قالوا نعم قال فدعيت في نفر من قريش فدخلنا على هرقل فأجلسن
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2978
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ایک مہینے کی راہ سے اللہ نے میرا رعب (کافروں کے دلوں میں) ڈال کر میری مدد کی ہے` «. . . أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، أَخْبَرَهُ:" أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ وَهُمْ بِإِيلِيَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ كَثُرَ عِنْدَهُ الصَّخَبُ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَأُخْرِجْنَا، فَقُلْتُ: لِأَصْحَابِي حِينَ أُخْرِجْنَا لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ يَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ . . .» ”. . . ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک جب شاہ روم ہرقل کو ملا تو) اس نے اپنا آدمی انہیں تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ یہ لوگ اس وقت ایلیاء میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آخر (طویل گفتگو کے بعد) اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک منگوایا۔ جب وہ پڑھا جا چکا تو اس کے دربار میں ہنگامہ برپا ہو گیا (چاروں طرف سے) آواز بلند ہونے لگی۔ اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ جب ہم باہر کر دئیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ابن ابی کبشہ (مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے) کا معاملہ تو اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرنے لگا ہے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2978] صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2978 کا باب: «بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ»:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہوگی کہ لفظی مطابقت کے لحاظ سے ابوسفیان رحمہ اللہ کا فرمان: «إنه يخافه ملك بني الأصفر» کہ یہ ملک بنی اصفر (قیصر روم) بھی ان سے ڈرتے ہیں، یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «موضع الترجمة من خبر أبى سفيان قوله: ”يخافه ملك بني الأصفر“.»[المستواري، ص: 167]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «والغرض منه هنا قوله: ”إنه يخاف ملك بني الأصفر“.»[فتح الباري، ج 6، ص: 159]
یعنی ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈرنا، یہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو ہے، مزید اگر غور کیا جائے تو یہ لوگ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک دیا گیا تھا وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «لانه كان بين المدينة و بين المكان الذى كان قيصر ينزل فيه مدة شهر أو نحوه.»[فتح الباري، ج 6، ص: 159] ”یقینا مدینے اور وہ جگہ جہاں قیصر ہے دونوں میں ایک ماہ یا کچھ لگ بھگ کی مسافت ہے۔“
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
شام اور حجاز کے درمیان ایک ماہ یا اس سے زائد مسافت ہے۔ [عمدة القاري، ج 14، ص: 236]
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مطابقة حديث أبى سفيان للترجمة قوله انه ليخافه ملك بني الأصفر صفود كان بالشام، و بين الشام و الحجاز مسيرة شهر.»[مناسبات تراجم البخاري، ص: 88] ”ابوسفیان رحمہ اللہ کی حدیث میں ترجمۃ الباب سے مطابقت یہ ہے کہ ابوسفیان رحمہ اللہ نے فرمایا: «انه ليخافه ملك بني الأصفر» اور وہ شام میں تھے، شام اور حجاز کے درمیان ایک مہینے کی مسافت ہے۔“
فائدہ:
ہم یہاں پر عرب کا نقشہ واضح کر رہے ہیں، نقشہ کو دیکھ کر آپ مسافت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5980
5980. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے انہیں ابو سفیان ؓ نے بتایا کہ ہر قل نے انہیں بلا بھیجا اور ان سے کہا کہ وہ یعنی نبی ﷺ تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ ابو سفیان ؓ نے کہا: وہ ہمیں نماز پڑھنے صدقہ دینے، پاک دامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5980]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا حکم عام ہے۔ اس میں مسلمان اور مشرک کا فرق نہیں کیا گیا۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمھیں ماؤں کے متعلق حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے۔ “ آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی، پھر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے آباؤ اجداد کے متعلق حسن سلوک کی وصیت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ تمھیں زیادہ قریبی رشتے دار، پھر ان کے بعد دوسرے تعلق داروں کے متعلق بھی وصیت کرتا ہے۔ “(سنن ابن ماجة، الأدب، حدیث: 3661) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”آپ کہہ دیں: میں اس کام پر تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا،البتہ قرابت کی محبت ضرور چاہتا ہوں۔ “(الشوری42: 23) اس آیت کریمہ سے بھی صلہ رحمی کی اہمیت کا پتا چلتا ہے، خواہ وہ رشتے دار مشرک ہی کیوں نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5980