عمرو بن مسلم نے طاوس سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابہ کو پایا وہ سب کے سب یہ کہتے تھے کہ ہر چیز (اللہ کی مقرر کردہ) مقدار سے ہے اور میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر چیز (اللہ کی مقرر کردہ) مقدار سے ہے یہاں تک کہ (کسی کام کو) نہ کر سکنا اور کر سکنا بھی، یا کہا: (کسی کام کو) کر سکنا اور نہ کر سکنا (بھی اسی مقدار سے ہے۔) "
طاؤس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے اصحاب کو ملا، سب یہی کہتے تھے ہر چیز تقدیر سے ہے اور میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر چیز تقدیر سے وابستہ ہے حتی کہ عجزو بے بسی (ناقابل و ناکارہ ہونا)اور مہارت و ہوشیاری بھی دانشمندی و ہوشیاری اور بے بسی و کمزوری بھی۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6751
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کی صفات قابلیت و ناقابلیت، صلاحیت و عدم صلاحیت اور دانشمندی و ہوشیاری (اور بے وقوفی و کاہلی وغیرہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہیں الغرض دنیا میں جو کوئی جیسا) اور جس حالت میں ہے، وہ اللہ کی قدر سے وابستہ ہے، ہر چیز کا اللہ کو ازل سے علم ہے اور اس کے مطابق طے ہو چکا ہے اور اس کے مطابق ہو رہا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6751
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 80
´مخلوقات کی تقدیر` «. . . وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ شَيْءٍ بِقَدَرٍ حَتَّى الْعَجز والكيس» . رَوَاهُ مُسلم . . .» ”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے یہاں تک کہ نادانی اور دانائی (بھی)۔“ اس کو مسلم نے روایت کیا۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 80]
تخریج: [صحيح مسلم 6751]
فقہ الحدیث: ➊ عقیدہ تقدیر برحق ہے۔ ➋ ہر چیز اپنے وجود سے پہلے اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے علم و مشیت میں ہے۔ ➌ ہر مخلوق کو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔ ➍ یہ صحیح حدیث موطا الامام مالک روایۃ یحییٰ [899/2 ح 1728]، روایتہ عبدالرحمٰن بن القاسم بتحقیقی [187] میں بھی موجود ہے اور امام مالک کی سند سے امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کی ہے۔ ➎ موطأ امام مالک اور صحیح مسلم میں اس حدیث کے ساتھ یہ اضافہ بھی ہے کہ طاؤس الیمانی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر چیز تقدیر سے ہے۔“ ➏ عاجزی سے مراد دنیاوی عاجزی یا بقول بعض: نافرمانی ہے اور دانائی سے مراد دنیاوی دانائی یا اللہ ورسول کی اطاعت ہے۔ «والله اعلم» ➐ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: «العجز والكيس بقدر»”عاجزی اور دانائی تقدیر سے ہے۔“[كتاب القدر للامام جعفر بن محمد الفريابي: 304 وسنده صحيح] ➑ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تقدیر کے منکر کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئیے اور نہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیئے۔ دیکھئے: [کتاب السنة للخلال: 948 وسندہ صحیح]
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 5
´تقدیر کا بیان` «. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل شيء بقدر حتى العجز والكيس . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر شے تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور عقل مندی بھی تقدیر سے ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 5]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 2655، من حديث ما لك به ● و من رواية يحيى بن يحيي وجاء فى الأصل: عمر بن مسلم] تفقہ: ➊ تقدیر برحق ہے۔ ➋ ہر چیز اپنے وجود سے پہلے اپنے خالق اللہ تعالی کے علم و مشیت میں ہے۔ ➌ ہر مخلوق کو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔ ➍ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی تقدیر کا منکر نہیں تھا۔ ➎ عاجزی سے مراد دنیاوی عاجز ی یا بقول بعض: نافرمانی ہے اور دانائی سے مراد دنیاوی دانائی یا اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔ واللہ أعلم۔ ➏ سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «العجز والكيس بقدر» عاجزی اور دانائی تقدیر سے ہے۔ [كتاب القدر امام جعفر بن حمد الفريابي:304 سنده صحيح] ➐ امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ تقدیر کے منکر کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے اور نہ اس کے پیچھے نماز پڑھنی چاہئے۔ دیکھئے [كتاب السنة للخلال: 948 وسنده صحيح] ➑ مولانامحمد یحییٰ گوندلوی حفظہ الله فرماتے ہیں: ”تقدیر پر ایمان لانا فرض عین ہے، اس کا منکر بدعتی بلکہ بعض صورتوں میں دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جاتا ہے کیونکہ شریعت نے تقدیر پر ایمان کو فرض قرار دیا ہے۔ تو اس کے انکار کا مطلب شریعت کے اس پہلو کا انکار ہے۔ معنی قدر: تقدیرکا معنی کسی چیز کی حد بندی ہے، شرعی اصطلاح میں اس کا یہ معنی ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو اس کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے ہی ام الکتاب لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا۔ اس کا علم چیز کے وجود میں آنے سے پہلے کا ہے، کوئی چیز بھی اپنے وجود میں آنے سے پہلے اور بعد اس کے علم سے باہر نہیں، اس نے ہی پوری کائنات میں ہر ایک امر کو اس کے حدود و اصول میں وضع کیا ہے، کوئی ایسا نہیں جس کو اللہ تعالی نے اس کے خالق اور پیدائش سے پہلے ضبط اور لکھ دیا ہو۔“[عقيده اهلحديث ص323] ➒ مسلۂ تقدیر مفصیل تحقیق کے لئے دیکھئے ”شرح حدیث جبریل“[ص 15، 96]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 187