صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6954 کا باب: «بَابٌ في الصَّلاَةِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: کتاب الحیل میں
«باب فى الصلاة» لانے کا کیا مقصد؟ اور تحت الباب جس حدیث کو ذکر فرمایا ہے اس کی کس طرح سے ترجمۃ الباب کے ساتھ مناسبت ہو گی؟ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کا رد فرمایا ہے جن کا کہنا ہے کہ آخری قعدہ کر کے آدمی گوز لگائے تو نماز پوری ہو جائے گی، لہٰذا ان کا یہ بہانہ نماز پوری کرنے کا حیلہ ہے، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے باب فی الصلوۃ قائم فرمایا اور تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا اس حدیث سے ان کے حیلے کا قلعہ قمہ کرنا مقصود ہے۔
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه ردّ على من قال إن من أحدث فى القعدة الأخيرة أن صلاته صحيحة لأنه أتي بما يضادها، و تعقب بأن الحدث فى أثنائها مفسد لها فهو كالجماع فى الحج لو طرأ فى خلاله لأفسده وكذا فى آخره.» [فتح الباري لابن حجر: 282/13] ”اس میں ان حضرات کا رد ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ آخری قعدہ
(نماز) میں وضو ٹوٹ جانے سے نماز ہو جاتی ہے، کیوں کہ اس نے نماز کے متضاد ایک فعل کیا ہے،
(اس بات کا) تعقب کیا گیا ہے کہ اثنائے نماز حدث اس کے لیے فساد کا باعث ہے جیسے صبح کے اثناء میں اگر جماع کر لیا تو وہ اسے فاسد کر دے گا،
(بعین اسی طرح سے اگر نماز میں کسی وقت بھی وضو ٹوٹ جائے تو وہ نماز فاسد ہو گی، اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنا ہو گی)۔
“ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أشار البخارى بهذه الترجمة إلى الرد على قول من قال بصحة صلاة من أحدث عمدًا فى أثناء الجلوس الأخير و يكون حدثه كسلامه بأن ذالك من الحيل التصحيح الصلاة مع الحدث.» [فتح الساري:: 282/13] ”امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترجمۃ الباب سے ان حضرات کے رد کی جانب اشارہ کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ آخری تشہد میں جان بوجھ کر وضو توڑنے والے کی نماز مکمل ہو گئی اور اس کا حدث اس کے سلام پھیرنے کے مانند ہے، کہ یہ حدیث کے ساتھ تصحیح نماز کے لیے حیل میں سے ہے۔
“ ابن المنیر اور ابن حجر العسقلانی رحمہما اللہ کی گزارشات سے یہ معلوم ہوا کہ جن حضرات کا یہ موقف ہے کہ آخری تشہد میں جان بوجھ کر اگر وضو ٹوٹے تو اس کی نماز درست ہو گی، تو جان لینا چاہیے کہ یہ بھی نماز کے حیلے میں سے ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان جو تحت الباب منقول ہے کہ
”اللہ تعالی اس کی نماز قبول نہیں کرتا جس کو وضو کی ضرورت ہو
“، لہذا اگر صرف سلام بھی باقی رہ گیا ہو تو وہ صلاۃ کا اعادہ کرے گا، کیوں کہ سلام پھیرنا بھی اس کے ایک ضروری ترین رکن میں سے ہے، صحیح حدیث میں واضح الفاظ موجود ہیں:
«تحليلها التسليم» لہٰذا جب نماز میں حدث ہوا تو باب کے تحت اور اس کی حدیث کے تحت نماز نہ ہو گی۔
ابن المنیر رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں:
«عدّ قول أبى حنيفة أن المحدث عمدًا فى أثناء الجلوس الأخير كالمسلّم، من التحيّل لتصحيح الصلاة مع الحدث، لأن البخاري رحمه الله بنى على أن التحلّل من الصلاة ركن منها، فلا يقبل مع الحدث.» [المتواري على ابواب البخاري: ص 341] ”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے شمار کیا ہے کہ محدث جان کر آخری ثنائے جلوس میں اپنی نماز میں برقرار رہے گا، یہ حدث کے ساتھ تصحیح نماز کے لیے حیل میں سے ہے، امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ سلام نماز کے رکن میں سے ہے، پس وہ قبول نہ ہو گی حدیث کے ساتھ۔
“ علامہ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ بھی یہی مناسبت دیتے ہیں، آپ کا کہنا ہے کہ سلام پھیرنا نماز کا ایسا ہی رکن ہے جس طرح تکبیر کہنا، جب حدث واقع ہو جائے گا تو نماز درست نہ ہو گی۔
«مقصوده فى ذكر الحيل الردّ على من صحح صلاته من الحدث فى التشهد الأخير لأنه متحمل فى صلاته مع وجود الحديث، و مراده أن هذا الحديث فى صلاته فلا يصح لأن للتحلل منها ركنا فيها بحديث و تحليلها التسليم، فالتحلل ركن منها كما أن التحرم بالتكبير ركن منها.» [مناسبات تراجم البخاري: ص 126] علامہ قسطلانی رحمہ اللہ ارشاد الساری میں ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ووجه تعلق الحديث بالترجمة: قيل: لأنه قصد الرد على الحنفية، حيث صحوا صلاة من أحدث فى الجلسة الأخيرة، و قالوا: إن التحلل يحصل بكل ما يضاد الصلاة فهم.» [ارشاد الساري: 316/11] ”یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہے کہ کہا گیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب اور حدیث کے ذریعے حنفیہ کا رد کرنا چاہتے ہیں، ان کے نزدیک جلسہ اخیر میں اگر حدث ہو جائے تو نماز درست ہو گی، اور یہ کہا کہ یہ بھی حیلہ ہے کہ حدث کے ساتھ نماز کا ہونا، لہٰذا یہاں پر ان کا رد کرنا مقصود ہے کہ محدث کا نماز میں ہونا کسی طریقے میں بھی نماز درست نہ ہو گی، کیوں تحلل یعنی سلام نماز کا رکن ہے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
«تحليلها التسليم» جیسا کہ تکبیر نماز کا رکن ہے۔
“ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«فيه رد على من قال: ان من أحدث فى القعدة الأخيرة أن صلاته صحيحة.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 159/24] ”اس میں رد ہے ان حضرات کا جن کا کہنا ہے کہ قاعدہ اخیرہ میں اگر وضو ٹوٹ گیا تو نماز درست ہو گی۔
“ ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے، اس وقت جب آدمی تشہد میں سلام پھیرنے کے قریب ہو تو اس وقت بھی اس کا وضوٹ ٹوٹ جائے تو اسے نماز کا شروع سے اعادہ کرنا ہو گا، لیکن افسوس یہ ہے کہ احناف کے نزدیک اس بندے کی نماز درست ہو گی، شارحین کی اکثریت اسی طرف گئی ہے مگر علامہ عینی رحمہ اللہ کا برداشت کا دامن ہاتھ سے چھوٹا اور آپ رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا رد کرنا چاہا، چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے حنفیہ کا دفاع کرتے ہوئے کتاب الحیل میں حیلہ کرتے ہوئے فرمایا:
«قلت لا مطابقة بين الحديث و الترجمة أصلاً فإنه لا يدل أصلاً على شيئي من الحيل، وقول الكرماني، فهم متحيلون فى صحة الصلاة مع وجود الحدث، كلام مردود غير مقبول أصلاً لأن الحنفية ما صححوا صلاة من أحدث فى القعدة الأخيرة بالحيلة، و ما للحيلة دخل أصلاً فى هذا، بل حكموا بذالك لقول صلى الله عليه وسلم، لابن مسعود رضي الله عنه، إذا قلت هذا أو فعلت هذا فقد تمت صلاتك، رواه أبوداؤد فى سننه و لفظه: إذا قلت هذا أو قضيت هذا فقد قضيت صلاتك ان شئت أن تقوم و إن شئت أن تقعد فاقعد، رواه أحمد . . . . . و قوله: وجه الرد أنه محدث فى صلاته، فلا تصح غير صحيح لأن صلاته قد تمت، و قوله لحديث: و تحليلها التسليم استدلال غير صحيح، لأنه خبر من أخبار الآحاد فلا يدل على الفرضية.» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 159،160/24]
”علامہ عینی رحمہ اللہ کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ باب حیل پر کچھ اصل ہے، آپ کا کہنا ہے کہ حنفیہ نے کوئی حیلہ نہیں کیا، بلکہ اس کام کا (کہ آخری قاعدے میں اگر وضو ٹوٹے تو نماز ٹوٹے گی نہیں) یہ حکم حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے، جیسا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث جسے امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ذکر فرمائی ہے:
«إذا قلت هذا أو قضيت هذا فقد قضيت صلاتك إن شئت أن تقوم و إن شئت أن تقعد فأقعد.» [سنن ابي داود: رقم الحدیث970]
”یعنی جب تم یہ کہہ لو، یا فرمایا: پھر کر لو تو تم نے اپنی نماز پوری کر لی، اگر چاہو تو اٹھ جاؤ اور اگر چاہو تو بیٹھے رہو، یہ نفی ہے اس بات کی کہ سلام فرض ہے نماز میں کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا تھا نمازی کو کہ اگر چاہے وہ بیٹھے یا پھر اگر چاہے تو کھڑا ہو جائے، مزید اس روایت کے بارے میں جس کے الفاظ یہ ہیں: «تحليلها التسليم» تو اس کے بارے میں علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیوں کہ یہ روایت خبر واحد سے تعلق رکھتی ہے اور نماز کی ابتدا کے بارے میں جو حکم ہے: «تحريمها التكبير» اس کو بھی علامہ صاحب نے غیر صحیح قرار دیا ہے۔“
علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ کے اشکالات کے جوابات: علامہ عینی رحمہ اللہ نے جو پہلی دلیل پیش کیا ہے کہ
«إذا قلت هذا أو قضيت هذا . . . . .» یہ روایت مرفوع حدیث نہیں ہے، بلکہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے، حفاظ کرام اس پر متفق ہیں کہ یہ جملہ مدرج ہے، لہٰذا مرفوع حدیث کو چھوڑ کر
«مُدْرَجْ» پر عمل کرنا کسی بھی طریقے سے درست نہیں ہے بلکہ اگر مزید غور کیا جائے تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ قول موجود ہے کہ
«مفتاح الصلاة التكبير، و انقضاؤها التسليم إذا سلّم الامام فقم إن شئت.» یہ قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا اس روایت کے خلاف ہے جس کو علامہ عینی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے، غالباً اس موقع پر یہی کہا جائے گا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ یہ حنفی اصول بھول گئے کہ
«أن الراوي إذا خالف الرواية، تكون الرواية متروكة» یعنی جب راوی اپنی ہی بیان کردہ روایت کے خلاف کرے تو اس کی بیان کردہ روایت مردود ہو گی، لہٰذا حنفی اصولوں کے مدنظر علامہ عینی صاحب کی بات رد کر دی جائے گی، دوسری بات یہ کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے روایت
«تحليلها التسليم» کو اخبار آحاد گردانا ہے، غالباً اگر اخبر آحاد ہوں یا تواتر، اگر حدیث صحت کے ساتھ ہے تو حجت ہو گی، قرآن مجید نے بھی خبر واحد کی حجیت کو مسلم قرار دیا ہے، دلائل کے باوجود اگر کوئی قبول نہ کرے تو اس کا اپنا معاملہ ہے، اور جہاں تک تعلق ہے
«تحريمها التكبير» کا تو علامہ عینی رحمہ اللہ نے اسے بھی غیر صحیح قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ
«كبّر» سے مراد صلاۃ ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
« ﴿وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ﴾ [المدثر: 3]، المراده فى الصلاة إذا لا يجب خارج الصلاة . . . . .» اگر تحقیق کی نظر سے دیکھا جائے تو علامہ عینی رحمہ اللہ کی بات محل نظر ہے، کیوں کہ سورہ المدثر کی یہ آیات مکہ میں نازل ہوئیں، نماز کی فرضیت سے قبل تو کس طرح سے وہ نماز کے کسی اہم رکن کی تخصیص کر پائے گی؟ دراصل یہاں تکبیر سے مراد مطلق تکبیر ہے، اگر آیت پر غور کیا جائے اور اصول تفسیر کو مدنظر رکھا جائے تو یہی بات واضح ہوتی ہے۔
یاد رکھیں، قرآن مجید کا خلاصہ اور اس کی تبیین سنت کرتی ہے، پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
«تحليلها التسليم» سلام پھیرنے کو اور
«تحريمها التكبير» کو وہ تکبیر مراد لی جس کے ذریعے نماز میں بندہ شامل ہوتا ہے، لہٰذا امام عینی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب اور حدیث پر اعتراض تار عنکبوت سے بھی کمزور تھا، اوراق اجازت نہیں دیتے اور نہ ہی استیعاب مقصود ہے ورنہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے جو دلائل دیئے ہیں اس پر ایک تفصیلی مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے۔