نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بطحاء میں نیند کی ایک جھپکی لے لیتے پھر مکہ میں داخل ہوتے اور بتاتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6658، 7590)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 148(1767)، صحیح مسلم/الحج 59 (1275)، سنن الترمذی/الحج 81 (921)، سنن ابن ماجہ/المناسک 81 (3068)، مسند احمد (2/28، 138) (صحیح)»
Nafi said “Ibn Umar used to nap for a short while at Batha’ (i. e, Al Muhassab) and then enter Makkah. ” He thought that Messenger of Allah ﷺ used to do so.
USC-MSA web (English) Reference: Book 10 , Number 2007
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح رواه البخاري (1768 مطولًا)
ينزل بذي الحليفة حين يعتمر وفي حجته حين حج تحت سمرة في موضع المسجد الذي بذي الحليفة وكان إذا رجع من غزو كان في تلك الطريق أو حج أو عمرة هبط من بطن واد فإذا ظهر من بطن واد أناخ بالبطحاء التي على شفير الوادي الشرقية فعرس ثم حتى يصبح ليس عند المسجد الذي بحجا
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 129
´سواری کو سترہ بنانا جائز ہے` «. . . 228- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ بالبطحاء التى بذي الحليفة وصلى بها. قال نافع: وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك. . . .» ”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ ذوالحلیفہ کے پاس بطحاء کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری بٹھائی اور اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی۔ نافع نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کرتے تھے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 129]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1532، ومسلم 430/1257 بعد ح1345، من حديث مالك به] تفقہ ➊ سترے کا اہتمام کرنا چاہئے اور یہ کہ سواری کے جانور کو سترہ بنایا جا سکتا ہے۔ ➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت میں ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ ➌ صحیح العقیدہ مسلمان کی ہر وقت یہی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے امام اعظم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتا رہے۔ ➍ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نمازیں محصب (مکہ کے قریب ایک مقام) پر پڑھتے پھر رات کو مکہ میں داخل ہوتے اور طواف کرتے تھے۔ [الموطأ 1/405 ح934 وسنده صحيح]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 228