حدثنا الحسن بن علي، حدثنا عبد الرزاق، حدثنا معمر، عن همام بن منبه، انه سمع ابا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تصوم المراة وبعلها شاهد إلا بإذنه غير رمضان، ولا تاذن في بيته وهو شاهد إلا بإذنه". حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَصُومُ الْمَرْأَةُ وَبَعْلُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ غَيْرَ رَمَضَانَ، وَلَا تَأْذَنُ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی عورت روزہ نہ رکھے سوائے رمضان کے، اور بغیر اس کی اجازت کے اس کی موجودگی میں کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے“۔
Abu Hurairah reported the Messenger of Allah ﷺ as saying: It is not allowable for a woman to keep (voluntary) fast when her husband is present without his permission, and she may not allow anyone to enter his house without his permission.
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2452
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون ذكر رمضان
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (5192) صحيح مسلم (1026)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2458
فوائد ومسائل: روزے کی حالت میں زوجین کے مابین تعلقات زن و شو قائم نہیں ہو سکتے۔ علاوہ ازیں بھوک و پیاس کی وجہ سے طبیعت میں گرانی سی بھی آ جاتی ہے اور عین فطری بات ہے کہ شوہر بالعموم ایسی کیفیت گوارا نہیں کرتے اور اس کے نتائج نا مناسب ہو سکتےہیں۔ اس لیے شریعت نے ان کے تعلقات میں معمولی رخنہ آنے کی بھی اجازت نہیں دی اور عورت کو پابند کیا ہے کہ نفلی روزے کے لیے شوہر کی اجازت حاصل کرے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کو شوہر کی تسکین کے لیے انتہائی حساس اور ذمہ دار ہونا چاہیے، یہ علائق محض نفسیاتی نہیں بلکہ شرعی بھی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2458
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 782
´شوہر کی اجازت کے بغیر عورت کے نفل روزہ رکھنے کی کراہت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں ماہ رمضان کے علاوہ کوئی اور روزہ بغیر اس کی اجازت کے نہ رکھے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 782]
اردو حاشہ: 1؎: ((لَا تَصُوْمُ)) نفی کا صیغہ جو نہی کے معنی میں ہے، مسلم کی روایت میں ((لَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُوْمَ)) کے الفاظ وارد ہیں، یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ شوہر کی موجودگی میں نفلی روزے عورت کے لیے بغیر شوہر کی اجازت کے جائز نہیں، اور یہ ممانعت مطلقاً ہے اس میں یوم عرفہ اور عاشوراء کے روزے بھی داخل ہیں بعض لوگوں نے عرفہ اور عاشوراء کے روزے کو مستثنیٰ کیا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 782
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2370
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت اپنے خاوند کی موجود گی میں اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے اور اس کے گھر میں اس کی موجودگی میں (اپنے کسی محرم کو) اس کی اجازت کے بغیر گھر نہ آنے دے اور اس کی (صریح) اجازت کے بغیر اس کی کمائی سے جو کچھ خرچ کرے گی تو اس کا آدھا اجر خاوند کو ملے گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2370]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) عورت خاوند کے گھر سے عام استعمال کی اشیاء معمولی مقدار میں معاشرتی عرف کے مطابق خرچ کر سکتی ہے اور اس عرفی اجازت سے خاوند کے علم کے بغیر خرچ کیا گیا مال بھی خاوند کے لیے اجرو ثواب کا باعث ہے کیونکہ اس کا کسب کردہ ہے اور عورت بھی خرچ کرنے کے سبب ثواب میں حصہ دار ہے لیکن ہر ایک کا مستقل ثواب ہو گا۔ آدھا آدھا کا یہ مقصد نہیں ہے کہ ایک ثواب ہے جو دونوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ (2) کسی اجنبی یا غیر محرم کا کسی کے گھر میں آنا جانا درست نہیں ہے ہاں خاوند کی اجازت سے محرم یا غیر محرم رشتہ دار اس کی موجودگی میں آ سکتا ہے اور اس کی غیر حاضری میں بھی اس کی اجازت سے اس صورت میں آ سکتا ہے جب یہ آمدو رفت کسی خرابی کا باعث نہ ہو، اس طرح عورت رمضان کے علاوہ روزے خاوند کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نہیں رکھ سکتی تاکہ باہمی حسن معاشرت میں خلل پیدا نہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2370
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5192
5192. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اگر شوہر گھر میں موجود ہو تو کوئی عورت اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5192]
حدیث حاشیہ: نفلی روزہ نفلی عبادت ہے اور خاوند کی اطاعت عورت کے لئے فرض ہے۔ اس لئے نفلی عبادت سے فرض کی ادا ئیگی ضروری ہے۔ مرد دن میں اپنی بیوی سے ملاپ چاہے تو عورت کو نفلی روزہ ختم کرنا ہوگا۔ لہٰذ ا پہلے ہی اجازت لے کر اگر روزہ رکھے تو بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5192
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5195
5195. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے جبکہ اس کا شوہر موجود ہو۔ اور اسکی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔ اور جو شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ کرے توشوہر کو بھی اس آدھا ثواب ملے گا۔“ اس حدیث کو ابو زناد نے بھی موسیٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روزہ رکھنے کے متعلق بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5195]
حدیث حاشیہ: کسی غیر مرد کا بغیر اجازت خاوند کے گھر میں داخل ہونا بھی منع ہے۔ مراد یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کے حکم کے بغیر اس مال میں سے خرچ کرے جو خاوند نے اس کو دے ڈالا ہے یعنی اپنے ماہوار میں سے جیسے کہ ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ عورت اپنے خاوند کا مال صدقہ نہیں کر سکتی مگر ہاں اپنی خوراک میں سے اور ثواب دونوں کو برابر ملے گا۔ وہ خرچ بھی مراد ہے جو عادت کے موافق ہو جسے سن کر خاوند ناراض نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5195
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5192
5192. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اگر شوہر گھر میں موجود ہو تو کوئی عورت اس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ نہ رکھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5192]
حدیث حاشیہ: خاوند کی اطاعت فرض ہے اور نفلی روزہ ایک اضافی عبادت ہے، لہٰذا کسی صورت میں نفل کو فرض پر ترجیح نہیں دی جاسکتی، ہاں اگر شوہر سفر میں ہو تو عورت اس کی اجازت کے بغیر روزہ رکھ سکتی ہے کیونکہ اس وقت شوہر اس سے کوئی خدمت نہیں لے سکتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5192
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5195
5195. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے جبکہ اس کا شوہر موجود ہو۔ اور اسکی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔ اور جو شوہر کی اجازت کے بغیر خرچ کرے توشوہر کو بھی اس آدھا ثواب ملے گا۔“ اس حدیث کو ابو زناد نے بھی موسیٰ سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روزہ رکھنے کے متعلق بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5195]
حدیث حاشیہ: شوہر کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر آنے کی اجازت دینے سے اس کے دل میں بدگمانی پیدا ہونے کا خطرہ ہے جو آئندہ عائلی زندگی میں زہر گھول سکتی ہے، لیکن اس ممانعت سے ضروریات مستثنیٰ ہیں، مثلاً: کسی کا اس گھر میں حق ہو یا وہ کوئی ایسی جگہ ہو جو مہمانوں کے لیے مخصوص ہو۔ (فتح الباري: 369/9) بعض لوگوں نے عورت کے باپ کو بھی اس سے مستثنیٰ کیا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق وہ بھی اس امتناعی حکم میں شامل ہے۔ والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5195