ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی، تو اس کے ساتھ دوسری رکعت ملا لے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13254ومصباح الزجاجة: 399)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجمعة 3 (11) (صحیح)» (سند میں عمر بن حبیب ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے طرق کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، تراجع الألبانی: رقم: 467، نیز ملاحظہ ہو الروضة الندیة 376)
وضاحت: ۱؎: یعنی جمعہ اس کا صحیح ہو گیا، اب ایک رکعت اور پڑھ لے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر ایک رکعت بھی نہ پائے، مثلاً: دوسری رکعت کے سجدے میں شریک ہو، یا قعدہ (تشہد) میں تو جمعہ نہیں ملا، اب وہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھے، اور یہ بعض اہل علم کا مذہب ہے، اور بعض اہل علم کے نزدیک جمعہ میں شامل ہونے والا اگر ایک رکعت سے کم پائے یعنی جیسے رکوع کے بعد سے سلام پھیرنے کے وقت کی مدت تو وہ جمعہ دو رکعت ادا کرے اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے: «ما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا»”کہ امام کے ساتھ جو ملے وہ پڑھو اور جو نہ ملے اس کو پوری کر لو“ تو جمعہ میں شریک ہونے والا نماز جمعہ ہی پڑھے گا، اور یہ دو رکعت ہی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1121
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جوشخص کسی وجہ سے جمعے کی نماز میں بروقت نہ پہنچ سکے اسے اگر ایک رکعت امام کے ساتھ مل گئی تو اس کی وہ نماز جمعے کی شمار ہوگی اس لئے اسے صرف ایک رکعت مذید پڑھ کر سلام پھیرنا دینا چایے (2) اس میں اشارہ ہے کہ ایک رکعت سے کم ملے تو اس کی جمعے کی نماز نہیں ہوئی تب اسے ظہر کی نماز چار رکعت پڑھنی چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1121
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1426
´جمعہ کی ایک رکعت پا لینے والے شخص کی نماز جمعہ کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کی نماز میں سے ایک رکعت پا لی تو اس نے (جمعہ کی نماز) پا لی۔“[سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1426]
1426۔ اردو حاشیہ: ➊ اس روایت کے مفہوم سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کو ایک رکعت سے کم ملے، یعنی وہ سجدہ اور تشہد میں ملے تو وہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھے۔ جمہور اہل علم، یعنی امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق حتیٰ کہ احناف میں سے امام محمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ صحابہ سے بھی یہی ملتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ سلام سے پہلے جب بھی مل جائے تو جمعہ ہی پڑھے کیونکہ ایک حدیث ہے: «ما أدرَكْتُمْ فصلُّوا، وما فاتَكُم فاقْضوا» حالانکہ یہ حدیث خاص جمعے کے بارے میں نہیں جب کہ باب کی روایت خاص جمعے کے بارے میں ہے۔ عام و خاص کے تعارض کے وقت دلیل خاص کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ➋ ”اس کو جمعہ مل گیا“ یعنی وہ ایک اور رکعت ملا لے تو اس کا جمعہ ہو گیا۔ سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [سنن ابن ماجه، إقامة الصلوات، حدیث: 1121، و إرواءالغلیل، حدیث: 622]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1426