اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا عبيد الله، قال: حدثنا إسرائيل، عن منصور، عن سالم، عن رجل حدثه، عن البراء بن عازب ان رجلا كان جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم وعليه خاتم من ذهب، وفي يد رسول الله صلى الله عليه وسلم مخصرة , او جريدة , فضرب بها النبي صلى الله عليه وسلم إصبعه، فقال الرجل: ما لي يا رسول الله؟ قال:" الا تطرح هذا الذي في إصبعك؟" فاخذه الرجل، فرمى به , فرآه النبي صلى الله عليه وسلم بعد ذلك، فقال:" ما فعل الخاتم؟" قال: رميت به، قال:" ما بهذا امرتك إنما امرتك ان تبيعه، فتستعين بثمنه". وهذا حديث منكر. أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَهُ، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ أَنَّ رَجُلًا كَانَ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ خَاتَمٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِخْصَرَةٌ , أَوْ جَرِيدَةٌ , فَضَرَبَ بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: مَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَلَا تَطْرَحُ هَذَا الَّذِي فِي إِصْبَعِكَ؟" فَأَخَذَهُ الرَّجُلُ، فَرَمَى بِهِ , فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ:" مَا فَعَلَ الْخَاتَمُ؟" قَالَ: رَمَيْتُ بِهِ، قَالَ:" مَا بِهَذَا أَمَرْتُكَ إِنَّمَا أَمَرْتُكَ أَنْ تَبِيعَهُ، فَتَسْتَعِينَ بِثَمَنِهِ". وَهَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ.
براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چھڑی تھی یا ٹہنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اس کی انگلی پر مارا۔ اس شخص نے کہا: کیا وجہ ہے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: ”کیا تم اسے نہیں پھینکو گے جو تمہارے ہاتھ میں ہے؟“ چنانچہ اس شخص نے اسے نکال کر پھینک دیا، اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا اور فرمایا: ”انگوٹھی کیا ہوئی؟“ وہ بولا: میں نے اسے پھینک دی۔ آپ نے فرمایا: ”میں نے تمہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا، میں نے تو تمہیں صرف اس بات کا حکم دیا تھا کہ اسے بیچ دو اور اس کی قیمت کو کام میں لاؤ“۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) یہ حدیث منکر ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 1927) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، رجل (من قومه): مجهول. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 362