حدثنا هناد، حدثنا هشيم، عن ابي الزبير، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابي عبيدة بن عبد الله ابن مسعود قال: قال عبد الله بن مسعود: " إن المشركين شغلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اربع صلوات يوم الخندق حتى ذهب من الليل ما شاء الله، فامر بلالا فاذن، ثم اقام فصلى الظهر، ثم اقام فصلى العصر، ثم اقام فصلى المغرب، ثم اقام فصلى العشاء " قال: وفي الباب عن ابي سعيد , وجابر. قال ابو عيسى: حديث عبد الله ليس بإسناده باس، إلا ان ابا عبيدة لم يسمع من عبد الله وهو الذي اختاره بعض اهل العلم في الفوائت، ان يقيم الرجل لكل صلاة إذا قضاها، وإن لم يقم اجزاه، وهو قول الشافعي.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: " إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ، إِلَّا أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْفَوَائِتِ، أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ إِذَا قَضَاهَا، وَإِنْ لَمْ يُقِمْ أَجْزَأَهُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: مشرکین نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو خندق کے دن چار نمازوں سے روک دیا۔ یہاں تک کہ رات جتنی اللہ نے چاہی گزر گئی، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عشاء پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوسعید اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث کی سند میں کوئی برائی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے، ۳- اور چھوٹی ہوئی نمازوں کے سلسلے میں بعض اہل علم نے اسی کو پسند کیا ہے کہ آدمی جب ان کی قضاء کرے تو ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کہے ۱؎ اور اگر وہ الگ الگ اقامت نہ کہے تو بھی وہ اسے کافی ہو گا، اور یہی شافعی کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المواقیت 55 (623)، والأذان 22 (663)، و23 (664)، (تحفة الأشراف: 9633) (حسن) (سند میں ابو عبیدہ اور ان کے باپ ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے، نیز ابو الزبیر مدلس ہیں اور ”عنعنہ“ سے روایت کیے ہوئے ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن صحیح ہے/دیکھئے نسائی حدیث رقم 483، 536 اور 622)»
وضاحت: ۱؎: ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت ہی راجح ہے کیونکہ ابن مسعود اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما کی حدیثوں سے اس کی تائید ہوتی ہے، سب کے لیے ایک ہی اقامت محض قیاس ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (239)
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / ن 623 أبو زبير عنعن (تقدم:10) وأبو عبيد بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من أبيه (د 995) وحديث النسائي (الأصل:662) يغني عنه .
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 179
اردو حاشہ: 1؎: ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت ہی راجح ہے کیونکہ ابن مسعود اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کی حدیثوں سے اس کی تائید ہوتی ہے، سب کے لیے ایک ہی اقامت محض قیاس ہے۔
نوٹ: (سند میں ابو عبیدہ اور ان کے باپ ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے، نیز ابو الزبیر مدلس ہیں اور ”عنعنہ“ سے روایت کیے ہوئے ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن صحیح ہے/دیکھئے نسائی حدیث رقم 483، 536 اور 622)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 179