الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
20. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ تَفُوتُهُ الصَّلَوَاتُ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ
20. باب: کئی وقت کی نماز چھوٹ جائے تو آدمی پہلے کون سی پڑھے؟
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Misses Multiple Prayers And Which Of Them He Begin With
حدیث نمبر: 179
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد، حدثنا هشيم، عن ابي الزبير، عن نافع بن جبير بن مطعم، عن ابي عبيدة بن عبد الله ابن مسعود قال: قال عبد الله بن مسعود: " إن المشركين شغلوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اربع صلوات يوم الخندق حتى ذهب من الليل ما شاء الله، فامر بلالا فاذن، ثم اقام فصلى الظهر، ثم اقام فصلى العصر، ثم اقام فصلى المغرب، ثم اقام فصلى العشاء " قال: وفي الباب عن ابي سعيد , وجابر. قال ابو عيسى: حديث عبد الله ليس بإسناده باس، إلا ان ابا عبيدة لم يسمع من عبد الله وهو الذي اختاره بعض اهل العلم في الفوائت، ان يقيم الرجل لكل صلاة إذا قضاها، وإن لم يقم اجزاه، وهو قول الشافعي.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: " إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ لَيْسَ بِإِسْنَادِهِ بَأْسٌ، إِلَّا أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْفَوَائِتِ، أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ إِذَا قَضَاهَا، وَإِنْ لَمْ يُقِمْ أَجْزَأَهُ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
ابوعبیدہ بن عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: مشرکین نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو خندق کے دن چار نمازوں سے روک دیا۔ یہاں تک کہ رات جتنی اللہ نے چاہی گزر گئی، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ظہر پڑھی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہی تو آپ نے عصر پڑھی، پھر بلال رضی الله عنہ نے اقامت کہی تو آپ نے مغرب پڑھی، پھر انہوں نے اقامت کہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے عشاء پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوسعید اور جابر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث کی سند میں کوئی برائی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے،
۳- اور چھوٹی ہوئی نمازوں کے سلسلے میں بعض اہل علم نے اسی کو پسند کیا ہے کہ آدمی جب ان کی قضاء کرے تو ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کہے ۱؎ اور اگر وہ الگ الگ اقامت نہ کہے تو بھی وہ اسے کافی ہو گا، اور یہی شافعی کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المواقیت 55 (623)، والأذان 22 (663)، و23 (664)، (تحفة الأشراف: 9633) (حسن) (سند میں ابو عبیدہ اور ان کے باپ ابن مسعود کے درمیان انقطاع ہے، نیز ابو الزبیر مدلس ہیں اور ”عنعنہ“ سے روایت کیے ہوئے ہیں، مگر شواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن صحیح ہے/دیکھئے نسائی حدیث رقم 483، 536 اور 622)»

وضاحت:
۱؎: ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت ہی راجح ہے کیونکہ ابن مسعود اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما کی حدیثوں سے اس کی تائید ہوتی ہے، سب کے لیے ایک ہی اقامت محض قیاس ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (239)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف / ن 623
أبو زبير عنعن (تقدم:10) وأبو عبيد بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من أبيه (د 995) وحديث النسائي (الأصل:662) يغني عنه .
حدیث نمبر: 151
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد , حدثنا محمد بن فضيل، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن للصلاة اولا وآخرا، وإن اول وقت صلاة الظهر حين تزول الشمس، وآخر وقتها حين يدخل وقت العصر، وإن اول وقت صلاة العصر حين يدخل وقتها، وإن آخر وقتها حين تصفر الشمس، وإن اول وقت المغرب حين تغرب الشمس، وإن آخر وقتها حين يغيب الافق، وإن اول وقت العشاء الآخرة حين يغيب الافق، وإن آخر وقتها حين ينتصف الليل، وإن اول وقت الفجر حين يطلع الفجر، وإن آخر وقتها حين تطلع الشمس ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو. قال ابو عيسى: وسمعت محمدا يقول: حديث الاعمش، عن مجاهد في المواقيت اصح من حديث محمد بن فضيل، عن الاعمش، وحديث محمد بن فضيل خطا، اخطا فيه محمد بن فضيل، حدثنا هناد، حدثنا ابو اسامة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن الاعمش، عن مجاهد , قال: كان يقال: إن للصلاة اولا وآخرا، فذكر نحو حديث محمد بن فضيل، عن الاعمش نحوه بمعناه.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الظُّهْرِ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَآخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُ الْعَصْرِ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ صَلَاةِ الْعَصْرِ حِينَ يَدْخُلُ وَقْتُهَا، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَصْفَرُّ الشَّمْسُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْمَغْرِبِ حِينَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ حِينَ يَغِيبُ الْأُفُقُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ يَنْتَصِفُ اللَّيْلُ، وَإِنَّ أَوَّلَ وَقْتِ الْفَجْرِ حِينَ يَطْلُعُ الْفَجْرُ، وَإِنَّ آخِرَ وَقْتِهَا حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي الْمَوَاقِيتِ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، وَحَدِيثُ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ خَطَأٌ، أَخْطَأَ فِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ , قَالَ: كَانَ يُقَالُ: إِنَّ لِلصَّلَاةِ أَوَّلًا وَآخِرًا، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخری وقت، ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور اس کا آخری وقت وہ ہے جب عصر کا وقت شروع ہو جائے، اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب عصر کا وقت (ایک مثل سے) شروع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج پیلا ہو جائے، اور مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈوب جائے اور آخری وقت وہ ہے جب شفق ۱؎ غائب ہو جائے، اور عشاء کا اول وقت وہ ہے جب شفق غائب ہو جائے اور اس کا آخر وقت وہ ہے جب آدھی رات ہو جائے ۲؎، اور فجر کا اول وقت وہ ہے جب فجر (صادق) طلوع ہو جائے اور آخری وقت وہ ہے جب سورج نکل جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت آئی ہے،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ اوقات کے سلسلہ میں اعمش کی مجاہد سے روایت محمد بن فضیل کی اعمش سے روایت سے زیادہ صحیح ہے، محمد بن فضیل کی حدیث غلط ہے اس میں محمد بن فضیل سے چوک ہوئی ہے ۳؎، اس روایت کو ابواسحاق فزاری نے اعمش سے اور اعمش نے مجاہد سے روایت کیا ہے، مجاہد کہتے ہیں کہ کہا جاتا تھا کہ نماز کا ایک اول وقت ہے اور ایک آخر وقت ہے، پھر محمد بن فضیل والی سابقہ حدیث کی طرح اسی کے ہم معنی کی حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12461) وانظر: مسند احمد (2/232) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حدیث میں لفظ «افق» ہے جس سے مراد شفق ہے، یعنی سورج کی سرخی اندھیرے میں گم ہو جائے۔
۲؎: یہ وقت اختیاری ہے رہا، وقت جواز تو یہ صبح صادق کے طلوع ہونے تک ہے کیونکہ ابوقتادہ کی حدیث میں ہے «ليس في النوم تفريط إنما التفريط على من لم يصل الصلاة حتى يجيء وقت الصلاة الأخرى»
۳؎: کیونکہ محمد بن فضیل نے یوں روایت کی ہے «عن الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة» جبکہ صحیح یوں ہے: «عن الأعمش عن مجاهد قوله» یعنی: اس روایت کا مجاہد کا قول ہونا زیادہ صحیح ہے، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مرفوع قول ہونے سے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1696)
حدیث نمبر: 152
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن منيع , والحسن بن الصباح البزار , واحمد بن محمد بن موسى , المعنى واحد , قالوا: حدثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن سفيان الثوري، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل فساله عن مواقيت الصلاة، فقال: " اقم معنا إن شاء الله " , فامر بلالا، فاقام حين طلع الفجر، ثم امره فاقام حين زالت الشمس، فصلى الظهر، ثم امره، فاقام فصلى العصر والشمس بيضاء مرتفعة، ثم امره بالمغرب حين وقع حاجب الشمس، ثم امره بالعشاء فاقام حين غاب الشفق، ثم امره من الغد فنور بالفجر، ثم امره بالظهر فابرد وانعم ان يبرد، ثم امره بالعصر فاقام والشمس آخر وقتها فوق ما كانت، ثم امره فاخر المغرب إلى قبيل ان يغيب الشفق، ثم امره بالعشاء فاقام حين ذهب ثلث الليل، ثم قال: " اين السائل عن مواقيت الصلاة " , فقال الرجل: انا , فقال: " مواقيت الصلاة كما بين هذين ". قال ابو عيسى: هذا حسن غريب صحيح. قال: وقد رواه شعبة، عن علقمة بن مرثد ايضا.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , وَالْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّارُ , وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى , الْمَعْنَى وَاحِدٌ , قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: " أَقِمْ مَعَنَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ " , فَأَمَرَ بِلَالًا، فَأَقَامَ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ، فَأَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بَيْضَاءُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْمَغْرِبِ حِينَ وَقَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ فَأَقَامَ حِينَ غَابَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ مِنَ الْغَدِ فَنَوَّرَ بِالْفَجْرِ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالظُّهْرِ فَأَبْرَدَ وَأَنْعَمَ أَنْ يُبْرِدَ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعَصْرِ فَأَقَامَ وَالشَّمْسُ آخِرَ وَقْتِهَا فَوْقَ مَا كَانَتْ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ إِلَى قُبَيْلِ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ بِالْعِشَاءِ فَأَقَامَ حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ " , فَقَالَ الرَّجُلُ: أَنَا , فَقَالَ: " مَوَاقِيتُ الصَّلَاةِ كَمَا بَيْنَ هَذَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ. قَالَ: وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ أَيْضًا.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اس نے آپ سے اوقات نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: تم ہمارے ساتھ قیام کرو (تمہیں نماز کے اوقات معلوم ہو جائیں گے) ان شاءاللہ، پھر آپ نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی جب فجر (صادق) طلوع ہو گئی پھر آپ نے حکم دیا تو انہوں نے سورج ڈھلنے کے بعد اقامت کہی تو آپ نے ظہر پڑھی، پھر آپ نے انہیں حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی آپ نے عصر پڑھی اس وقت سورج روشن اور بلند تھا، پھر جب سورج ڈوب گیا تو آپ نے انہیں مغرب کا حکم دیا، پھر جب شفق غائب ہو گئی تو آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا تو انہوں نے اقامت کہی، پھر دوسرے دن انہیں حکم دیا تو انہوں نے فجر کو خوب اجالا کر کے پڑھا، پھر آپ نے انہیں ظہر کا حکم دیا تو انہوں نے ٹھنڈا کیا، اور خوب ٹھنڈا کیا، پھر آپ نے انہیں عصر کا حکم دیا اور انہوں نے اقامت کہی تو اس وقت سورج اس کے آخر وقت میں اس سے زیادہ تھا جتنا پہلے دن تھا (یعنی دوسرے دن عصر میں تاخیر ہوئی)، پھر آپ نے انہیں مغرب میں دیر کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے مغرب کو شفق کے ڈوبنے سے کچھ پہلے تک مؤخر کیا، پھر آپ نے انہیں عشاء کا حکم دیا تو انہوں نے جب تہائی رات ختم ہو گئی تو اقامت کہی، پھر آپ نے فرمایا: نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟ تو اس آدمی نے عرض کیا: میں ہوں، آپ نے فرمایا: نماز کے اوقات انہیں دونوں کے بیچ میں ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن، غریب صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 31 (613)، سنن النسائی/المواقیت 12 (520)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 1 (667)، (تحفة الأشراف: 1931)، مسند احمد (5/349) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (667)
حدیث نمبر: 156
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا الحسن بن علي الحلواني، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، قال: اخبرني انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " صلى الظهر حين زالت الشمس ". قال ابو عيسى: هذا صحيح، وهو احسن حديث في هذا الباب، وفي الباب عن جابر.حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى الظُّهْرَ حِينَ زَالَتِ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا صَحِيحٌ، وَهُوَ أَحْسَنُ حَدِيثٍ فِي هَذَا الْبَابِ، وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے نماز ظہر اس وقت پڑھی جس وقت سورج ڈھل گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے اور یہ اس باب میں سب سے اچھی حدیث ہے،
۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف: 1548) وانظر: مسند احمد (3/129، 169) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 159
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة انها قالت: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العصر والشمس في حجرتها ولم يظهر الفيء من حجرتها " قال: وفي الباب عن انس , وابي اروى , وجابر , ورافع بن خديج، قال: ويروى عن رافع ايضا عن النبي صلى الله عليه وسلم في تاخير العصر ولا يصح. قال ابو عيسى: حديث عائشة حسن صحيح، وهو الذي اختاره بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم عمر , وعبد الله بن مسعود , وعائشة , وانس وغير واحد من التابعين: تعجيل صلاة العصر وكرهوا تاخيرها، وبه يقول عبد الله ابن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا وَلَمْ يَظْهَرِ الْفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ , وَأَبِي أَرْوَى , وَجَابِرٍ , وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ رَافِعٍ أَيْضًا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي تَأْخِيرِ الْعَصْرِ وَلَا يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ , وَعَائِشَةُ , وَأَنَسٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ: تَعْجِيلَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَكَرِهُوا تَأْخِيرَهَا، وَبِهِ يَقُولُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عصر پڑھی اس حال میں کہ دھوپ ان کے کمرے میں تھی، ان کے کمرے کے اندر کا سایہ پورب والی دیوار پر نہیں چڑھا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں انس، ابوارویٰ، جابر اور رافع بن خدیج رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، (اور رافع رضی الله عنہ سے عصر کو مؤخر کرنے کی بھی روایت کی جاتی ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے،
۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم نے جن میں عمر، عبداللہ بن مسعود، عائشہ اور انس رضی الله عنہم بھی شامل ہیں اور تابعین میں سے کئی لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے کہ عصر جلدی پڑھی جائے اور اس میں تاخیر کرنے کو ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے اسی کے قائل عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 1 (522)، و13 (545)، والخمس 4 (3103)، صحیح مسلم/المساجد 31 (611)، سنن ابی داود/ الصلاة 5 (407)، سنن النسائی/المواقیت 8 (506)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 5 (683)، (تحفة الأشراف: 16585)، موطا امام مالک/وقوت الصلاة 1 (2) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (683)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.