حدثنا قتيبة، ومحمد بن بشار، قالا: حدثنا معاذ بن معاذ، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن انس، عن ابي طلحة، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " كان إذا ظهر على قوم، اقام بعرصتهم ثلاثا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وحديث حميد، عن انس، حديث حسن صحيح، وقد رخص قوم من اهل العلم في الغارة بالليل وان يبيتوا، وكرهه بعضهم، وقال احمد، وإسحاق: لا باس ان يبيت العدو ليلا، ومعنى قوله وافق محمد الخميس، يعني به: الجيش.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ، أَقَامَ بِعَرْصَتِهِمْ ثَلَاثًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْغَارَةِ بِاللَّيْلِ وَأَنْ يُبَيِّتُوا، وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: لَا بَأْسَ أَنْ يُبَيَّتَ الْعَدُوُّ لَيْلًا، وَمَعْنَى قَوْلِهِ وَافَقَ مُحَمَّدٌ الْخَمِيسَ، يَعْنِي بِهِ: الْجَيْشَ.
ابوطلحہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم پر غالب آتے تو ان کے میدان میں تین دن تک قیام کرتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حمید کی حدیث جو انس رضی الله عنہ سے آئی ہے حسن صحیح ہے، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے رات میں حملہ کرنے اور چھاپہ مارنے کی اجازت دی ہے، ۴- بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں، ۵- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے میں کوئی حرج نہیں ہے، ۶- «وافق محمد الخميس» میں «الخميس» سے مراد لشکر ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2695
´دشمن پر غلبہ پانے کے بعد امام کا میدان جنگ میں ٹھہرنا۔` ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں تین رات قیام کرتے۔ ابن مثنیٰ کا بیان ہے: جب کسی قوم پر غالب آتے تو میدان جنگ میں جو ان کی سر زمین میں پڑتا تین رات قیام کرنا پسند فرماتے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہ یحییٰ بن سعید اس حدیث میں طعن کرتے تھے کیونکہ یہ سعید (سعید ابن ابی عروبہ) کی پہلے کی حدیثوں میں سے نہیں ہے، اس لیے کہ ۱۴۵ ہجری میں ان کے حافظہ میں تغیر پیدا ہو گیا تھا، اور یہ حدیث بھی آخری عمر کی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کہا جاتا ہے کہ وکیع نے ان سے ان کے زمانہ تغیر میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2695]
فوائد ومسائل: حدیث صحیح ہے۔ اور یہ صحیح بخاری میں بھی ہے۔ (2530) یہی وجہ ہے کہ امام ابودائود کا یہ قول جو بریکٹوں کے درمیان ہے۔ ابو دائود کے بعض نسخوں میں نہیں ہے۔ اور اس کا نہ ہونا ہی زیادہ مناسب ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2695