الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
26. باب اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ وَبَيَانِ صِفَتِهِ:
26. باب: نماز کے بعد کیا ذکر کرنا چاہئیے۔
حدیث نمبر: 1334
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا داود بن رشيد ، حدثنا الوليد ، عن الاوزاعي ، عن ابي عمار اسمه شداد بن عبد الله ، عن ابي اسماء ، عن ثوبان ، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذا انصرف من صلاته، استغفر ثلاثا، وقال: " اللهم انت السلام، ومنك السلام، تباركت ذا الجلال والإكرام "، قال الوليد: فقلت للاوزاعي، كيف الاستغفار؟ قال: تقول: استغفر الله، استغفر الله.حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ اسْمُهُ شَدَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا انْصَرَفَ مِنْ صَلَاتِهِ، اسْتَغْفَرَ ثَلَاثًا، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ "، قَالَ الْوَلِيدُ: فَقُلْتُ لِلأَوْزَاعِيِّ، كَيْفَ الْاسْتِغْفَارُ؟ قَالَ: تَقُولُ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ، أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ.
ولید نے اوزاعی سے، انہوں نے ابو عمار۔ ان کا نام شداد بن عبداللہ ہے۔ سے، انھوں نے ابو اسماء سے اور انھوں نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ استغفار کرتےاور اس کے بعد کہتے: اللہم انت السلام و منک السلام، تبارکت ذاالجلال والاکرام اے اللہ! تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے ہے، تو صاحب رفعت و برکت ہے، اے جلال والے اور عزت بخشنے والے! ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا: استغفار کیسے کیا جائے؟ انھوں نے کہا: استغفر اللہ، استغفر اللہ کہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین دفعہ بخشش طلب کرتے اور اس کے بعد کہتے: اے اللہ! تو ہی سالم اور تیری ہی طرف سلامتی ملتی ہے تو برکت و عظمت والا ہے، اے بزرگی اور برتری والے۔ ولید کہتے ہیں میں نے اوزاعی سے پوچھا، اِستِغْفَار کیسے ہے؟ اس نے کہا، یوں کہو: (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ، اَسْتَغْفِرُالّٰلہ)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 591
   سنن النسائى الصغرى1338ثوبان بن بجددإذا انصرف من صلاته استغفر ثلاثا وقال اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام
   صحيح مسلم1334ثوبان بن بجدداللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت ذا الجلال والإكرام
   جامع الترمذي300ثوبان بن بجدداستغفر الله ثلاث مرات ثم قال اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام
   سنن أبي داود1513ثوبان بن بجددإذا أراد أن ينصرف من صلاته استغفر ثلاث مرات ثم قال اللهم
   سنن ابن ماجه928ثوبان بن بجددإذا انصرف من صلاته استغفر ثلاث مرات ثم يقول اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 204  
´مسلمان کے لیے خوشخبری`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمِنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نسبه» . رَوَاهُ مُسلم . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں اور سختیوں کو دور کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی بے چینیوں کو اور تنگدستیوں اور پریشانیوں کو دور کر دے گا۔ اور جو شخص کسی تنگدست کی مشکلوں کو آسان کر دے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا اور پردہ پوشی کی تو اللہ تعالیٰ اس کی دنیا اور آخرت میں پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس بندے کی اعانت میں رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے مسلمان بھائی کی امداد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص علم حاصل کرنے کے راستہ پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان کر دیتا ہے اور جو لوگ اللہ کے گھروں (مسجدوں اور دینی مدرسوں میں) جمع ہو کر قرآن مجید پڑھتے اور پڑھاتے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے تسکین اترتی ہے اور اللہ کی رحمت ان پر چھا جاتی ہے اور رحمت کے فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس والے فرشتوں سے ان کا تذکرہ فرماتا ہے۔ اور جس کا عمل سست رہا، تو اس کا نسب جلدی نہیں کرے گا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 204]

تخریج الحديث:
[صحيح مسلم 6853]

فقه الحديث:
➊ یہ حدیث اس قدر جامع ہے کہ اگر صرف اسی پر صحیح طریقے سے عمل پیرا ہوا جائے تو دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
➋ اسلام ہمدردی و ایثار کا درس دیتا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اہل ایمان کا شیوہ ہے۔
➌ کسی کے عیوب کی پردہ پوشی درحقیقت اپنے ہی گناہوں کو چھپانا ہے۔
➍ طلب علم حصول جنت کا بہترین ذریعہ ہے، نیز اہل علم دوسروں سے افضل ہیں۔
➎ روز قیامت حسب و نسب نہیں بلکہ ایمان اور اعمال صالحہ سے ہی کامیابی ملے گی۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 204   
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 6853  
´مومن پر سے کوئی سختی دنیا کی دور کرنا`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن پر سے کوئی سختی دنیا کی دور کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ: 6853]

فقہ الحدیث
➊ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ ایک عظیم حدیث ہے، جس نے کئی علوم، قواعد اور آداب کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔
حدیث میں پریشانی کو ہٹانے سے مراد ہے کہ اس کو زائل کیا جائے، نیز حدیث میں فضیلت کے کئی کام بتائے گئے ہیں، مثلاً: جیسے بھی ممکن ہو، مسلمانوں کو نفع پہنچایا جائے، ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ علم، مال یا باہمی تعاون کے ذریعے سے کسی مصلحت یا نصیحت کی طرف اشارہ کر کے یا کسی اور انداز سے دوسروں کے فائدے کا باعث بننا چاہیے۔ اسی طرح مسلمانوں کی پردہ پوشی، تنگ دست کو مہلت دینا، حصول علم کے لیے سفر کرنا یہ سب فضیلت کے کام ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم میں مشغول رہنا کتنا سود مند ہے ہے۔ یاد رہے کہ یہاں علم سے مراد علم شرعی ہے، بشرطیکہ مقصود صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، اگرچہ یہ شرط تو ہر عمل کے لیے درکار ہوتی ہے لیکن علماء عام طور پر علم کو اس شرط کے ساتھ ضرور مقید کرتے ہیں، کیوں کہ بعض لوگوں کے ہاں اس میں کبھی تساہل بھی پایا جاتا ہے، خاص طور پر اس راستے کے ابتدائی مسافر اخلاص نیت میں غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

➋ یہ حدیث بتاتی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور اس کی تعلیم و تدریس کے لئے مساجد، مدارس یا دیگر مقامات پر اکٹھا ہونا بھی نہایت فضیلت والا کام ہے، اس حدیث سے اور دیگر کئی دلائل سے قرآن و حدیث کی تدریس کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ» [5-المائدة:67] اے رسول! آپ کے رب کی طرف سے جو کچھ آپ پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کیجئے۔ اسی طرح رسول اللہ نے فرمایا: «بلغو عني ولو آية» یعنی میری طرف سے آگے پہنچا دو، خواہ ایک آیت ہی ہو۔ اس حدیث کو امیر المؤمنین فی الحدیث، شیخ الاسلام، فقیہ امت محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح [صحيح البخاري: 3461] میں روایت کیا ہے۔

➌ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ غیبت کرنا اور کسی مسلمان بھائی کا ایسا تذکرہ کرنا جس سے اس بھائی کو تکلیف پہنچے حرام ہے، یہ حکم ایسے شخص کے بارے میں ہے جس کی غلطیاں اور مفسدات معروف نہیں ہیں، جبکہ ایسا آدمی جو علی الاعلان بدعت و فساد کا داعی ہے، ایسے آدمی کے نقصانات سے والئی مملکت یا کسی معتبر شخصیت کو آگاہ کرنا جائز ہے، اسی طرح اگر آدمی خود کسی کو غلطی و فساد سے روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو کسی ایسے آدمی کو اس کے بارے میں بتا دینا درست ہو گا جو اسے غلطی سے روک سکتا ہو، اور اگر کسی آدمی کو گناہ میں ملوث پایا جائے تو اسے خود بھی حتی المقدور منع کرنا ضروری ہے۔

➍ اس حدیث سے یہ بات بھی عیاں ہے کہ جہنم کی آگ سے نجات صرف اور صرف ایمان اور اعمال صالحہ سے ہی ممکن ہے، اس معاملے میں حسب و نسب کا کوئی دخل نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی فرمایا تھا: اے فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیوں کہ میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے لیے کسی شئے کا اختیار نہیں رکھتا، ہاں! اتنا ہے ضرور کہ تمہارا میرے ساتھ رحم کا رشتہ ہے، میں اس رشتے کے حقوق و واجبات ادا کرتا رہوں گا۔ [صحیح مسلم: 204]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا: اے میری بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے تم جو مانگنا چاہو، مجھ سے مانگ لو، میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آ سکوں گا۔ [صحیح البخاری: 2753]
ذرا غور کیجئیے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مومنہ بیٹی سے کیا فرما رہے ہیں؟ جبکہ آپ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ٹکڑا ہیں، اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، اور ان کے بالمقابل وہ آدمی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا فقط دعویٰ کرتا ہے، جبکہ عقیدہ و عمل میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا مخالف ہے، کیسے یہ گمان کر سکتا ہے کہ روز محشر اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کی سفارش کے ذریعے سے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔۔۔۔؟

➎ فواد عبدالباقی رحمہ اللہ اور دیگر عربی نسخوں میں سند یوں ہے: «حدثنا الاعمش حدثنا ابن نمير عن ابي صالح» جبکہ یہ خطا ہے، درست سند اس طرح ہے: «حدثنا الاعمش قال ابن نمير عن ابي صالح» لہٰذا اس کی تصحیح کر لیجئیے، یاد رہے کہ صحیح مسلم کا عمدہ ترین نسخہ وہ ہے جو ہند و پاک میں متداول ہے، جیسا کہ میں نے ریاض (شہر) میں بعض عربی بھائیوں کی مجلس میں ثابت کیا تھا۔ «والحمدلله»

➏ سلیمان بن مہران الاعمش حدیث کے ایک راوی ہیں، آپ کی تدلیس مشہور ہے، جیسا کہ کتب رجال میں دیکھا جا سکتا ہے۔

تنبیہ: صحیح بخاری و مسلم میں مدلس راوی کی روایت (خواہ وہ معنعن ہو) سماع پر محمول ہوتی ہے، یا اس کے متابعات کی بنا پر وہ صحیح سمجھی جاتی ہے، یہ قاعدہ اصول حدیث کی کتب میں بالتفصیل موجود ہے، برخلاف ان لوگوں کے جو اسے تسلیم نہیں کرتے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 134، حدیث\صفحہ نمبر: 10   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1263    
مسلمان کی مدد اور پردہ پوشی کی فضیلت
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏من نفس عن مسلم كربة من كرب الدنيا نفس الله عنه كربة من كرب يوم القيامة ومن يسر على معسر يسر الله عليه فى الدنيا والآخرة ومن ستر مسلما ستره الله فى الدنيا والآخرة والله فى عون العبد ما كان العبد فى عون اخيه . ‏‏‏‏ اخرجه مسلم.»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلم سے دنیا کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے آخرت کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور فرمائے گا اور جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلم پر پردہ ڈالے اللہ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں پردہ ڈالے گا اور اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں (رہتا) ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔ مسلم۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1263]
تخريج:
[مسلم الذكر والدعاء 6853]،
[تحفة الاشراف 375/9]

مفردات:
«نفس» یہ «تنفيس الخناق» سے مشتق ہے یعنی گلا گھونٹنے والی چیز کو ڈھیلا کرنا تاکہ وہ سانس لے سکے۔ «نَفَسٌ» کا معنی سانس ہوتا ہے۔ مراد تنگی دور کرنا ہے۔
«كُرْبَةً» ایسا غم جو نفس کو فکر مند کر دے اور دل کو ڈھانپ لے اس طرح کہ گویا سانس لینے کی گنجائش نہ رہے۔

فوائد:
➊ مسلمان کی دنیا کی تنگیاں کئی قسم کی ہو سکتی ہیں جنہیں دور کرنے کی فضیلت بیان ہوئی، مثلاً اگر اسے مالی تنگی درپیش ہے تو اگر ہو سکے تو اپنے پاس سے مال دے کر اسے دور کرے یا اسے قرض دے دے یا اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کسی دوسرے سے مال دلوا دے یا قرض دلوا دے۔ اگر کسی ظالم کے ظلم سے تنگ ہے تو وہ ظلم دور کرنے یا کم کرنے کی کوشش کرے اگر بیمار ہے تو علاج میں اس کی مدد کرے وغیرہ۔ آخرت میں پیش آنے والی سختیاں بھی بے شمار ہیں۔
نووی رحمہ الله نے فرمایا کہ مسلم بھائی کی تنگی دور کرنے والے کے لئے آخرت کی تنگیوں میں سے کوئی تنگی دور کرنے کی بشارت تب ہی پوری ہو سکتی ہے جب اس کا خاتمہ ایمان پر ہو تو اس حدیث میں ایمان پر خاتمہ کی بشارت بھی بھی ضمناً مذکور ہے۔ [توضيح]
➋ تنگ دست پر آسانی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ» [2-البقرة:280]
اور اگر وہ (مقروض) تنگدست ہے تو اسے مہلت دینا ہے آسانی تک اور تم صدقہ کر دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اگر تمہیں علم ہو۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تنگدست کے لئے آسانی کی ایک صورت یہ ہے کہ اسے مہلت دے دے یہ تو واجب ہے دوسری صورت یہ ہے کہ اس کا قرض معاف کر دے بلکہ ہو سکے تو اس کے ساتھ اس کا مالی تعاون بھی کر دے تاکہ اس کی تنگدستی دور ہو جائے یہ فضیلت کی بات ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگدست کو دیکھتا تو اپنے نوکر سے کہتا اس سے درگزر کرو شاید اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے تو اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر فرمایا۔ [متفق عليه مشكوة باب االافلاس]
➌ جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے گا اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر آسانی فرمائے گا معلوم ہوا کہ اگر تنگدست پر سختی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس پر سختی کرے گا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی شخص خوشحال ہو تو اس سے اپنا حق لینے کے لئے تنگی کر سکتا ہے کیونکہ غنی آدمی کا حق ادا کرنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ [متفق عليه]
اور اگر پیسے ہوتے ہوئے نہ دے تو اس کی بےعزتی کرنا اور سزا دینا جائز ہو جاتا ہے۔ حدیث صحیح [ابوداود، نسائي عن الشريد]
«من ستر مسلما» جو شخص کسی مسلمان کی کسی لغزش یا غلطی پر مطلع ہو پھر اس پر پردہ ڈال دے تو اسے یہ اجر ملے گا کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس پر پردہ ڈال دے گا۔ دنیا میں اس طرح کہ اسے ایسی غلطی سے ہی محفوظ رکھے گا یا اگر ایسی غلطی کر بیٹھے تو کسی کو معلوم نہیں ہو گی اور آخرت میں اس کے گناہ معاف کر دے گا اور اس کے برے اعمال ظاہر نہیں کرے گا۔
➎ جو شخص چھپ کر گناہ کرے اس پر پردہ ڈالا جائے گا لیکن جو شخص کھلم کھلا اعلانیۃ اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اور روکنے سے نہیں رکتا اس کا معاملہ ان لوگوں کے پاس پہنچایا جائے گا جو اسے روک سکیں کیونکہ اگر خاموشی اختیار کی جائے تو یہ برائی میں اس کی مدد ہوگی فرمان الٰہی ہے:
«وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ»
اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد مت کرو۔ [المائدة: 2]
➏ حدیث کے راویوں کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا جائز نہیں کیونکہ اس سے دین کی تحریف کا خطرہ ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے بیت المال میں خیانت کرنے والوں کو ظاہر کرنا بھی جائز ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی خیر خواہی ہے جو کہ فرض ہے۔
➐ مسلمان پر پردہ ڈالنے میں دوسروں مسلمانوں کے علاوہ آدمی خود بھی شامل ہے اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو کسی کو نہ بتائے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔
➑ جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں ہوتا ہے۔ یعنی اپنے بھائی کا تعاون جس کام میں کر رہا ہوتا ہے اس میں اللہ کی امداد شامل ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کے اپنے کاموں میں بھی اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔ اگرچہ اللہ کی مدد کے بغیر آدمی کوئی کام بھی نہیں کر سکتا مگر اس صورت میں اسے اللہ کی خاص مدد حاصل ہوتی ہے اس لئے جو شخص چاہے کہ اس کے سب کام درست رہیں وہ دوسرے مسلم بھائیوں کی مدد کرتا رہے۔
➒ مسلم بھائیوں کو خوش کرنے کو افضل عمل قرار دیا گیا ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«افضل الاعمال ان تدخل على اخيك المومن سرورا او تقضي عنه دينا او تطعمه خبزا» [قضاء الحوائج لابن ابي الدنيا بحوالة سلسلة الاحاديث الصحيحة، حديث حسن 1494]
سب سے بہتر کام یہ ہے کہ تو اپنے مومن بھائی پر خوشی داخل کرے یا اس کی طرف سے قرض ادا کر دے یا اسے روٹی کھلا دے۔
➓ اللہ تعالیٰ بندے کو عمل کی جزاء اس کے عمل کی طرح ہی دیتے ہیں کوئی پردہ ڈالے تو پردہ ڈالتے ہیں۔ تنگی دور کرے تو تنگی دور کرتے ہیں۔ مومن کی مدد کرے تو اس کی مدد کرتے ہیں۔ کوئی مومن کو رسوا کرے تو اسے رسوا کر دیتے ہیں۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 94   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1334  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپﷺ سلام پھیرنے کے بعد مُتَّصِلاً (اَللہُ اَکْبَر کہنے کے بعد)
تین دفعہ اَسْتَغْفِرُا للہَ کہتے تھے۔
کیونکہ یہ عبدیت اور بندگی کی انتہا ہے کہ نماز جیسی عبادت کے بعد بھی اپنے آپ کو قصور وار اور حق عبادت کی ادائیگی سے کوتاہ اور عاجز سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی اور بخشش مانگی جائے اور حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کا اعتراف کیا جائے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس مختصر دعا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے آج کل عام طور پر کچھ کلمات:
(وَإِلَيْكَ يَرْجِعُ السَّلاَمْ فَحَيِّنَا رَبَّنَا بِالسَّلاَمِ وَأَدْخِلْنَا دَارَكَ دَارَ السَّلامِ)
کا اپنے طور پر اضافہ کر لیا جاتا ہے۔
علامہ سعیدی لکھتے ہیں:
حدیث شریف میں دعا اور ذکر کے جو الفاظ وارد ہوں،
ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی یا تغیر وتبدل کرنا صحیح نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دعا سکھائی،
جس میں یہ الفاظ تھے۔
(وَنَبِيِّكَ الَّذي أرْسَلتَ)
حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ کلمات دہرا کر آپﷺ کو سنائے تو یوں پڑھا:
(وَبِرَسُوْلِكَ الَّذِيْ أَرْسَلْتَ)
آپﷺ نےفرمایا:
لا،
نہیں۔
(وَنَبِيِّكَ الَّذِيْ أرْسَلتَ)
وہی الفاظ پڑھو جو میں نے سکھائے ہیں۔
(ج: 2 ص: 192)
آگے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت نقل کی ہے جس کا معنی یہ ہے:
الفاظِ ذکر لفظ کے تعین اور ثواب کی مقدار میں توفیقی ہوتے ہیں،
(ان میں منقول کی پابندی کی جاتی ہے)
کیونکہ بسا اوقات ایک لفظ میں ایسا راز ہوتا ہے جو اس کے ہم معنی دوسرے لفظ میں نہیں ہوتا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1334   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.