الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام 26. باب اسْتِحْبَابِ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ وَبَيَانِ صِفَتِهِ: باب: نماز کے بعد کیا ذکر کرنا چاہئیے۔
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار کرتے اور کہتے: «اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ» سے اخیر تک۔ ولید نے کہا: میں نے اوزاعی سے پوچھا استغفار کیسے ہے؟ کہا: «أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ» کہتے یعنی ”میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں“۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کا سلام پھیرتے نہ بیٹھتے مگر اس قدر کہ کہتے «اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلاَمُ وَمِنْكَ السَّلاَمُ تَبَارَكْتَ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ» سے اخیر تک یعنی ”یا اللہ! تو سب عیبوں سے سالم ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ہے یعنی تمام عالم کی اور اے بزرگی اور عزت والے تو بڑی برکت والا ہے۔“ اور ابن نمیر کی روایت میں «يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ» ہے۔
اس سند سے بھی مذکورہ الفاظ آئے ہیں۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے بھی اسی طرح نقل کی گئی ہے۔
وراد سے جو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ہیں روایت ہے کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھ چکتے اور سلام پھیرتے تو کہتے: «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلاَ مُعْطِىَ لِمَا مَنَعْتَ وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ» سے اخیر تک یعنی ”کوئی سچا معبود نہیں مگر اللہ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، سلطنت اسی کی ہے اور اسی کو تعریف ہے اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے، یا اللہ! جو تو دے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو تو نہ دے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور کسی کی کوشش تیرے آگے پیش نہیں جاتی۔
وراد سے جو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ہیں روایت ہے اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اوپر کی روایت کے مثل بیان کرتے ہیں اور ابوبکر اور ابوکریب نے اپنی روایتوں میں کہا کہ وراد نے کہا کہ مجھے سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے بتایا اور میں نے اس دعا کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا۔
عبدہ بن ابولبابہ نے کہ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے وراد کے ہاتھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھوا بھیجا کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے جب سلام پھیرتے نماز سے، مثل ابوبکر اور ابوکریب کی روایت کے مگر اس میں «وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ» کو ذکر نہیں کیا۔
وراد سے مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
عبدہ اور عبدالملک دونوں نے وراد سے جو منشی تھے سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کے سنا کہ لکھا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کو مجھے کوئی دعا ایسی لکھ بھیجو جو سنی ہو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، تو انہوں نے لکھ بھیجا کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ پڑھتے تھے جب نماز سے فارغ ہوتے «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ» سے اخیر تک اور ترجمہ اس دعا کا اوپر گزر چکا ہے۔
ابوالزبیر نے کہا: سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہ ہمیشہ ہر نماز کے بعد سلام پھیرتے وقت پڑھتے «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَلاَ نَعْبُدُ إِلاَّ إِيَّاهُ لَهُ النِّعْمَةُ وَلَهُ الْفَضْلُ وَلَهُ الثَّنَاءُ الْحَسَنُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ» ”کوئی معبود لائق عبادت کے نہیں، نہ اس کا کوئی شریک ہے، اسی کی ہے سلطنت اور اسی کے لئے ہے سب تعریف اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور نہ گناہ سے بچنے کی طاقت، نہ عبادت کرنے کی قوت ہے مگر ساتھ اللہ کے، نہیں کوئی معبود لائق عبادت کے سوائے اللہ کے اور نہیں پوجتے ہم مگر اسی کو، اس کا ہے سب احسان اور اسی کو سب بزرگی اور اسی کے لئے سب تعریف اچھی، نہیں ہے کوئی معبود عبادت کے لائق مگر اللہ، ہم صرف اسی کی عبادت کرنے والے ہیں اگرچہ کافر برا مانیں۔“ اور کہا: راوی سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد یہی پڑھا کرتے۔
ابی الزبیر سے جو مولیٰ ہیں، ان کی روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اس دعا کے ساتھ یعنی جو اوپر مذکور ہوئی ہر نماز کے بعد اپنی آواز بلند کرتے تھے جیسے ابن نمیر نے روایت کی ہے اور اس کے آخر میں یہ کہا کہ سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد بلند آواز سے یہ پڑھا کرتے تھے۔
ابوالزبیر نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ خطبہ پڑھتے تھے اس منبر پر اور کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو ہر نماز کے آخر میں کہتے اور پھر ہشام بن عروہ کی روایت کے مانند حدیث بیان کی۔
موسیٰ بن عقبہ سے ابوالزبیر مکی نے بیان کیا کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے وہی دعا پڑھتے جو روایت کی ہشام اور حجاج نے ابوالزبیر سے اور اس کے آخر میں کہا کہ وہ اس دعا کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کرتے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ فقراء مہاجرین رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ مالدار لوگ بلند درجوں پر پہنچ گئے اور ہمیشہ کی نعمتیں لوٹ لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں؟“ انہوں نے عرض کی کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں اور وہ صدقہ دیتے ہیں اور ہم نہیں دے سکتے اور وہ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم نہیں آزاد کر سکتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں ایسی چیز سکھا دوں کہ جو تم سے آگے ہوں ان کو تم پالو اور اپنے پیچھے والوں کے ہمیشہ آگے رہو اور کوئی تم سے درجہ میں بڑھ کر نہ ہو مگر وہ جو وہی کام کرے جو تم کرتے ہو۔“ انہوں نے عرض کی کہ ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تسبیح و تکبیر و تمحید کرو ہر نماز کے بعد تینتیس مرتبہ۔“ ابوصالح نے کہا: پھر مہاجرین رسول اللہ صلی کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ ہمارے بھائیوں نے سن پایا جو اہل مال ہیں ہماری اس دعا کو اور وہ بھی پڑھنے لگے جیسے ہم پڑھتے ہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے دے۔“ (یعنی اس میں میرا کیا اختیار ہے) قتیبہ کے علاوہ راویوں نے اس روایت میں یہ بڑھایا کہ لیث، ابن عجلان سے راوی ہے کہ سمی نے کہا کہ میں نے یہ حدیث اپنے کسی گھر والوں سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ تم بھول گئے۔ اس روایت میں یوں ہے کہ ”تسبیح کرے تو اللہ کی تینتیس ۳۳ بار اور تحمید کرے تو اللہ کی تینتیس ۳۳ بار اور تکبیر کہے اللہ کی تینتیس ۳۳ بار“، پھر میں ابوصالح کے پاس گیا اور میں نے ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہا: اللہ اکبر سے الحمدللہ تک تینتیس ۳۳ بار کہے یعنی اللہ بڑا ہے اور پاک ہے اللہ اور سب تعریف اللہ کو ہے اور اللہ بڑا ہے اور پاک ہے اللہ اور سب اسی کے لئے ہے۔ اب عجلان نے کہا: میں نے یہ حدیث رجاء بن حیوہ سے بیان کی تو انہوں نے اسی کے مثل مجھ سے روایت کی ابوصالح سے، انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ فقراء مہاجرین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! مال والے بلند درجوں پر پہنچ گئے اور ہمیشہ کی نعمتیں لے گئے۔ غرض روایت کی انہوں نے مثل حدیث شیبہ کے جو لیث سے مروی ہے مگر اتنی بات انہوں نے مدرج کی (اور مدرج یہ ہے کہ راوی کا قول کسی روایت میں ملا دے) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ابوصالح کے قول سے کہ پھر لوٹ کر آئے فقراء مہاجرین آخر حدیث تک اور زیادہ کیا حدیث میں کہ سہیل نے کہا کہ ہر کلمہ گیارہ گیارہ بار کہے کہ سب مل کر تینتیس ۳۳ بار ہو جائیں۔
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کے پیچھے کچھ ایسی دعائیں پڑھنے کی ہیں کہ ان کا پڑھنے والا یا ان کا بجا لانے والا ہر نماز فرض کے بعد کبھی (ثواب سے یا بلند درجوں سے) محروم نہیں ہوتا، (وہ یہ ہیں) تینتیس بار سبحان اللہ اور تینتیس بار الحمدللہ اور چونتیس بار اللہ اکبر کہنا۔“
سیدنا کعب بن عجرۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چند تسبیحات ہیں جن کا کہنے والا یا کرنے والا نقصان نہیں اٹھائے گا، وہ یہ ہیں کہ ہر نماز کے بعد تینتیس ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر۔“
اس سند سے بھی مذکورہ روایت آئی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہر نماز کے بعد سبحان اللہ تینتیس ۳۳ بار اور الحمدللہ تینتیس ۳۳ بار اور اللہ اکبر تینتیس ۳۳ بار کہے تو یہ ننانوے کلمے ہوں گے اور پورا سینکڑا یوں کرے کہ ایک بار «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ» پڑھے یعنی ”کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں مگر اللہ، اکیلا ہے وہ، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی ہے سلطنت اور اسی کیلئے سب تعریف اور وہ ہر چیز پر قادر ہے“ تو اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر (یعنی بے حد) ہوں۔
اس سند سے بھی مذکورہ روایت آئی ہے۔
|