الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
47. باب الرُّخْصَةِ فِي التَّخَلُّفِ عَنِ الْجَمَاعَةِ بِعُذْرٍ:
باب: عذر کے سبب سے جماعت کا معاف ہونا۔
حدیث نمبر: 1496
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حرملة بن يحيى التجيبي ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، ان محمود بن الربيع الانصاري حدثه، ان عتبان بن مالك وهو من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ممن شهد بدرا من الانصار، انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، " إني قد انكرت بصري، وانا اصلي لقومي، وإذا كانت الامطار سال الوادي الذي بيني وبينهم، ولم استطع ان آتي مسجدهم، فاصلي لهم وددت، انك يا رسول الله، تاتي فتصلي في مصلى، فاتخذه مصلى، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سافعل إن شاء الله "، قال عتبان: فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر الصديق، حين ارتفع النهار، فاستاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاذنت له، فلم يجلس حتى دخل البيت، ثم قال: اين تحب ان اصلي من بيتك؟ قال: فاشرت إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكبر، فقمنا وراءه، فصلى ركعتين، ثم سلم، قال: وحبسناه على خزير صنعناه له، قال: فثاب رجال من اهل الدار حولنا، حتى اجتمع في البيت رجال ذوو عدد، فقال قائل منهم: اين مالك بن الدخشن؟ فقال بعضهم: ذلك منافق، لا يحب الله ورسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقل له ذلك، الا تراه قد قال: لا إله إلا الله، يريد بذلك وجه الله؟ قال: قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: فإنما نرى وجهه ونصيحته للمنافقين، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فإن الله قد حرم على النار من قال: لا إله إلا الله، يبتغي بذلك وجه الله، قال ابن شهاب: ثم سالت الحصين بن محمد الانصاري وهو احد بني سالم وهو من سراتهم، عن حديث محمود بن الربيع، فصدقه بذلك.حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، " إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، وَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، وَلَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ، فَأُصَلِّيَ لَهُمْ وَدِدْتُ، أَنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَأْتِي فَتُصَلِّي فِي مُصَلًّى، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ "، قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ، حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟ قَالَ: فَأَشَرْتُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا وَرَاءَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ: وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صَنَعْنَاهُ لَهُ، قَالَ: فَثَابَ رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ حَوْلَنَا، حَتَّى اجْتَمَعَ فِي الْبَيْتِ رِجَالٌ ذَوُو عَدَدٍ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ، لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقُلْ لَهُ ذَلِكَ، أَلَا تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ؟ قَالَ: قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّمَا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ لِلْمُنَافِقِينَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ الْحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيَّ وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ وَهُوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، فَصَدَّقَهُ بِذَلِكَ.
‏‏‏‏ سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور بدر میں حاضر ہوئے ہیں اور انصار میں سے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میری آنکھیں جاتی رہیں اور میں اپنی قوم کی امامت کرتا ہوں، اور جب مینہ برستا ہے نالہ آتا ہے جو میرے اور ان کے بیچ میں ہے تو میں ان کی مسجد نہیں جا سکتا کہ ان کی امامت کروں اور اے اللہ کے رسول میری آرزو ہے کہ آپ تشریف لائیں اور ایک جگہ (میرے گھر میں) نماز پڑھیں تاکہ میں اسے نماز کی جگہ مقرر کر لوں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا میں ایسا ہی کروں گا اگر اللہ نے چاہا۔ سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب کچھ دن چڑھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں آئے تو بیٹھے نہیں اور فرمایا: تم کہاں چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں تمہارے گھر میں؟، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک کونا بتایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا اور ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرا۔ اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک رکھا تھا گوشت کی کڑی کے واسطے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پکائی تھی اور محلہ کے لوگ بھی آ گئے یہاں تک کہ کئی آدمی جمع ہو گئے گھر میں، سو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ مالک بن دخشن کہاں ہے؟ تو کسی نے کہا: وہ تو منافق ہے اور اللہ اور اس کے رسول کو دوست نہیں رکھتا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہ کہو اس کو تم نہیں دیکھتے کہ وہ لا الہٰ الا اللہ کہتا ہے۔ اس کلمہ سے اللہ کی رضا مندی چاہتا ہے۔ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ پھر ایک شخص نے کہا کہ ہم اس کی توجہ اور خیر خواہی منافقوں کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے آگ پر اس کو جو لا الہٰ الا اللہ کہے اور اس کہنے سے اللہ کی رضا چاہتا ہو۔ ابن شہاب نے کہا: پھر میں نے حصین بن محمد انصاری سے اس روایت کے بارے میں پوچھا جو محمود بن ربیع نے روایت کی ہے۔ سو انہوں (یعنی حصین بن محمد انصاری) نے اس روایت کی تصدیق کی اور وہ یعنی حصین بن محمد انصاری سالم کے سردار ہیں۔
حدیث نمبر: 1497
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن رافع ، وعبد بن حميدكلاهما، عن عبد الرزاق ، قال: اخبرنا معمر ، عن الزهري ، قال: حدثني محمود بن ربيع ، عن عتبان بن مالك ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وساق الحديث بمعنى حديث يونس، غير انه قال: فقال رجل: اين مالك بن الدخشن، او الدخيشن؟ وزاد في الحديث، قال محمود: فحدثت بهذا الحديث، نفرا فيهم ابو ايوب الانصاري، فقال: ما اظن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ما قلت؟ قال: فحلفت إن رجعت إلى عتبان ان اساله، قال: فرجعت إليه، فوجدته شيخا كبيرا قد ذهب بصره، وهو إمام قومه، فجلست إلى جنبه، فسالته عن هذا الحديث، فحدثنيه كما حدثنيه اول مرة، قال الزهري: ثم نزلت بعد ذلك فرائض وامور، نرى ان الامر انتهى إليها، فمن استطاع ان لا يغتر فلا يغتر.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍكِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَحْمُودُ بْنُ رَبِيعٍ ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ يُونُسَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ، أَوِ الدُّخَيْشِنِ؟ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ مَحْمُودٌ: فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ، نَفَرًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا قُلْتَ؟ قَالَ: فَحَلَفْتُ إِنْ رَجَعْتُ إِلَى عِتْبَانَ أَنْ أَسْأَلَهُ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَوَجَدْتُهُ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ، وَهُوَ إِمَامُ قَوْمِهِ، فَجَلَسْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: ثُمَّ نَزَلَتْ بَعْدَ ذَلِكَ فَرَائِضُ وَأُمُورٌ، نَرَى أَنَّ الأَمْرَ انْتَهَى إِلَيْهَا، فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَغْتَرَّ فَلَا يَغْتَرَّ.
‏‏‏‏ سیدنا محمود رضی اللہ عنہ نے سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یونس کے ہم معنی روایت بیان کی (یعنی جو اوپر مذکور ہو چکی) مگر اتنی بات زیادہ تھی کہ ایک شخص نے کہا: کہاں ہیں مالک بن دخشن یا (کہا) دخیشن؟ اور یہ بھی زیادہ کیا کہ محمود نے کہا کہ میں نے یہ روایت چند شخصوں میں بیان کی ان میں سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے تو انہوں نے کہا کہ میں گمان نہیں کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہو جو تم کہتے ہو۔ سو میں نے قسم کھائی کہ میں جا کر سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ سے پوچھوں گا۔ سو میں ان کے پاس گیا اور ان کو بہت بوڑھا پایا کہ آنکھیں جاتی رہیں تھیں اور وہ اپنی قوم کے امام تھے سو ہم ان کے بازو پر جا بیٹھے اور میں نے ان سے یہی حدیث پوچھی تو انہوں نے مجھے سے ویسی ہی بیان کر دی جیسے پہلے بیان کی تھی۔ زہری نے کہا کہ اس کے بعد اور چیزیں فرض ہوئیں اور بہت سے احکام الہٰی اترے کہ جن کو ہم جانتے ہیں کہ کام ان پر ختم ہو گیا۔ پھر جو یہ چاہے کہ دھوکہ نہ کھائے تو ضروری ہے کہ دھوکہ نہ کھائے۔
حدیث نمبر: 1498
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا الوليد بن مسلم ، عن الاوزاعي ، قال: حدثني الزهري ، عن محمود بن الربيع، قال: إني لاعقل مجة مجها رسول الله صلى الله عليه وسلم من دلو في دارنا، قال محمود : فحدثني عتبان بن مالك ، قال: قلت: يا رسول الله، إن بصري قد ساء، وساق الحديث إلى قوله: فصلى بنا ركعتين، وحبسنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على جشيشة صنعناها له، ولم يذكر ما بعده من زيادة يونس، ومعمر.وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ الأَوْزَاعِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: إِنِّي لَأَعْقِلُ مَجَّةً مَجَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ دَلْوٍ فِي دَارِنَا، قَالَ مَحْمُودٌ : فَحَدَّثَنِي عِتْبَانُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَصَرِي قَدْ سَاءَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ إِلَى قَوْلِهِ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، وَحَبَسْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَشِيشَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا بَعْدَهُ مِنْ زِيَادَةِ يُونُسَ، وَمَعْمَرٍ.
‏‏‏‏ سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ایک کلی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے محلہ کے ڈول سے کی تھی اور سیدنا محمود رضی اللہ عنہ نے کہا روایت کی مجھ سے سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ نے کہ کہا انہوں نے کہ میں نے عرض کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میری بصارت کم ہو گئی ہے اور بیان کی حدیث یہاں تک کہ سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا دو رکعت پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ اور روک رکھا ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کھانے کے لئے جس کو «جَشِيشَةٍ» کہتے ہیں کہ وہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پکایا تھا اور اس کے بعد ذکر نہیں کیا جیسے یونس اور معمر نے ذکر کیا ہے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.