الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
162. بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالْغَلَسِ:
162. باب: عورتوں کا رات میں اور (صبح کے وقت) اندھیرے میں مسجدوں میں جانا۔
(162) Chapter. Going of women to the mosques at night and in darkness.
حدیث نمبر: 864
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعتمة حتى ناداه عمر نام النساء والصبيان، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما ينتظرها احد غيركم من اهل الارض، ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة، وكانوا يصلون العتمة فيما بين ان يغيب الشفق إلى ثلث الليل الاول".حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَمَةِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ غَيْرُكُمْ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَلَا يُصَلَّى يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِالْمَدِينَةِ، وَكَانُوا يُصَلُّونَ الْعَتَمَةَ فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (حجرے سے) تشریف لائے اور فرمایا کہ دیکھو روئے زمین پر اس نماز کا (اس وقت) تمہارے سوا اور کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ ان دنوں مدینہ کے سوا اور کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اور لوگ عشاء کی نماز شفق ڈوبنے کے بعد سے رات کی پہلی تہائی گزرنے تک پڑھا کرتے تھے۔

Narrated `Aisha: Once Allah's Apostle delayed the `Isha' prayer till `Umar informed him that the women and children had slept. The Prophet came out and said, "None except you from amongst the dwellers of earth is waiting for this prayer." In those days, there was no prayer except in Medina and they used to pray the `Isha' prayer between the disappearance of the twilight and the first third of the night.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 823

   صحيح البخاري862عائشة بنت عبد اللهليس أحد من أهل الأرض يصلي هذه الصلاة غيركم ولم يكن أحد يومئذ يصلي غير أهل المدينة
   صحيح البخاري569عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم قال ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة وكانوا يصلون فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول
   صحيح البخاري864عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد غيركم من أهل الأرض ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة وكانوا يصلون العتمة فيما بين أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول
   صحيح مسلم1443عائشة بنت عبد اللهما ينتظرها أحد من أهل الأرض غيركم وذلك قبل أن يفشو الإسلام في الناس
   سنن النسائى الصغرى483عائشة بنت عبد اللهليس أحد يصلي هذه الصلاة غيركم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 483  
´نماز عشاء کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کو مؤخر کیا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، اور فرمایا: تمہارے سوا کوئی نہیں جو اس نماز کو (اس وقت) پڑھ رہا ہو، ان دنوں اہل مدینہ کے سوا کوئی اور نماز پڑھنے والا نہیں تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 483]
483 ۔ اردو حاشیہ:
➊ضرورت پڑنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلند آواز سے پکارنا جائز تھا۔ آپ کی موجودگی میں بلاضرورت اونچی آواز سے بولنا گناہ تھا، گستاخی تھی اور موجب حرمان تھا، پھر یہ واقعہ سورۂ حجرات کے نزول سے پہلے اسلام کے ابتدائی ایام کا ہے جبکہ اونچی آواز سے پکارنے کی ممانعت اور اس پر عمل کی بربادی کی وعید سورۂ حجرات میں آئی ہے۔
عورتیں اور بچے سوگئے۔ یعنی وہ عورتیں جو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں آئی تھیں اور ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بجے بھی تھے۔ یا گھروں میں عورتیں اور بچے سوگئے۔ دروازہ کھلوانا مشکل ہو گا۔ لیکن پہلا مفہوم ہی درست ہے۔
تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا۔ کیونکہ عیسائی و یہودی تو عشاء کی نماز پڑھتے ہی نہیں، صرف مسلمان ہی پڑھتے ہیں اور اس وقت اسلام مدینے سے باہر نہیں پھیلا تھا یا پھر مکے میں چند مجبورومقہور مسلمان تھے جن کو علانیہ نمازباجماعت پڑھنے کی ہمت ہی نہ تھی، چھپ چھپا کر پڑھتے تھے۔ اس جملے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اتنی تاخیر کے ساتھ مسجد نبوی کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مدینہ منورہ کی دیگر مساجد میں لوگ جلدی نماز پڑھ کر سوجاتے تھے۔ اس صورت میں تم سے مراد مسجد نبوی کے نمازی ہوں گے، پہلی صورت میں عام مسلمان مراد ہوں گے۔ واللہ أعلم۔
➍اس حدیث سے بظاہر امام صاحب کا استدلال واضح نہیں ہے لیکن آپ کا یہ فرمانا: تمہارے علاوہ کوئی شخص یہ نماز نہیں پڑھتا اس امت کی خصوصیت واضح کرتا ہے، اس لیے اس نماز کا اہتمام ضروری ہے۔ نماز کے لیے منتظر رہنا اس کے اہتمام میں شامل ہے، لہٰذا یہ عمل اس کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 483   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 864  
864. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں تاخیر کر دی یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند آپ کو پکارا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس کے بعد نبى ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: اہل زمین میں سے تمہارے علاوہ کوئی بھی اس نماز کا منتظر نہیں ہے۔ ان دنوں مدینہ کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اور لوگ سرخی غائب ہونے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:864]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ عورتیں بھی نماز کے لیے حاضر تھیں، تب ہی تو حضرت عمر ؓ نے یہ جملہ بآواز بلند فرمایا تاکہ آپ ﷺ تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔
ترجمہ باب اسی سے نکلتا ہے کہ عورتیں اور بچے سو گئے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی رات کو عشاءکی نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتیں۔
اس کے بعد جو حدیث امام بخاری ؒ نے بیان کی، اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ رات کو عورت مسجد میں جا سکتی ہے۔
دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔
یہ حدیثیں اس کو خاص کرتی ہیں یعنی رات کو روکنا منع ہے۔
اب عورتوں کا جماعت میں آنا مستحب ہے یا مباح اس میں اختلاف ہے۔
بعضوں نے کہا جوان عورت کو مباح ہے اور بوڑھی کو مستحب۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ عورتیں ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔
امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا میں عورتوں کا جمعہ میں آنا مکروہ جانتا ہوں اور بڑھیا عشاءاور فجر کی جماعت میں آسکتی ہے اور نمازوں میں نہ آئے اور ابویوسف ؒ نے کہا بڑھیا ہر ایک نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہے اور جوان کا آنا مکروہ ہے۔
قسطلانی۔
(مولانا وحید الزماں مرحوم)
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا قول خلاف حدیث ہونے کی وجہ سے حجت نہیں جیسا کہ خود حضرت امام ؒ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 864   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.